ڈاکٹر مشتاق صاحب نے اپنے مضمون "فقہ اور اصولِ فقہ کے متعلق جہلِ مرکب کا شاہ کار” میں حسن الیاس صاحب کی تحریر "اگر زینب زندہ ہوتی” کے جواب میں اصل بات کو ایڈریس ہی نہیں کیا اور دیگر باتوں میں الجھا کر فقہ کی اس پوزیشن کے نقائص سے توجہ ہٹانے کی سعی کی ہے۔
حسن الیاس صاحب کی پوسٹ زندہ بچ جانے والی زینب اور دوسری بچیوں کا فقہی نوحہ تھی۔ زندہ زینب ہمارے لیے اتنا بڑا مسئلہ کیوں نہیں ہے جتنا کہ موت کی آغوش میں جانے والی زینب کا ہے؟ جانے والی تو اپنی اذیت سہہ چکی، زندہ کی اذیت تو ہر لمحہ اس کا مقدر رہے ہے۔ ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ اس مظلوم کی دار رسی ہماری وہ فقہی عدالت کیا کرتی ہے جس کے نفاذ کے لیے زینب کے والد کے قائد نے کئی جانیں قربان کروا دیں۔ ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ اسے اس قانون میں کیا انصاف ملے گا جس کی خاطر زینب کے اسلامسٹ بھائی اپنی جانیں دے اور دوسروں کی جانیں لے رہے ہیں۔
زنا بالجبر کے معاملات میں فقہی پوزیشن میں اتنے نقائص ہیں کہ جج کو مجرم کو دینے کے لیے کسی شرعی سزا کا پابند نہیں کیا جا سکتا۔ ڈاکٹر مشتاق صاحب نے فقہ میں سمجھی گئی شرعی پوزیشن کے نقائص کو جج یا قاضی کے سیاستہ اختیار کے ذریعے پورا کرنے کی کوشش کی ہے یعنی جج کی صوابدید ہے کہ کوئی سزا دے نہ دے یا کوئی معمولی سزا دے یا انتہائی سزا دے یہ اس کا اختیار ہے۔ مگر شرعاََ وہ پابند نہیں ہے۔
ہم مسئلے کو ان متعین سوالات کی صورت میں سامنے رکھ دیتے ہیں تاکہ قارئین کو بات سمجھنے میں آسانی ہو۔ کیا زنا بالرضا اور بالجبر کو فقہ میں ایک ہی جرم تصور کیا گیا ہے یا نہیں؟ دونوں جرائم کے ثبوت کا نصاب چار عینی گواہ ہیں یا نہیں ؟ دونوں جرائم کی شرعی سزا ایک ہی ہے یا نہیں ؟ یعنی مجرم کنوارا ہو تو سو کوڑے اور شادی شدہ ہو تو سنگسار کرنا ہے۔ جن کیسز میں قتل نہیں ہوا صرف زنا بالجبر ہوا وہ فساد فی الارض کے زمرے میں آتے ہیں یا نہیں؟ مشتاق صاحب نے زینب کے کیس کو فساد فی الارض کہہ کر ایک خلط مبحث کیا ہے۔ حسن صاحب نے ایک زندہ زینب کا کیس لیا ہے۔ کیا بغیر قتل کے ایک زندہ بچی یا خاتون کے ساتھ بالجبر زنا ہماری فقہ میں فساد فی الارض میں شمار ہوتا ہے یا نہیں؟ بچی کی گواہی قابل قبول ہے یا نہیں ؟
بچی کو چھوڑیں ایک عاقل بالغ خاتون کی گواہی حدود میں معتبر ہے یا نہیں؟ اس کی گواہی پر شرعی حد کا نفاذ ہوگا یا نہیں؟ ایسے کیسز میں بار ثبوت مدعی پر ہے یا نہیں؟ فقہ میں طرفہ تماشا یہ ہے کہ عورت کی گواہی پر قاضی تعزیراً سزا تو دے سکتا ہے لیکن حد جاری نہیں کر سکتا۔ یعنی زنا بالجبر کی متاثرہ خاتون کی اکیلی گواہی ثبوت جرم کے لیے کافی نہیں۔ سوال یہ ہے کہ جرم اگر ثابت ہے تو حد کیوں نہیں، اور ثابت نہیں تو تعزیر کیوں؟ ایسا نہیں ہو سکتا ہے کہ عورت کی گواہی سے آدھا جرم ثابت ہوتا ہے اس لیے تعزیز کی سزا دی جائے گی اور مرد کی گواہی سے پورا اس لیے شرعی حد نافذ ہوگی۔ فقہ کی رو سے شرعی پوزیشن وہی ہے جو حسن الیاس صاحب نے بیان کی۔ تعزیر اور سیاستہ سزا کے اختیار کا معاملہ وہاں درست ہے جہاں اصل جرم ثابت نہ ہو سکے اور جج اپنا اختیار استعمال کرے۔ یہاں تو چار عینی گواہوں کے بنا جرم اصلا ثابت ہی نہیں ہو سکتا۔
فقہ میں سمجھی گئی شرعی پوزیشن کے ان نقائص کو تعزیر یا سیاستہ سزا سے دور کرنے کی کوشش گویا شریعت میں موجود کمی کو انسانی صوابدید سے پورا کرنا ہے۔ ہمارا موقف اس میں یہ ہے کہ زنا بالجبر اصلاً فساد فی الارض ہے جس کی سخت ترین سزائیں قرآن میں بیان ہوئی ہیں جس میں عبرت ناک طریقے سے قتل کرنا بھی ہے۔ اسے جج کی صوابدید پر نہیں چھوڑا گیا اور نہ اس کے لیے چار عینی گواہوں کا ثبوت فراہم کرنے کی شرط عائد کی گئی ہے۔ اس میں متاثرہ خاتون یا بچی کی گواہی، بالغ عورت، ڈی این اے ٹسٹ اور ہر اس ثبوت سے سے بھی حتمی طور پر جرم ثابت ہو سکتا ہے جو عدالتوں میں ثبوت جرم کے لیے معقول اور قابل قبول مانے گئے ہیں۔ چوری اگر بڑھ کر ڈاکہ بن جائے تو فساد فی الارض میں شمار کی جاتی ہے تو زنا بڑھ کر بالجبر ہو جائے تو فساد فی الارض میں کیوں شمار نہیں ہوتا؟ مال کے خلاف جارحیت فساد ہے تو آبرو کے خلاف جارحیت فساد کیوں نہیں؟ یہ ہیں وہ مسائل جن کی طرف توجہ دلانا مقصود تھا۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn