Qalamkar Website Header Image

میں پیپلزپارٹی کو ووٹ کیوں دیتا ہوں

ذوالفقار علی بھٹو کے یومِ شہادت پر میں نے ایک تحریر لکھی تھی جس کا بنیادی خیال اُس مخصوص رائے پر تبصرہ کرنا تھا جو پیپلزپارٹی کی موجودہ حالت پر اکثر سننے کو ملتی ہے۔ میں نے ذکر کیا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو اور پھر اُن کی بیٹی بینظیر بھٹو، جب انہیں قتل کیا گیا تو اِن دونوں کی عمریں ساٹھ برس سے بھی کم تھیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کی عمر محض 51 اور بینظیر کی عمر صرف 54 برس تھی جب یہ دونوں قتل ہوئے۔ دونوں اپنے اپنے وقت کے مقبول ترین لیڈر تھے۔ اگر ایک محتاط اندازہ بھی لگایا جائے تو ذوالفقار علی بھٹو کو اگر اکیاون برس کی عمر میں پھانسی نہ دی جاتی تو وہ پوری قوت کے ساتھ مزید پندرہ سے بیس سال متحرک رہتے، یہی معاملہ بینظیر بھٹو کا ہوتا۔ عوام کے اندر گہری جڑیں رکھنے والی ایک سیاسی جماعت کیلئے ۲۸ سال کے عرصے میں دو قائدین کا قتل ہوجانا معمولی بات نہیں ہے۔ پاکستان میں موجود کسی اور سیاسی جماعت کو اس قسم کے کسی نقصان کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ایسے سانحوں کا سامنا کرنے کے بعد کسی بھی سیاسی جماعت کا ہوبہو اپنی اصل شکل میں رہنا ممکن نہیں تھا البتہ پیپلزپارٹی نے کسی نہ کسی طور سیاسی میدان میں موجود رہ کر کم از کم اُن تمام آراء کو تو غلط ثابت کردیا کہ پیپلزپارٹی ختم ہوچکی، اس کے ساتھ ساتھ یہ سوال بھی غور کرنے کیلئے چھوڑ دیا کہ چاروں صوبوں کی زنجیر کہلانے والی اور وفاق کی سب سے بڑی جماعت کہلانے والی پیپلزپارٹی اگر آج اس نہج پر پہنچی ہے تو اس کا ذمہ دار کون ہے۔ وہ جس نے دوسری بار ایک ناگہانی قتل کے بعد اس پارٹی کو سنبھالا یا وہ جنہوں نے یہ قتل کیے / کروائے؟

اب بنیادی سوال یہ ہے کہ میں یا پیپلزپارٹی کا کوئی بھی حالیہ ووٹر موجودہ پیپلزپارٹی کو ہی ووٹ کیوں دینا چاہتا ہے۔ کیا ہم پیپلزپارٹی کو غلطیوں اور خامیوں سے پاک سیاسی جماعت سمجھتے ہیں؟ کیا ہم صرف بھٹوازم کی وجہ سے یہ ووٹ دینا چاہتے ہیں؟ یا اس لئے کہ پیپلزپارٹی نے اپنی گزشتہ حکومت میں بہت اچھی کارگردگی دکھائی تھی؟
میں پیپلزپارٹی کو غلطیوں سے پاک نہیں سمجھتا اور نہ ہی میں بھٹو اور بینظیر کو معاذاللہ کسی معصوم عن الخطاء کے درجے پر بٹھانے کا قائل ہوں۔ یہ دونوں سیاستدان تھے اور ان سے بھی غلطیاں ہوئیں۔ البتہ مجھے ان کی خوبیاں ان کی خامیوں پر بھاری لگیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ کسی غریب، بے کس اور محنت کش کے دل کو اپیل کرنا محض بناوٹی باتوں سے ممکن نہیں ہے۔ کسی پسماندہ بستی کی خواتین کے دل میں گھر کرلینا بھی محض دکھاوے بازی سے ممکن نہیں۔ کچھ تو ہے جو آج بھی اپیل کرجاتا ہے۔

ضیاء الحق کی موت کے بعد جو پہلے انتخابات ہوئے تھے، اُن میں بینظیر بھٹو نے لاہور کے جس حلقے سے الیکشن لڑا تھا وہ پاکستان ریلوے کا علاقہ تھا۔ لوکو موٹیو ورکشاپس، کیرج شاپس، ڈی ایس آفس سمیت وہ تمام سیٹ اپ یہاں موجود تھے جہاں سینکڑوں نہیں ہزاروں محنت کش ملازمت کرتے تھے۔ ان میں سینکڑوں وہ بھی تھے جو روزانہ قرب و جوار کے شہروں اور دیہاتوں سے بذریعہ ٹرین آیا کرتے تھے اور شام میں واپس چلے جایا کرتے تھے۔ مجھے بہت اچھی طرح یاد ہے، ان محنت کشوں کی اکثریت بینظیر سے عقیدت کی حد تک محبت کرتی تھی۔ اس محبت کی وجہ بینظیر کے والد ذوالفقار علی بھٹو اور غریب مزدور کے درمیان گہرا تعلق تھا۔ لاہور میں آج بھی ایسی چھوٹی چھوٹی کالونیاں موجود ہیں جو بھٹو نے ان مزدوروں کیلئے بنوائیں۔ سندھ کے ایک وزیراعظم کو ان پنجابی مزدوروں نے سر آنکھوں پر بٹھایا، یہ سب بغیر وجہ کے ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پیپلزپارٹی اپنی اصل صورت کھونے کے باوجود بھی کسی نہ کسی انداز میں آج بھی اس طبقے کو اپیل کرجاتی ہے۔ یہ قلندرانہ مزاج آپ کو کسی اور جماعت میں نظر نہ آئے گا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ محنت کش طبقہ آجکل پیپلزپارٹی سے ناراض ہے لیکن ذرا سوچئے کہ اگر آج بینظیر حیات ہوتیں اور لاہور کے اُسی حلقے سے الیکشن لڑتیں جہاں سے اُنہوں نے سنہ ۸۸ میں لڑا تھا تو کیا صورتحال ایسی ہی ہوتی؟

یہ بھی پڑھئے:  ملنگ مزاج عراقی، دنیا کی سب سے فراخ دل قوم ۔ نور درویش

آپ بلاول بھٹو کی حالیہ تقاریر غور سے سنیں۔ اس میں آپ کو ان جملوں کی تکرار اکثر نطر آئے گی "پیپلزپارٹی کسانوں کی جماعت ہے، یہ غریبوں کی جماعت ہے، یہ ترقی پسندوں کی جماعت ہے، یہ آپ کی جماعت ہے”۔
غربت دور کرنے میں پیپلزپارٹی کتنی کامیاب ہوئی، اس پر بحث ہوسکتی ہے لیکن محکوم طبقے کو مخاطب کرنا اور اس کے منہ میں زبان دینا صرف اور صرف اس پیپلزپارٹی کا ہی کارنامہ ہے۔ میری پیپلزپارٹی کی حمایت کی وجہ اس کے اور غریب کے درمیان یہ تعلق ہے، چاہے یہ تعلق ناراضگی پر ہی کیوں نہ قائم ہو۔ غریب ناراض بھی اُسی سے ہوتا ہے جس سے اُمیدیں رہی ہوں۔
چھوٹی سی مثال پچھلے دنوں نیشنل سیونگز اور بینظیر انکم سپورٹ پروگرامز کی دی تھیں۔ آپ صرف پچھلے بیس برسوں کا ڈیٹا نکال کر دیکھ لیں، شرحِ منافع بالخصوص پینشنرز کیلئے سب سے زیادہ پیپلزپارٹی کے دور میں رہا ہے اور سب سے کم نون لیگ کے دور میں۔

سندھ کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ دراصل ہم معلوم نہیں کس زعم میں یہ کہہ کر گزر جاتے ہیں کہ پیپلزپارٹی کب تک مقتولین کے نام پر ووٹ لیتی رہے گی جبکہ حقیقیت بڑی مختلف ہے۔ سندھیوں کیلئے یہ معمولی بات نہیں کہ جس لیڈر سے اُنہوں نے والہانہ محبت کی، وہ بھی قتل ہوا، اُس کی بیٹی بھی قتل ہوئی اور اُس کے دو بیٹے بھی۔ اُنہوں نے نصرت بھٹو کا سر پھٹتے بھی دیکھا ہے اور بیٹے کے قتل پر ہوش و حواس کھوتے بھی۔ ہم لوگ آزاد کشمیر کے وزیراعظم کو گالی دینے پر آسمان سر پر اُٹھا لیتے ہیں اور ایک صوبے نے ایک نہیں، دو مقبول وزرائے اعظم کے جنازے وصول کئے ہیں۔ آپ اُن کے ووٹ کو جہالت مت سمجھیں، یہ خاموش احتجاج ہے کہ جنہیں آپ نےقتل کردیا، ہم آج بھی اُنہی کے نام پر ووٹ دینگے۔ ووٹروں کو جاہل، بیوقف اور بھیڑ بکریاں سمجھنا متکبرانہ رویہ ہے۔

