بچپن میں جب کبھی میں کوئی ایسی فلم دیکھتا جس میں بھارت کے کسی شہر، بالخصوص ممبئی کے انڈر ورلڈ، غنڈہ گردی، سمگلنگ مافیا اور مافیا کے ساتھ پولیس وغیرہ کے تعلق کی کہانی دکھائی جاتی تھی تو مجھ پر سب سے زیادہ اثر کسی ایسے کردار کے قتل کا ہوتا تھا جو فلم میں کسی پروفیسر کا کردار ادا کر رہا ہوتا تھا۔ ہیرو کا بوڑھا باپ ہو یا کوئی بھی ضعیف العمر شخص ہو جس کا حلیہ غالبا ڈائریکٹر جان بوجھ کر ایسا بنایا کرتے تھے کہ جسے دیکھ کر فلم بینوں کے دل میں ترس، ہمدردی اور دکھ کا جذبہ پیدا ہو۔ کندھے پر بستہ لٹکائے ہوئے پروفیسر، کرتا شلوار پہنے ہوئے، آنکھوں پر نظر کا موٹا چشمہ لگائے کوئی بزرگ یا کسی سرکاری دفتر میں کام کرنے والا سفید پوش لوئر مڈل کلاس کا کوئی ادھیڑ عمر شخص۔
ان فلموں میں جب کبھی بھی ایسے کرداروں کو بےدردی سے قتل ہوتا دکھایا جاتا تھا تو میرا دل بے اختیار چاہتا تھا کہ کاش یہ شریف انسان جس کے چہرے کو دیکھ کر دل میں ہمدردی کا جذبہ پیدا ہورہا ہے قتل نہ ہو۔ کاش اس فلم کی کہانی ایسی نہ ہو۔ لیکن ظاہر ہے یہ سب کہانی کا حصہ ہوتا تھا۔ کندھے پر بستہ لٹکائے ہوئے وہ استاد سڑک پر چلتے ہوئے کسی نامعلوم گاڑی کی ٹکر سے مارے جاتے کبھی غنڈوں کا کوئی گروہ ان کو قتل کردیتا تھا اور کبھی شہر کی مافیا کے ساتھ ملی ہوئی شہر کی پولیس اسے مار ڈالتی تھی۔ مجھے بہت افسوس ہوتا تھا لیکن پھر فلم کے اختتام تک میں خوش ہوجاتا تھا کیوں کہ ہیرو ان بدمعاشوں، مافیا کے سرغنوں اور ان کے ساتھ ملے ہوئے پولیس والوں سے اس بوڑھے استاد کے قتل سمیت تمام جرائم کا بدلہ لے لیتا تھا۔ فلم ختم ہوجاتی تھی اور میں مطمئن ہوجاتا تھا۔
لیکن فلم تو بہرحال فلم ہوتی ہے۔اس میں ہیرو ہوتا ہے جو ہر رکاوٹ کو ہٹا کر برائی کو ختم کردیتا ہے۔ اصل زندگی میں ہیرو کہاں ملے گا۔ گزشتہ کچھ دنوں سے جب بھی کچھ دیر کے لئے فیس بک کھول رہا تھا قصور کی معصوم زینب کی تصویروں کے ساتھ لکھی ہوئی مختلف دردناک پوسٹس کو جلدی جلدی ہائیڈ کردیتا تھا کہ "آج تو بے سبب اداس ہے جی” کے مصداق پہلے سے ہی اداس دل میں نہ یہ سب پڑھنے کی سکت تھی اور نہ مجھ میں اتنی ہمت تھی کہ کچھ لکھتا، اس لئے خودغرض بن کر کنارے بیٹھا ہوا تھا کہ ذرا اس ساڑھ ستی جیسی کیفیت سے باہر نکلوں تو کچھ سوچوں گا کہ کیا کرنا ہے اور کیا لکھنا ہے۔ لیکن آزمائش مزید بڑھ گئی کہ اب سات سال کی زینب کی تصویروں کے ساتھ ساتھ ایک ستر سال کے بوڑھے استاد کی تصویروں سے بھی نظریں چرانا ہوں گی۔ کوئی کس طرح ایک ستر سال کے استاد کو اس حال میں دیکھ سکتا ہے؟ ممکن ہی نہیں۔
پروفیسر حسن ظفر عارف کو دیکھ کر مجھے بچپن میں دیکھی ہوئی فلموں کا وہی کردار بار بار یاد آرہا ہے جو کبھی کندھے پر بستہ لٹکائے نظر آتا تھا، کبھی کرتا پہنے آنکھوں پر موٹا سا نظر کا چشمہ جمائے نظر آتا تھا اور کبھی کسی ایسے ضعیف سفید پوش شخص کی صورت میں نظر آتا تھا جسے دیکھ کر بس ایسے ہی ہمدردی کا جذبہ محسوس ہوتا تھا۔ بچپن کی طرح آج بھی میرا دل بار بار یہی کہہ رہا ہے کہ کاش کسی غنڈے نے، مافیا کے کسی سرغنہ نے یا اُس مافیا کے ساتھ ملے ہوئے کسی پولیس اہلکار نے اس ستر سال کے ضعیف استاد کو قتل نہ کیا ہو۔
فلم کے آخر میں تو دل مطمئن ہوجاتا تھا کہ آخر میں ایک ہیرو سب سے بدلہ لے لیا کرتا تھا لیکن یہاں کون کس سے بدلہ لے گا؟ جس ملک میں معصوم بچوں سمیت 80000 بےگناہ پاکستانیوں کو قتل کرنے والے تکفیری مافیا سے کوئی بدلہ نہ لے سکا۔ جہاں قاتلوں کے سابقہ ترجمان ٹی وی سکرین پر مسکراتے ہوئے نمودار ہوتے ہوں، جہاں قاتلوں کے تائب سرغنہ آزادی سے تبلیغ کرتے نظر آتے ہوں اور جہاں تکفیر کے بانی کا بیٹا اسمبلی میں بیٹھا نظر آتا ہو۔ وہاں کہاں کا ہیرو اور کیسا بدلہ۔ سب ایسے ہی چلتا رہے گا۔ ستر سال کے پروفیسر حسن ظفر عارف ہوں یا لاہور کے ڈاکٹر علی حیدر، خرم ذکی ہو یا سبین محمود، لاہور کے این سی اے میں گرافک ڈیزائینگ پڑھنے کا خواہش مند کوئٹہ کا وہ محمد مرتضی ہزارہ ہو جس کا چہرہ دیکھ کر مجھے کسی مجلس میں منبر کے پیچھے کھڑے معصوم صورت والے سکاؤٹ کے بچے یاد آتے ہیں یا ایسے ہی کتنے چہرے جنہیں دیکھ کر دل بے اختیار پکار اُٹھتا ہے۔ "یا خدا کم از کم اسے تو قتل نہیں ہونا چاہئیے تھا”۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn