Qalamkar Website Header Image

ھالیوم نعزی فاطمۃ

میں مسجد کوفہ سے باہر نکلا تو صبح کی ہلکی سی روشنی آسمان پر نمودار ہوچکی تھی لیکن فضا بدستور سوگوار تھی۔ میں بچپن سے 21 رمضان پر شہادت امام علی (ع) کے جلوس و مجالس میں شرکت کرتا آیا ہوں۔ ان جلوسوں میں، ان مجالس میں مصائب امام علی (ع) بیان کرتے ہوئے کتنے ہی نوحے، سوز و سلام سنے ہیں۔ لیکن وہ ایک جملہ جو میں 19 رمضان سے لیکر 21 رمضان تک مسجد کوفہ اور نجف الاشرف حرم امام علی (ع) میں سنتا رہا، شاید اس کی تاثیر اور اس کے جذب سے خود کو کبھی باہر نہ نکال پاوں گا۔ مصائب امام علی (ع) پر پڑھے جانے والے تمام نوحے اور تمام سوز و سلام ایک طرف، یہ ایک جملہ ایک طرف:

"تھدمت واللہ ارکان الھدی” (آج بخدا ہدایت کے ستون منہدم ہوگئے)

اس جملے میں وہی درد ہے جو درد یتیم ہوجانے پر ہوتا ہے۔ ہدایت کا یہ ستون منہدم ہوا، تو ہم واقعی یتیم ہوگئے۔ امام علی (ع) کو تو ویسے بھی یتیموں کا باپ کہا جاتا ہے۔

مسجد کوفہ سے باہر نکلا تو ذہن میں یہی جملہ گونج رہا تھا۔ مسجد سے کچھ ہی فاصلے پر ملحق امام علی (ع) کا گھر تھا، وہ گھر جہاں امام حسن و حسین (ع) رہتے تھے، جہاں مولا ابو الفضل العباس(ع) رہتے تھے، جہاں باب الحوائج بی بی ام البنین (س) رہتی تھیں، جہاں سیدہ زینب ام کلثوم (س) رہتی تھیں۔ جہاں وہ مرغابیاں رہتی تھیں جنہوں نے امام علی (ع) کو اس وقت بے چین ہوکر چاروں طرف سے گھیر لیا تھا جب وہ آخری بار مسجد کوفہ جا رہے تھے۔

میں گھر میں موجود مختلف کمروں کی دیواروں کو دیکھتے ہوئے اپنے دل کو یہ یقین دلانے کی کوشش کرتا رہا کہ ہاں میں واقعی اس جگہ موجود ہوں جہاں آج سے چودہ صدیاں قبل وہ ہستیاں رہا کرتی تھیں جن کا ذکر سن کر آج ہمارا دل بے قرار ہوجاتا ہے۔ مجھے گھر کا نقشہ تو یاد نہیں اور نہ باقی تفصیل ذہن میں ہے۔ بس اتنا ضرور یاد ہے کہ مولا ابو الفضل (ع) کے کمرے کی دیوار کو میں نے بہت خصوصیت سے مس کیا تھا، اپنے ہاتھ میں پہنی انگوٹھی کو ان دیواروں سے بار بار مس کیا تھا۔

یہ بھی پڑھئے:  قبائلی عوام، عدم برداشت

ابھی یہ سب یاد کرتے ہوئے ذہن میں بے اختیار یہ خیال بھی آیا کہ ایک یہ کوفہ تھا جس کو ہر دور میں ایک مخصوص پراپیگنڈے کا سامنا رہا۔ جہاں آج بھی اہلیبیت (ع) رسول کی ہر نشانی کو انتہائی خلوص و احترام کے ساتھ محفوظ رکھا گیا یے۔ صرف کوفہ نہیں، نجف سے لیکر بغداد اور سامرا تک، ہر نشانی کو محفوظ بنایا گیا ہے۔ اور ایک وہ مدینہ ہے جہاں آج اہلیبیت (ع) رسول کی قبروں پر سایہ بھی نہیں۔ نہ رسول اللہ (ص) کے گھر کا کوئی نشان ہے اور نہ محلہ بنی ہاشم کا۔ ان آثار پر اب کیا کچھ تعمیر ہوچکا ہے، وہ لکھنے کی مجھ میں ہمت نہیں۔ بقیع میں کھڑے کر کر مسمار شدہ قبور کے نشانات دیکھ کر لوگ حسرت اور فریاد بھری نظروں سے عقب میں موجود گنبد خضری کو دیکھتے ہیں۔ وہ بقیع جہاں رونے، سلام پڑھنے اور پرسہ دینے پر طعنے دیے جاتے ہیں۔ آج کا کوفہ بھی آپ کے سامنے ہے، اور آج کا مدینہ بھی۔

میں امام علی (ع) کے گھر کے در و دیوار چومتا ہوا باہر نکلا۔ سامنے ہی کچھ فاصلے پر ایک روضہ نظر آیا جس پر لکھا تھا "اسلام علیک یا میثم التمار”۔ بتایا گیا کہ اسی مقام پر انہیں پھانسی دی گئی تھی۔ گویا میری پشت پر امام علی (ع) کا گھر تھا اور سامنے میثم تمار کا روضہ۔ اس عاشق امام علی (ع) کی شان کے اس کا روضہ بھی وہیں ہے جہاں اس کے باپ جیسے آقا کا گھر ہے۔

یہ بھی پڑھئے:  یکساں تعلیمی نصاب پر اٹھتے اعتراضات

میں بہت تھک چکا تھا لیکن میثم التمار کے روضے پر حاضری دیے بغیر واپس چلا جاتا یہ ممکن نہ تھا۔ لہذا اندر گیا۔ ضریح کو تھام کر کھڑا ہوا۔ سلام عرض کیا اور سوچ ہی رہا تھا کہ اب کیا کہوں کہ اچانک ایک ادھیڑ عمر عراقی وہاں آیا اور دونوں ہاتھ بلند کرکے بے انتہا دل آویز لہجے میں عربی میں "یا میثم التمار” کہتا ہوا ضریح کو چومنے لگا۔ کچھ لمحات ہمیشہ کیلئے ذہن میں نقش ہوجاتے ہیں۔ میثم تمار کے روضے پر اس ادھیڑ عمر عراقی کا یہ بے ساختہ سلام، جیسے میثم اس کے سامنے موجود ہوں، میرے ذہن میں ہمیشہ کیلئے نقش ہوگیا۔ ۔ میں روضے سے باہر نکلا ایک نظر "اسلام علیک یا میثم التمار” پر ڈالی اور واپس نجف کیلے روانہ ہوگیا جہاں مجھے "تھدمت واللہ ارکان الھدی” کے ساتھ آج "ھالیوم نعزي فاطمة” کا ایک سطری نوحہ بھی سننا تھا۔

حالیہ بلاگ پوسٹس