سندھ اور بالخصوص کراچی کے مسائل سے انکار ممکن نہیں ہے۔ صفائی سے لیکر انفراسٹرکچر، پینے کے پانی اور امن و عامہ سمیت لاتعداد مسائل ہیں جو نظر انداز ہوتے آئے ہیں۔ لیکن ان سب کے بیچ میں جو چند اچھے کام ہوتے ہیں، اُن کا ذکر بھی شاذ و نادر ہی سننے کو ملتا ہے۔ لیکن میں بہرحال ایسی تنقید کے خلاف نہیں ہوں۔ اگر اس تنقید کے نتیجے میں حکومتِ سندھ بہتری کیلئے اقدامات اُٹھاتی ہے تو کسے اس پر اعتراض ہوگا؟
بحیثیت ایک شیعہ مسلمان میں پیپلزپارٹی کو دیگر تمام جماعتوں سے بہتر سمجھتا ہوں، یہ جانتے ہوئے کہ اس کے اندر بھی تکفیری عناصر کے ہمدرد موجود ہیں لیکن نون لیگ کی طرح اس کی پالیسی میں نہ طالبان نوازی ہے اور نہ کالعدم تنظیموں کی سرپرستی۔ یہی معاملہ ایم کیو ایم کا بھی ہے۔ یہاں میری بات سننے والے موجود ہیں۔ ریکارڈ پر ندیم افضل چن کی تقریر موجود ہے، فیصل رضا عابدی کسی زمانے میں کھل کر بولا کرتا تھا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ خود بلاول بھٹو نے طالبان کے خلاف کھل کر مؤقف دیا۔ پیپلزپارٹی جیسی بھی ہے، میری دشمن بہرحال نہیں ہے۔ یہی پیپلزپارٹی تھی جس کا وزیر اعظم کوئٹہ پہنچا تھا، شہداء کے ورثاء کے ساتھ امام باگاہ میں بیٹھا تھا اور رئیسانی کی حکومت کو برطرف کیا تھا۔ آپ اسے علامتی کاروائی ہی کہیں لیکن کوئی اور تو ایسی علامتی دلجوئی بھی کرتا نظر نہیں آتا، اُلٹا کالعدم تنظیموں کو مین سٹریم کرنے کی جدوجہد کرتے نظر آتے ہیں۔
لوگ کہتے ہیں کہ سب سے زیادہ شیعہ پیپلزپارٹی کے دور میں قتل ہوئے لیکن وہ بھول جاتے ہیں کہ یہ جنرل کیانی کا دور تھا، وہ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ اسی دور میں شہباز شریف طالبان سے پنجاب میں حملے نہ کرنے کی درخواست کرتا تھا۔ جس سیاسی جماعت کی اپنی لیڈر تکفیری دہشتگردی کا شکار ہوگئی ہو، اُس میں اور طالبان کے ہم نظریہ ہونے کا اعلان کرنے والوں میں کوئی تو فرق ہوگا۔

یہ بھی پڑھئے:  وہ دھماکہ کریں،تم کلچر کو پابند سلاسل - عامر حسینی

سندھ میں کالعدم تنظیموں کا اثر رسوخ بڑھا ہے اور یقینا اس بات پر سندھ حکومت پر تنقید ہونی چاہئے۔ لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اسی سندھ حکومت نے جب کچھ مدارس کے خلاف کاروائی کا فیصلہ کیا تھا تو سندھ ہائیکورٹ تو اس پر عملدرآمد رکوا دیا تھا۔
پاکستان میں فرشتہ صفت سیاسی جماعت کوئی نہیں ہے۔ ظاہر ہے، یہ بھی ہم سب میں سے ہی ہیں۔ لیکن جب بات سیاسی تربیت اور جمہوری رویوں کی ہو تو پیپلزپارٹی کی بنیادیں سب سے مستحکم نظر آتی ہیں۔ اس کا ووٹر، اس کا کارکن اور اس کے رہنما، آج بھی سب سے زیادہ تربیت یافتہ ہے۔ گالم گلوچ اور گلو بٹ والی سیاست کے درمیان پیپلزپارٹی سب سے منفرد نظر آتی ہے۔ میں پے درپے حادثات کا شکار ہونے کے بعد اپنی شکل بظاہر کچھ تبدیل کرلینی والی پیپلزپارٹی کو اس یقین کے ساتھ ووٹ دیتا ہوں کہ کچھ کمزور ضرور ہوگئی ہے لیکن بنیادیں تو مستحکم ہیں۔ مجھے یہ یقین ہے کہ یہ پاکستان کی واحد جماعت ہے جو مظلوموں اور غریبوں کے جذبات کو اپیل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اسے ووٹ دینے کیلئے اتنا اطمینان کافی ہے، یہ جانتے ہوئے کہ اس ملک میں فرشتہ کوئی نہیں ہے۔

حالیہ بلاگ پوسٹس