یوم کشمیر پر آج ایک مرتبہ پھر وہی نعرے ، وہی دعوے ، وہی تقاریر ، وہی مطالبات ، وہی ارادے دہرائے جائیں گے جو گذشتہ نصف صدی سے کئے جارہے ہیں۔۔۔ جلسے ، جلوس ، قراردادوں ، مظاہروں کا انعقاد کرکے ہم اپنا ’’فرض‘‘ بھی پورا کریں گے اور خود کو تسلی بھی دیں گے کہ ہم کشمیریوں کے ساتھ ہیں، مگر عملاً ہمیں صرف اپنے مفادات ہی عزیز ہیں ۔ ہم مظلوم کشمیریوں کے ساتھ ’’سالانہ یکجہتی‘‘ ہر مرتبہ اسی جوش و جذبے ، ولولے اور عزم سے مناتے ہیں جس کا اظہار ہم 1947 سے اب تک پوری شد و مد کے ساتھ کرتے چلے آرہے ہیں ۔۔۔ آج پھر کشمیریوں کی آزادی ، ہندو کی مرمت اور حکومت کے کردار کی باتیں ہوں گی اور عالمی برادری پر لعن طعن کی جائے گی ۔۔۔ اخبارات چیخیں گے ، ٹی وی چینلز چلائیں گے ، بھارت کا کشمیریوں پر انسانیت سوز ظلم دکھایاجائے گا اور اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرنے پر زور دیا جائے گا ۔۔۔ لیکن 5 فروری گزرنے کے بعد یوں خاموشی طاری ہوجائے گی جیسے کشمیر کا مسئلہ کبھی تھا ہی نہیں ۔ ذرائع ابلاغ پر اکا دکا خبریں آئیں گی اور پھر لمبی خاموشی ۔۔۔
70 سال گزر گئے ، ہم کشمیریوں کو ظلم و جبر سے نجات دلا سکے اور نہ ہی ان کا فیصلہ کروا سکے ۔۔۔ ہماری کئی نسلیں ’’کشمیر بنے گا پاکستان اور کشمیر ہندو کی مرمت سے آزاد ہوگا‘‘ جیسے نعرے سنتے اگلے جہاں سدھار گئیں ۔۔۔ خود مجھے بھی ’’کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے ، کشمیر ہمارا ہے اور سارے کا سارا ہے اور کشمیر پاکستان کا حصہ ہے ‘‘ جیسے نعرے سنتے تین دہائیاں ہوگئیں ۔۔۔ ہماری نئی نسل نے بھی جب سے آنکھ کھولی ہے ، یہی سنتے اور پڑھتے آرہے ہیں ، مگر کشمیر کو اپنانے کا خواب تکمیل تک پہنچنے کا نام ہی نہیں لے رہا ۔۔۔ ہر نسل مسئلہ کشمیر کو اپنی کتابوں میں پڑھ رہی ہے ، مگر مسئلہ جوں کا توں ہے ۔۔۔ خود کشمیری اپنی آزادی کے حصول کی خاطر ڈیڑھ لاکھ سے زائد جانیں گنوا بیٹھے ۔۔۔ ریاستی دہشت گردی ، کالے قوانین جیسے ہتھکنڈوں ، پیلٹ گن طرز کے ممنوعہ ہتھیاروں کے ذریعے ان کے قتل عام ، بینائی چھیننے ، زمینیں ، جائیدادیں ہتھیانے ، آزادی پسند راہنماؤں کی آواز دبانے کیلئے نظر بندی اورگرفتاریوں جیسے اقدامات برداشت کئے ، ہزاروں نوجوانوں کو بھارتی جیلوں اور عقوبت خانوں میں انسانیت سوز مظالم اور بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور اب بھی بن رہے ہیں ۔۔۔ یہاں تک کہ انہیں سفری دستاویزات نہیں دی جاتیں جبکہ بھارتی بربریت سے زخمی ہونے والے کشمیریوں کے علاج میں بھی رکاوٹ ڈالی جاتی ہے ۔۔۔ ریلیف اور انسانی حقوق کے اداروں تک کا وہاں داخلہ بند ہے ۔ یعنی کشمیریوں کی جدوجہد مسلسل خون میں نہلائی جارہی ہے اور اس قدر قربانیوں کے باوجود وہ منزل سے تاحال دور ہیں ۔ اس کی بنیادی وجہ صرف یہی ہے کہ یہاں گذشتہ نصف صدی سے کشمیر پر صرف سیاست کی جارہی ہے اور ان کی سادگی و معصومیت کا ناجائز فائدہ اٹھایا جارہا ہے ۔۔۔ کشمیر کاز کی باتیں کرنے والوں نے اپنا حق درست طریقے سے ادا کیا ہوتا تو آج سادہ لوح کشمیری آزاد ہوچکے ہوتے ۔
مقام افسوس ہے کہ ہماری سیاسی قیادتیں مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی بھارتی بربریت و سفاکیت کی مذمت توکرتی ہیں لیکن کشمیریوں کو اس ظلم سے نجات دلانے کیلئے کوئی اہم مشترکہ قدم اب تک نہیں اٹھایا گیا ، نہ ہی کوئی مسئلہ کشمیر کا مستند حل پیش کرپایا ہے ۔۔۔ یہ امر حقیقت ہے کہ کشمیر پاکستان کا حامی ضرور ہے مگر وہ نہ تو پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتا ہے اور نہ ہی ہندوستان کے ساتھ ۔۔۔ کشمیری اپنے ملک میں آزاد رہنا چاہتے ہیں اور اسی مقصد کیلئے وہ حق خودارادیت چاہتے ہیں ۔۔۔ اس ضمن میں انہیں سپورٹ چاہئے جو صرف پاکستان سے مل رہی ہے ، دنیا کا کوئی دوسرا ملک ان کی پشت پناہی پر تیار نہیں ہے ۔ اسی لئے ان کی نگاہیں مدد کیلئے پاکستان کی جانب اٹھتی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ آج کشمیر میں نہ صرف پاکستان زندہ باد کے نعروں کی گونج میں شدت آتی جارہی ہے بلکہ وہاں کے قبرستانوں میں بھی شہداء کی قبروں پر فخریہ پاکستان کا پرچم لہرایا جاتا ہے ۔ کشمیری عوام نے آزادی کیلئے انسانی تاریخ کی عظیم قربانیاں پیش کی ہیں ، اس کا صلہ ملنا بہرحال ان کا حق ہے اور انہیں یہ حق دلانا بحیثیت ہمسایہ ہمارا فرض کفایہ ہے ، کیونکہ وہاں کی ظلم و بربریت کے اثرات بھارتی سازشوں کی صورت میں مسلسل پاکستان پر بھی پڑ رہے ہیں ۔
پاکستان بھی اگرچہ گذشتہ کچھ عرصہ سے ’’بوجوہ‘‘ کشمیر کاز کو کھل کر سپورٹ کرنے اور ایک ’’مضبوط‘‘ موقف اپنانے پر مجبور ہوا ہے ، مگر ایک فریق کی حیثیت سے کشمیر کے معاملے پر کل بھی تنہا تھا ، آج بھی اس کی بات سننے پر کوئی تیار نہیں ہے ۔ ہماری سیاسی جماعتوں میں سے بھی کوئی کشمیر کو پاکستان کے ساتھ شامل کرنے کا نعرہ لگاتا ہے تو کوئی اسے خودمختاری اور حق خودارادیت دلانے کا موقف اپنائے ہوئے ہے ۔ شاید اسی لئے نہ تو وہ ایک مشترکہ پلیٹ فارم سے جدوجہد کرپارہی ہیں اور نہ ہی حکومت یا دیگر ممالک پر دباؤ ڈالنے میں کامیاب ہوئی ہیں ۔۔۔ ہر پارٹی سالانہ ایک بیان جاری کرکے یا کسی پروگرام کا انعقاد کرکے گونگلوؤں سے مٹی جھاڑتی ہے ، حالانکہ یوں فرض کفایہ ادا ہونا ہوتا تو اب تک ہوچکا ہوتا ۔ سیاسی قیادتوں کو عالمی اپرووچ کیلئے اس معاملے میں حکومت کا بازو بننا چاہئے تھا لیکن ہر جماعت اس مسئلے پر الگ الگ سیاست اور علیحدہ علیحدہ آواز بلند کرتی ہے ۔ سیاستدانوں کا مجموعی رویہ کشمیر حوالے مسلسل غیرسنجیدہ ہے ۔
