کالی قبا پہنے ہاتھوں میں مسلے ہوئے پھول لئے وہ سنگلاخ راستوں پہ چلی جارہی تھی۔ اس کے زخم آلود پاؤں کی ایڑھیوں سے رستا ہوا خون اس کے راستے کا نقشہ بنا رہا تھا۔ میں اس کے پیچھے چل دی۔ وہ رفعتِ آسماں کی گل پوش وادیوں کی طرف لحظہ بہ لحظہ بڑھتی چلی جا رہی تھی۔ اس کی دھیمی رفتار میں صدیوں کا کرب تھا۔ بکھرے میلے کچیلے بال، ٹھنڈا وجود،اجڑی ہوئی آنکھیں،خالی ہاتھ، پتھر چہرہ اور کچھ کہنے کی آس میں لرزتے ہوئے ہونٹ ۔۔۔۔ میں اس کا حلیہ دیکھ کر حیران رہ گئی.”ارے! کون ہو تم ؟ کہاں جا رہی ہو؟ کچھ تو بتاؤ.” میں نے اس کے قریب جاتے ہوئے پوچھا.”تمہارا یہ حال اور اتنا کٹھن سفر…کیا ہوا تمہارے ساتھ…” دفعتہً اس پتھر کی مورتی میں جیسے ہلکی سی جنبش ہوئی، اس نے زندگی کے درد سے بوجھل پلکیں اٹھائیں، اس کی آنکھوں میں پتھر کے کنارے تھے جو نم ہو ہو کر سوکھ چکے تھے. "میں بنتِ حوا ہوں”. وہ گویا ہوئی. "میں اپنے خالق کو بتانے جا رہی ہوں کہ یہ دنیا میرے لیے نہیں تھی.یہاں تو برائے نام سب میرا تھا. یہاں تک کہ میری ردا بھی ابن آدم سے مستعار تھی. مجھے کیا معلوم تھا کہ مجھے پامال کرنے اور میرا شکار کرنے کے لئے ایک درندہ و سفاک وجود اس دنیا میں آباد ہے اور ازل سے میری گھات لگائے بیٹھا ہے. وہ تو رحم مادر سے ہی میرے وجود کو تار تار کرنے اور بوٹی بوٹی نوچنے کا منتظر تھا.اس نے تو یہ نہیں دیکھا کہ میں گودِ پدر میں اماں کے ہاتھ سے سلی ہوئی کپڑے اور روئی کی گڑیا سے بھی نرم وجود ہوں اور اس نے مجھے تار تار کر ڈالا. یہی نہیں میری سانسیں بند کر کے چیل کووّں کے لئے پھینک دیا. میں نے سوچا مٹی میں چھپ جاتی ہوں. مٹی تو پناہ دے گی مجھے. پر میں بنتِ حوّا تو سفید کفن میں منوں مٹی تلے بھی نہ چھپ سکی.جب میرے آسودہُ خاک وجود کو ہوس کے ناپاک ہاتھوں نے چھوا تو قبرستان کے مکین آسیبوں نے بھی تماشا دیکھا. ان کے منتر بھی میرے کام نہ آئے. مجھے نہ بچا سکے. میری پتھر آنکھوں کے کنارے بے حسی کے پانی سے گیلے نہ ہو سکے. میں اپنے مردہ نیلے ہونٹ بے حرمتی کے کرب سے بھینچ نہ سکی. دعاؤں ،پھونکوں اور وظیفوں بھرا میرا کافوری کفن ہوس کے گندے پانیوں سے گیلا اور بدبودار ہو گیا اور اب…اب تو میں نے زندگی و موت کے تقسیم خانے ایک شفاخانے میں پناہ لی تھی کہ زندگی پا سکوں، اپنی بیماری کو منا لوں۔ اٹھ کے چل پھر سکوں، کیا پتہ تھا کہ میرے ادھ مَرے جسم کی بو سونگھتا ہوا وہ رذیل وجود ادھر بھی آ نکلے گا اور میری لاچاری و بے بسی کو چاٹ جائے گا اور انسانیت کسی کو منہ دکھانے کے لائق نہیں رہے گی اور مجھ لاکھ پردوں میں رہنے والی کی کہانی زبان زدِ عام ہو جائے گی” ….”بس کر خاموش ہو جا اے بنتِ حوّا!” میں تڑپ گئی. تیری روداد سن کر تو وجودِ بشر لرز اٹھا ہے. ساتویں آسمان پر رب کا عرش غصے سے تھر تھر کانپ رہا ہے. زلزلے کیسے نہ آئیں ؟ ھم خوش فہم لوگوں کو پانیوں کے ریلے، برف کے تودے، قطرے قطرے میں قہرفشانی کرتی ہوئی بارشیں، چیختی چلاتی ہوئی آندھیاں، درد کی تیز ہوائیں کیوں نہ ڈرائیں… اٹھ اے بنتِ حوّا!تو سچ کہتی ہے یہاں کچھ اچھا نہیں ہے. یہ دنیا تیرے لیے نہیں ہے.. جا اپنے خالق سے "کوئی اور دنیا مانگ”
حمیرا جبین درس و تدریس کے شعبے سے وابسطہ ہیں۔ ایم فل سکالر ہیں۔ تین مضامین میں ماسٹرز کر چکی ہیں۔ ایک زبردست شاعرہ ہونے کے ساتھ ساتھ افسانہ نگار بھی ہیں۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn