Qalamkar Website Header Image

پڑوسی ہمارے ہیں کمال کے

neighbour-noiseہمارے پڑوسی اچھے اور ملنسار ہیں بہت خیال رکھنے والے اچھے پڑوسی ہیں۔ اتنے اچھے کہ دل کرتا ہے دائیں بائیں آمنے سامنے کہیں بھی ایسے پڑوسی نہ ہوں ۔اچھے پڑوسی بھی خدا کی نعمت ہیں اور ہمارے پڑوسی تو نعمت و رحمت ساتھ ساتھ ہیں ۔دائیں طرف رہتے ہیں بیگ صاحب، اتنا بھاری بھر کم نام اور مرنجان مرنج انسان نہایت ہی شریف انسان ہیں بس ایک مسئلہ ہے کہ ان کے گھر کے نلکے ، پنکھے، فرج ،ٹی وی خود با خود خراب ہوجاتے ہیں ۔۔حالانکہ اس میں زرا برابر بھی ان کے آدھے درجن بچوں کا ہاتھ نہیں نا ان کی نابغہ روزگار بیگم کا ۔اب اس میں بے چارے بیگ صاحب کا کیا قصور ۔نل خراب ہے تو پانی تو چاہئے نا ۔گٹر خراب ہے تو باتھ  روم تو جانا ہے از حد ضروری ہے پنکھے خراب ہیں تو بےچاروں کو گرمی بھی لگے فرج نے داغ مفارقت دے دیا تو ٹھنڈا پانی لینے کہاں جائیں گے بےچارے اور سب سے بڑھ کر ٹی وی کہ جب تک چار سے گیارہ کی نیوز نہ دیکھ لیں بیگ صاحب کو بلڈپریشر کی شکایت ہو جاتی ہے۔روزانہ خبریں دیکھ کر طبیعت بحال ہوجاتی ہے اور بیگ صاحب کو جب بھی کوئی مسئلہ ہوتا  ہے کہ حقوق العباد بھی ہم پر فرض ہیں سو سارا دن برف پانی ،اسٹینڈ فین ،ہتھوڑی پائے کی برآمد جاری رہتی ہے۔ ٹھیک چار بجے بیگ صاحب ابا جان کے کمرے میں محواستراحت ہوتے ہیں اور چولہے پر چائے کھولتی ہے اور ہماری اماں کا دماغ ۔اباجان ہمارے صدا کے مہمان نواز جو ان کے روز روز کے مہمانوں کو بھی نوازنے سے باز نہیں آتے کہ آج کل تو زمانہ ہی نوازنے کا ہے ۔بائیں طرف ہیں مرزا صاحب ،یہ اچھے خاصے سرکاری افسر ہیں اس لئے ان سے ہمیں کوئی مسئلہ نہیں کہ ان کے پاس  اللہ کا دیا اور بندوں کا لیا سب کچھ ہے ۔سو ان کی چیزیں کبھی خراب نہیں ہوتیں کیونکہ تحفے تحائف ہی اتنے مل جاتےہیں کہ پرانی چیز خودبخود بیگم مرزا کی اماں کےگھر پاپوش منتقل ہوجاتی ہیں ۔مرزا صاحب بڑے ہی پرہیزگار اور مذہبی انسان ہیں ۔صبح فجر سے فارغ ہو کر با آواز بلند قوالی سنتے ہیں اور سب محلے والوں کو بھی اس ثواب میں شامل کرتے ہے اور اگر کسی دن کمبخت لائٹ چلی جائے تو مرزا صاحب کی حالت جل بن مچھلی جیسی ہوجاتی ہے۔ اب ان کے منجھلے فرزند نے اس کا حل بھی ڈھونڈ لیا ہے مرزا صاحب کی میرون مہران میں ڈیک لگا دیا ہے اب اگر لائٹ جائے تو محلے والے کم از کم اس ثواب سے محروم نہیں ہوں گے۔  پرسوں صبح تو ہم حیران ہو گئے با آواز بلند قوالی سنتے بیگ صاحب کو گاڑی میں بیٹھے دیکھا ایسا لگ رہا تھا کہ  ٹشنج کے جھٹکے لگ رہے ہیں ہم اپنی اماں کو زبردستی اٹھا کر لائے کہ اماں  دیکھئے مرزا  صاحب کو کیا ہوا۔ ہماری اماں کو ناک کی بھنگ پر عینک ٹکائی اور غور سے دیکھا ارے کچھ نہیں ہوا لڑکی موئے کو حال آرہے ہیں ۔لو اب یہ حال کیا ہوتے ہیں ہماری اماں بھی نا پتا نہیں کون سے زمانے کی باتیں کرتی ہیں۔ اب آئیں سامنے والے پڑوسی بلکہ پڑوسن کی طرف ۔میاں ان کے کسی مل میں کام کرتے ہیں اس لئے نائٹ ڈیوٹی بھگتے ہوئے کسی سے ملتے نہیں ہیں اور ان کی بیگم بہت ہی سلیقہ مند خاتون ہیں گھر ان کا ہر وقت چم چم کرتا ہے ۔جوتے چپل پہن کر اندر آنے کی اجازت کسی کو نہیں ہے۔ ان کے میاں کو بھی نہیں۔ بے چارے ساری رات ڈیوٹی کی بعد گھر آتے ہیں جوتے اتروا کر جھڑوا کر اندر آنے دیتی ہیں بیگم۔عقیلہ نام ہے ہماری پڑوسن کا جن کا سلیقہ سارے محلے میں مشہور ہے۔  بس ایک کی سمجھ نہیں آتی عقیلہ خاتون گھر کی جھاڑو پونچھ کر کے سارا کچرا ہمارے ڈسٹ بن میں کیوں ڈال جاتی ہیں۔ ہم نے ان کے گھر آگے کبھی ڈسٹ بن نہیں دیکھا۔ اللہ معاف کرے آدھی رات کو بھی یہ صاحبہ کچرا کوڑا لئے چلی آتی ہیں اور ہم گرل میں سے دیکھتے ہوئے خاموش ہیں کہ ہمارے ابا کی دور کی کزن ہوتی ہیں جن سے کسی زمانے میں ابا کے رشتے کی بات چلی تھی ۔تو اگر ہم ان کے کچرے ڈالنے کا برا مانے تو ہمارے ابا پڑوسیوں کے حقوق پر وہ لیکچر دیتے ہیں کہ اس سے بہتر ہے ہم اپنا کوڑا شاپر میں ڈال کر خود ہی کہیں پھینک آئیں ۔ایک پڑوسن عقیلہ کے برابر والے گھر میں رہتی ہیں جہاں آرا بیگم ۔صبح سویرے اٹھ کر سارے محلے کی خیریت دریافت کرنے نکل پڑتی ہیں۔ چائے پانی سے فارغ ہو کر چلتے وقت  ہر گھر سے کہیں سے ادرک کہیں سے لہسن کہیں سے ٹماٹر حتیٰ کہ ہلدی، دھنیا، مرچ نمک تک مانگ کر لیتی ہیں۔ ہم تو ہیں ہی پڑوسیوں کے حقوق کے علم بردار تو ہمارے کچن سے تو ان کو دودھ چائے ۔مہمانوں کے آنے پر ٹی سیٹ ،گلاس دسترخوان ،چمچے سب کے سپلائی جاری رہتی ہے۔

حالیہ بلاگ پوسٹس