انہی وجوہات کی وجہ سے خطے کا امن پر داؤ پر لگا ہوا ہے ۔ بھارت پاکستان سے گولی اور گالی کی زبان میں بات کرتا ہے ۔۔۔ کبھی پاکستانی سرحدوں پر گولہ باری کرتاہے تو پاکستان کا پانی بند کرنے کی دھمکی دیتا ہے ۔۔۔ کبھی ترقی یافتہ ممالک کو پاکستان سے منہ موڑنے پر زور دیتا ہے تو کبھی پاکستان کے خلاف عالمی صف بندی کرکے ملک پر چڑھائی کی دھمکی دیتا ہے ۔۔۔ کبھی کشمیریوں کے ساتھ پاکستان کی ہمدردی کو دخل اندازی اور دہشتگردی سے منسوب کرکے اقوام عالم کی توجہ بانٹنے میں کامیاب ٹھہرتا ہے تو کبھی مختلف ہرزہ سرائیاں کرتا ہے ۔
ستم بالائے ستم تو یہ ہے کہ ہندوستانی لابی کشمیر بارے اپنے جھوٹے مقدمے کو عالمی سطح پر سچ بنا کر پیش کر رہی ہے اور ہماری لابی کا سرے سے وجود ہی نہیں ہے ۔ تنہا فریق کی تو کسی بھی فورم پر شنوائی نہیں ہوتی ۔ پاکستان کو چاہئے تھا کہ وہ مختلف ممالک کو اس ضمن میں اپنا ہم آواز کرنے کیلئے لابنگ کرتا اور اجتماعی آواز بلند کرتا تو ممکنہ طور پر یہ ایک مضبوط فریق کے طور پر ابھرتا اور عالمی برادری پاکستان کی بات سننے پر مجبور ہوتی ، یوں پاکستان کشمیریوں کے سامنے سرخرو ہوتا ۔۔۔ مگر ایسا نہ کر سکنے کی وجہ سے یہ مقدمہ دن بدن کمزور ہوتا جارہا ہے ۔ اگرچہ حالیہ چند مہینوں سے کشمیر میں آزادی کی تحریک میں شدت آئی ہے ، مگر عالمی دنیا کے کانوں پر اس چیخ و پکار نے کوئی اثر نہیں ڈالا ۔ مگر پاکستان کے علاوہ کشمیر کا مقدمہ اور کوئی ملک نہیں لڑرہا جس کی وجہ سے پاکستان کسی بھی فورم کو کشمیر کے معاملے پر اپنے ہم آواز نہیں کرپایا ۔ یہاں تک کہ نام نہاد کشمیر کمیٹی نے بھی اپنا کردار ادا نہیں کیا ، صرف بیٹھ کر تنخواہیں کھائی اور مراعات لی ہیں ۔
کشمیریوں کو ہماری اخلاقی سے بڑھ کر سیاسی ، سفارتی ، عسکری ، معاشی حمایت درکار ہے ، جب تک انہیں وہ نہیں ملے گی ، تب تک ہماری جانب سے ہر سال اقوام متحدہ کی قراردادوں پر رونا دھونا ، بھارتی ننگی جارحیت پر ماتم کرنا اور عالمی برادری کی بے حسی کا ڈھنڈورا پیٹنا بیکار ہے ۔۔۔ ہم کشمیریوں کی لازوال قربانیوں کے معترف ہیں ، مگر انہیں حق خودارادیت دینے اور ہندو کی مرمت کرکے کشمیر آزاد کرانے کا لالی پاپ تو ہم بچپن سے چوستے آئے ہیں ۔۔۔ کیا ہندو اس قدر طاقتور ہوگیا ہے کہ جہادیوں کی مرمت بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکی ، یا ہماری منصوبہ بندی صرف قراردادوں ، جلسوں ، مظاہروں ، ریلیوں ، بیان بازیوں ، مذمتوں اور عالمی برادری سے ثالثی کے مطالبات تک ہے ؟
اب تو حالات اس ڈگر پر چل پڑے ہیں کہ نئے امریکی صدر ٹرمپ کے انتخاب کے بعد ایک شیطانی ٹرائیکا وجود میں آچکا ہے ۔ ٹرمپ کی سخت گیر پالیسیوں کے ساتھ ساتھ اس کا نریندر مودی کی طرف دوستی اور محبت کا ہاتھ بڑھانا بھارت کو سنگین جرائم کے ارتکاب کی پشت پناہی کا اشارہ ہے ۔ اسلامی ممالک اور تیسری دنیا پر قبضے کیلئے اس شیطانی تکون ، جس کی سربراہی ڈونلڈ ٹرمپ کو ملی ہے ، کی منصوبہ بندی سے مسلم اور تیسری دنیا کے ممالک کی معیشت ، سیاست اور خودمختاری گروی ہوکر رہ جائے گی ۔ اس شیطانی تکون کی کوششوں کو تقویت ملنے کی اصل وجہ عالم اسلام کی قیادت ہے جس کی نااہلی کی وجہ سے کشمیر ، فلسطین ، شام ، حلب ، مصر ، لیبیا، یمن ، برما ، اور دیگر ممالک میں خون مسلم پانی کی طرح بہایا جارہاہے۔ شامی اور افریقی مہاجرین دربدر ہیں۔ اس تکون کی دشمنانہ پالیسیوں کے اثرات بہت دور تک جائیں گے اور کشمیر کا مسئلہ حل ہونے کی بجائے پہلے سے سے سنگین ہوجائے گا ۔ ان حالات میں دنیا بھر کی جمہوری قوتوں ، بالخصوص عالم اسلام کا اتحاد ہی انسانیت کے تحفظ کی ضمانت اور مسائل کا حل ہے ۔
اب وقت آگیا ہے کہ حکومت سنجیدگی اختیار کرے اور کشمیر بارے ایک روڈ میپ اور واضح لائحہ عمل دے ۔۔۔ تحریک آزادی کی انقلابی لہر کو مایوسی سے بچانے اور نتیجہ خیز بنانے کے لیے قومی اور کشمیری قیادت کی مشاورت سے ایک ایسی جامع حکمت عملی تشکیل دی جائے جس سے کشمیریوں کے حوصلے بھی بلند ہوں اور بین الاقوامی سطح پر بھارت پر دباو بھی ڈالا جاسکے جو اسے مسئلہ حل کرنے پر مجبور کرے ۔ محض یوم کشمیر منالینے ، یکجہتی کرلینے ، پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں قراردادیں منظورکرلینے یا جلسے ، جلوسٍوں ، مظاہروں سے ہم اپنے حصے کا کام تو کررہے ہیں مگر ان سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔
اس کا واحد حل مشترکہ پلیٹ فارم سے حکومت کے ذریعے لابنگ کروانا اور بین الاقوامی فورم پر اس مسئلے کو بھرپور انداز میں اور مسلسل زیر بحث لانا ہے ۔ جب تک حق خودارادیت دلانے کیلئے مضبوط لابنگ نہیں ہوگی ہم کشمیریوں پر ظلم کی داستانیں بیان کرتے اور ان سے یونہی ’’اظہار یکجہتی‘‘ کرکے خود کو تسلی اور انہیں دھوکہ دیتے رہیں گے ۔ ایسی صورت میں عالمی برادری اور حکمرانوں کی بے بسی کا ماتم بے جا ہوگا ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ وزارت خارجہ کے ذریعے تمام ممالک میں پاکستانی سفارتخانوں کو اس ضمن میں متحرک کیا جائے ۔ نیز وزیر اعظم خود اہم دارالحکومتوں کادورہ کرکے خون میں نہلائی ہوئی جدوجہد کو اجاگر کرکے اس کے حل کی جانب قدم اٹھانے پر مجبور کریں ۔ بھارت سمیت دیگر ممالک سے دوطرفہ تعلقات میں مسئلہ کشمیرسرفہرست رکھا جائے اورتجارتی ثقافتی اور دیگر باہمی تعلقات کو مسئلہ کشمیرپر پیش رفت سے مشروط کیا جائے۔ یوں مسئلہ حل ہونے میں دیر نہیں لگے گی اور برہان مظفروانی کی شہادت کے بعد جو انقلاب اور انتفاضہ شروع ہوا ہے وہ آزادی کی منزل سے ہمکنار ہوگا
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn