Qalamkar Website Header Image

کیا پیپلزپارٹی ختم ہوچکی؟

آپ پیپلزپارٹی پر لاکھ تنقید کریں، ہزار بار اس کی خامیاں گنوائیں اور جتنی مرضی بار آصف زرداری پر روایتی تنقید کے نشتر چلائیں لیکن ایک حقیقیت سے انکار کرنا ممکن نہیں ہے کہ یہ وہ سیاسی پارٹی ہے جس نے اپنے دو لیڈران کو اُس وقت کھویا جب وہ پوری آب و تاب کے ساتھ ملکی سیاسی اُفق پر موجود تھے۔

1967 میں یہ پارٹی وجود میں آئی، ملک میں پہلی بار غریب اور محنت کش طبقے کو اپیل کرنے والی پارٹی جس نے اس طبقے کے منہ میں زبان دی۔ روٹی کپڑا مکان کے مشن میں یہ کتنا کامیاب ہوئی، یہ موضوع بہرحال بحث اور تنقید سے مبرا نہیں لیکن محنت کش، کسان، ہاری، مزدور اور ریڑھی بان، ان سب کو ان کے وجود کا احساس دلانے والی جماعت بہرحال یہی بنی، بھٹو کی پیپلزپارٹی۔ اس کی مثال بھٹو کے وہ جلسے ہیں جس میں وہ قلندرانہ انداز میں، کھلی آستینوں کی شلوار قمیض پہنے عوام کے جمِ غفیر سے خدا کی قسم کھا کر وعدے لے رہا ہے اور عوام یک زبان ہوکر وعدے کا اقرار کررہی ہے۔ عوام بے شک وعدہ خلاف نہ تھی، بھٹو کو ہی زندہ نہ رہنے دیا گیا۔

1967 میں پیپلزپارٹی بنی، 1978 میں مارشل لاء لگا اور ٹھیک بارہ سال بعد 1979 میں ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔
بھٹو سیاستدان تھا اور سیاستدان معصوم عن الخطاء نہیں ہوا کرتے۔ بھٹو سے بھی غلطیاں ہوئیں لیکن وہ ایک مقبول جماعت کا مقبول لیڈر تھا۔ وہ قائدِ عوام تھا جس نے عوام کے منہ میں زبان دی، اُسے بولنا سکھایا۔ آپ لفاظی ہی سمجھ لیں لیکن بھٹو کے سوا کس کو توفیق ہوئی کہ "طاقت کا سرچشمہ” عوام کو قرار دے؟ کوئی مانے یا نہ مانے، بھٹو کا یہ اکیلا کارنامہ اُس کے پوری سیاست پر بھاری ہے کہ آج پیپلزپارٹی کا ایک غریب ناراض ووٹر بھی بھٹو کا نام سن کر جذباتی ہوجاتا ہے۔

بھٹو کو پھانسی ہوگئی اور پھر ضیاء الحق کی آمریت نے 11 سال ملک کو جکڑے رکھا۔ اسی دوران 1986 میں اس ملک نے ایک بار پھر وہی منظر دیکھا جو کبھی بھٹو دکھایا کرتا تھا۔ بھٹو کی بیٹی بینظیر جلاوطنی سے واپس پاکستان لوٹی اور ایک بار پھر غریب، محنت کش، کسان اور ریڑھی بان کے دلوں کواپیل کی۔ جس جماعت کے مقبول ترین لیڈر کو پھانسی پر چڑھایا گیا تھا، اس کے چاہنے والوں نے بینظیر کے اندر اُسی بھٹو کا عکس تلاش کرلیا۔

بینظیر بھی سیاستدان تھی، اُس سے بھی غلطیاں ہوئیں، آپ اُس پر بھی تنقید کریں لیکن اس حقیقیت کو کوئی جھٹلا نہیں سکتا کہ "چاروں صوبوں کی زنجیر” کہلانے کا اعزاز بینظیر کے سوا اور کسی کے حصے میں نہ آسکا۔

یہ بھی پڑھئے:  گلگت بلتستان میں صحافت کے نام پر اخباری کاروبار | شیرعلی انجم

بینظیر 1988 میں وزیراعظم منتخب ہوئیں اور پھر نوے کے اواخر تک اسٹبلشمنٹ اور اسٹبلشمنٹ کے مہروں کے ذریعے جس قسم کی مخالفت اور مہم جوئی کا سامنا انہیں کرنا پڑا، اُس کی تفصیل ہم سب جانتے ہیں۔ وہی تفصیل جو آج کل ہم اُن کے منہ سے بھی سن رہے ہیں، جو کل خود اس تفصیل کا مرکزی کردار تھے۔ اسی دوران ذوالفقار علی بھٹو کے بیٹے میر مرتضی بھٹو کو بھی قتل کردیا گیا۔

پھر پرویز مشرف کا مارشل لاء نافذ ہوا، بینظیر بھٹو ایک بار پھر ملک چھوڑ گئیں اور پھر وہ دوبارہ 2007 میں تمام ترخطرات کے باوجود واپس آئیں۔ عوام ایک بار پھر بھٹو کی بیٹی کے لئے سڑکوں پر نکل آئی۔ پیپلزپارٹی کو قائم ہوئے چالیس سال گزر چکے تھے، جس میں پارٹی کا بانی پھانسی چڑھایا جاچکا تھا، اُس کے دو بیٹے قتل ہوچکے تھے اور بیٹی کی حکومت دو بار گرائی جاچکی تھی۔

2007 ساتھ میں بینظیر بھٹو پر کراچی کارساز میں پہلا ہولناک حملہ ہوا جس میں بال بال بچ گئیں لیکن 180 کے قریب لوگ جاں بحق ہوگئے۔ 27 دسمبر کو راولپنڈی میں بینظیر پر دوسرا حملہ ہوا اور اس بار وہ اپنے والد کی طرح وقت سے بہت پہلے دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ بھٹو 51 برس اور بینظیر 55 برس کی عمر میں دنیا سے رخصت ہو گئے، یعنی دونوں اپنی سیاست کے عروج پر تھے جب قتل کیے گئے۔ یعنی چالیس سال کے اندر ایک پارٹی کے دو مرکزی لیڈر قتل کردئے گئے۔

بینظیر قتل ہوگئیں اور آصف زرداری نے پارٹی کی قیادت سنبھال لی۔ الیکشن ہوئے اور ایک مقبول رائے کے مطابق پیپلزپارٹی کو ہمدردی کا ووٹ ملا اور وہ الیکشن جیت گئی۔ یہاں سے پیپلزپارٹی کے لئے ایک مختلف دور کا آغاز ہوا، وہ دور جس میں بھٹو اور بینظیر کا کیرزمہ موجود نہ تھا بلکہ survival کی جنگ تھی۔

مخالفین نے پیپلزپارٹی کے تقریبا خاتمے کا اعلان کردیا، کسی نے اسے فقط ایک صوبے کی پارٹی کہہ دیا اور ناراض جیالوں نے آصف زرداری کو اس تباہی کا ذمہ دار قرار دیدیا۔ لیکن میں اس دوران بس یہی سوچتا رہا کہ جس پارٹی کے دو مقبول ترین لیڈروں کو چالیس سال کے عرصے میں یکے بعد دیگرے قتل کردیا گیا ہو، وہ اپنی شکل میں باقی بچ کیسے سکتی تھی؟

2013 میں پیپلزپارٹی کی حکومت ختم ہوئی، ملکی تاریخ میں پہلی بار منتخب حکومت نے اپنی مدت پوری کی۔ البتہ پیپلزپارٹی کی مقبولیت کا گراف تنزلی کی آخری حدوں تک پہنچ چکا تھا۔ اُس کے خاتمے کی پیشن گوئیوں کا سلسلہ بھی جاری تھا اور حسبِ معمول اُسے ایک صوبے کی پارٹی قرار دینے کے اعلان بھی۔ حسبِ معمول پیپلزپارٹی کی تباہی کا ذمہ دار آصف زرداری کو قرار دیا جاتا رہا۔ میڈیا اور پریس ٹرائل تو ویسے ہی پیپلزپارٹی کا مقدر رہا ہے، لہذا اپنی حکومت کے دوران جو چند ایک اچھے کام اس نے کیے، اُن کو بھی کوئی پذیرائی نہ مل سکی۔

یہ بھی پڑھئے:  مذاکرات کے دروازے بند نہ کیجئے

2013 کے الیکشن کے بعد نون لیگ کی حکومت بنی اور پھر ساڑھے تین سال تک ملکی سیاست میں بہت کچھ ہوتا رہا جس میں نون لیگ اور تحریک انصاف آمنے سامنے نطر آئے جبکہ ناقدین کے نزدیک پپلزپارٹی کا کردار ایک علاقائی پارٹی سے زیادہ نہ رہ گیا۔ روایتی تنقید کے ساتھ ساتھ ٹھٹھے بازی کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ لیکن پھر اس سال سے ایک تبدیلی کا آغاز ہوا۔ بلاول بھٹو میں لوگوں نے بینظیر کا عکس دیکھنا شروع کیا، بالکل اُسی طرح جیسے بینظیر میں ذوالفقار علی بھٹو کا عکس دیکھا کرتے تھے۔

یہ عکس کبھی اُس وقت نظر آیا جب کوئٹہ میں بلاول کے اپنی مقتول ماں کو یاد کرکے اشکبار ہونے پر ناراض جیالے بھی جذباتی ہوگئے، اُس وقت بھی نظر آیا جب امجد صابری کی ماں رومال سے بلاول کے چہرے سے پسینہ صاف کررہی تھی، اُس وقت بھی نظر آیا جب ضعیف خواتین بینظیر کو یاد کرتے ہوئے بلاول کا ماتھا چوم رہی تھیں، اُس وقت بھی جب سانحہ کارساز کے مقتولین کے ورثاء اُس سے گلے مل کر رورہے تھے اور اُس وقت بھی جب وہ تقریر کے آغاز میں "یا اللہ یا رسول، بینظیر بے قصور” کہہ رہا تھا۔

بلاول بھٹو کو اپنے نانا اور اپنی ماں جیسا بننے کے لئے تو بہت وقت چاہیئے لیکن وہ اپنی ہر تقریر میں کسانوں ، محنت کشوں، غریبوں اور ملازمت پیشہ طبقے کو مخاطب کرکے اتنا یاد ضرور دلا دیتا ہے کہ پیپلزپارٹی میں چاہے جتنی خامیاں ہوں، اِس طبقے کو زبان دینے والی اور اس کی زبان بننے والی جماعت بہرحال یہی ہے۔ غریب اگر اس سے ناراض ہے تو اس کی ناراضگی بھی ثبوت ہے اس بات کا کہ وہ ناراض اسی سے ہوتا ہے جس سے کوئی اُمید ہو۔

حالیہ بلاگ پوسٹس