Qalamkar Website Header Image

فلسفہ وحدت ہے کیا؟

میرے والد صاحب آج بھی پرانے وقتوں کو یاد کرتے ہوئے جب عزادری کا ذکر کرتے ہیں تو علماء و خطباء کے ناموں کی ایک فہرست ہے جن کا نام اور اُن کی مجالس کی تفصیل وہ بتاتے جاتے ہیں۔ علامہ سید نقی نقوی (نقن صاحب)، مولانا اسماعیل دیوبندی، علامہ بشیر انصاری فاتحِ ٹیکسلا، حافظ کفایت حسین، علامہ نصیر الاجتہادی، علامہ رشید ترابی، علامہ طالب جوہری، مولانا اظہر حسن زیدی، پنڈت نیک رام اور ایسے ہی چند اور نام لینے کے بعد وہ کہتے ہیں کہ ہم ایسے علماء اور خطیبوں کو سنتے آئے ہیں اس لیے ہمیں ہر عالم جلد اپیل نہیں کرتا۔ مجھے یاد ہے آج سے سترہ اٹھارہ برس پہلے میں بہت اصرار کرکے اُنہیں لاہور کی معروف اور مقبول مجلس عزا ڈاکٹر ریاض علی شاہ کے امام بارگاہ عطیہ اہلیبیتؑ لیکر گیا تھا جہاں پروفیسر ذالفقار حسین نقوی مجلس پڑھ رہے تھے۔ اُنہیں سننے کے بعد انہوں نے کہا تھا کہ آج بہت عرصے بعد بشیر انصاری صاحب کی یاد آگئی۔ پھر وہ مرحوم علامہ نسیم عباس رضوی کو بھی پسند کیا کرتے تھے چونکہ وہ اظہر حسن زیدی کے شاگرد تھے، بھارت سے آنے والے ڈاکٹر کلب صادق کو سنا کرتے تھے اور ہاں، صفر کے مہینے میں جب مرحوم پروفیسر عبدالحکیم بوترابی لاہور آیا کرتے تھے، تو وہ ان کی مجالس میں بھی ضرور جایا کرتے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب شہادت ثالثہ در تشہد جیسے مسائل نہ ہوا کرتے تھے۔ گلستان زہرا ایبٹ روڈ اور اکبر شاہ امام بارگاہ اندرون موچی گیٹ، ان دونوں جگہ وہ خمسہ مجالس پڑھا کرتے تھے۔

آج بھی والد صاحب جب ان تمام شخصیات کا ذکر کرتے ہیں تو ان کے پڑھے ہوئے وہ تمام نکات بھی ساتھ ساتھ بتاتے جاتے ہیں جو شاید انہوں سے اُس وقت سے ذہن نشین کر رکھے ہیں جب وہ انہیں سنا کرتے تھے۔ یہ نکات میں اُن سے اتنی بار سن چکا ہوں کہ اب مجھے بھی یاد ہوچکے۔
اب ظاہر ہے وہ زمانہ بیت چکا، بہت کچھ بدل چکا اور والد صاحب اب تک خود کو اُس زمانے کے سحر سے نہ نکال پائے جو نقن صاحب، اسماعیل دیوبندی صاحب، بشیر صاحب، رشید ترابی صاحب، حافظ کفایت حسین صاحب، اظہر حسن زیدی صاحب، طالب جوہری صاحب اور ایسے ہی دیگر علماء و خطباء کی بدولت اُن پر طاری رہا۔
۔
اب انہوں نے تھوڑا بہت کمپیوٹر استعمال کرنا سیکھ لیا ہے جس پر وہ یو ٹیوب پر مختلف مجالس سرچ کرکے سنتے رہتے ہیں۔ ان میں پرانی مجالس بھی ہوتی ہیں اور نئی بھی۔ میں حیران ہوا کہ نئے پڑھنے والوں میں کس نے انہیں متوجہ کرلیا تو اںہوں نے چند علماء اور خطیبوں کا نام گنوا دئیے برصغیر کے روایتی انداز کے مطابق مناظرانہ مگر علمی طرز پر مجلس پڑھتے ہیں۔
۔
خود میرا بچپن اور لڑکپن بھی مختلف نہ تھا۔ میں علی الصبح ڈاکٹر ریاض علی شاہ کی امام بارگاہ میں پروفیسر ذولفقار حسین نقوی کو سن کر آیا کرتا تھا تو گھر آتے ہیں باورچی خانے میں ناشتہ تیار کرتی اپنی والدہ کو جلدی جلدی وہ تمام نکات بتانے کی کوشش کرتا تھا جو میں مجلس میں سن کر آتا تھا۔ گھر میں مستورات کے قدیمی عشرہ محرم کی وجہ سے والدہ ہر روز عطیہ اہلیبیتؑ نہیں جا پاتی تھیں۔ میں نے ایک چھوٹی سی ڈائری بھی بنا رکھی تھی جس میں مجالس میں یاد رہ جانے والے نکات اپنی سمجھ کے مطابق لکھ لیا کرتا تھا۔ علامہ عرفان حیدر عابدی، مولانا نسیم عباس رضوی اور پروفیسر ذوالفقار حسین نقوی کی کئی ایک باتیں اُس میں لکھی تھیں۔
انٹرنیٹ کا زمانہ آیا تو کراچی میں عشرہ اولی پڑھنے والے علامہ طالب جوہری، پروفیسر عبدالحکیم، ڈاکٹر کلب صادق کی مجالس روزانہ ڈاونلوڈ کرکے سنتا تھا اور زیادہ سے زیادہ نکات ذہن میں بٹھانے کی کوشش کرتا تھا۔ میں آپ کو بتاتا چلوں کہ یہ صرف میرا معمول نہیں تھا، اسی نوے کی دہائی میں بچپن لڑکپن اور نوجوانی گزارنے والی اکثریت کا معمول آپ کو ایسا ہی نظر آئے گا۔
۔
یہ برصغیر کا مزاج تھا بلکہ اب بھی ہے۔ یہاں مسلمانوں کے مختلف مکاتب فکر آباد ہیں جو اپنی اپنی فکر کی بھرپور ترویج کرتے آئے ہیں۔ یہاں مناظرانہ رنگ نمایاں ہے اور یہ ہر دور میں رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں ہر مکتب فکر میں جو کتابیں لکھی گئیں یا جن کتابوں کے ترجمے کیے گئے، ان میں بھی مناظرانہ موضوعات کو برتری حاصل رہی۔ اس کی بنیادی وجہ برصغیر کا کثیر المسلکی ماحول ہے، جس میں یقینا بہت بار باہمی تنازعات اور جھگڑے کی کیفیت بھی پیدا ہوتی ہی لیکن معاملہ چل سو چل رہا۔
۔
ایران میں چونکہ شیعہ اکثریت میں ہیں لہذا وہاں مناظرے والا ماحول کبھی نہ بنا بلکہ زیادہ توجہ تحقیق کی جانب رہی۔ قیمتی اور نایاب کتب کے ترجمے کیے گئے، پوری پوری لائیبریریز کو ڈیجیٹل فارم میں تبدیل کیا گیا۔ فلسفے، حدیث، تاریخ، منطق اور دیگر موضوعات پر تحقیق کی گئی، کتابیں لکھی گئیں۔ مزید یہ کہ وہاں انقلاب کے نظریہ کو زندہ رکھنے کیلئے بھی مخصوص فکر اور نظریات کو فروغ دیا گیا جو وہاں کے حالات اور ضروریات کے موافق تھا۔
پاکستان میں بھی بھی انقلاب ایران سے متاثر شیعہ موجود تھے اور اُس وقت بھی موجود تھے جب میں اپنی ڈائری میں مجالس کے نکات نوٹ کیا کرتا تھا یا انٹرنیٹ سے مجالس ڈاونلوڈ کرکے انہیں ازبر کرنے کی کوشش کیا کرتا تھا۔ بس فرق یہ تھا اُس وقت یہ طبقہ کسی نہ کسی حد تک برصغیر کی بنیادوں سے بہرحال جڑا ہوا تھا۔
لیکن پھر زمانہ بدلنا شروع ہوا اور اس طبقے نے اس بات کا ادراک کیے بغیر کہ ہر خطے کا اپنا مزاج اور اپنا رنگ ہوتا ہے، اپنی آنکھوں پر ایرانی چشمہ لگا لیا اور کوشش شروع کردی کہ برصغیر کے مناظرانہ ماحول کو وحدت کے اُس غلاف سے ڈھانپنے کی کوشش کی جائے جو ایران کیلئے تو موافق تھا، یہاں کیلئے نہیں۔ رواداری، امن و یگانگت کا پیغام ایک بالکل الگ موضوع ہے جس کا ہر صورت پرچار کیا جانا چاہئے لیکن اپنے عقائد و نظریات کا سودا کرکے اُسے اتحاد کا نام دینا ظلمِ عظیم ہے۔ بالخصوص اُس وقت جب آپ کے اس اقدام کی حیثیت سوائے اُس یک طرفہ پیغام سے زیادہ نہ ہو جو دوسروں کو خوش کرنے کیلئے بار بار دیا جاتا رہے۔ یاد رکھیں، اتحاد co-existence کے ساتھ بھی ممکن ہے۔ آپ ایک دوسرے کے عقائد کا احترام کریں اور علمی انداز میں اپنا نقطہ نظر بھرپور انداز میں پیش کرتے رہیں اور جب جب کوئی آپ کو اپنے دباو میں لینے کی کوشش کرے تو بجائے دفاعی پوزیشن اختیار کرنے کے خطیب اہلیبیتؑ علامہ عرفان حیدر عابدی مرحوم و مغفور کی طرح ڈنکے کی چوٹ پر جواب دیں۔
۔
مجھے پاکستانی شیعوں کے انقلابی طبقے کے اخلاص پر کوئی شک نہیں، یہ یقینا اچھی نیت سے ہی یہ سب کرتے ہیں لیکن شاید انہیں اب تک یہ احساس نہیں ہوسکا کہ ان کے بعض اقدامات نے نئی نسل کی نفسیات پر کیا اثر مرتب کیا ہے۔ ایسا تب ہوتا ہے جب آپ اپنے اصل کو چھوڑ کر کسی دوسرے کی نقل کرنا شروع کریں۔ خود پر بے تحاشہ تنقید اور دوسروں یعنی دوسرے ملک کی حد سے زیادہ بڑھی ہوئی تعریف نے انہیں احساس کمتری و برتری کے درمیان کسی کیفیت میں پھنسا دیا ہے۔ شخصیت پرستی نے ایک وبا کی صورت ان کے اذہان کو قید کر لیا ہے۔ یہ خود کو پاکستانی روایتی شیعوں کے درمیان برتر اور ایران کے سامنے کمتر محسوس کرتے ہیں جس کا نتیجہ وہی نکلتا ہے جو ہمارے سامنے ہے۔
۔
اس طرزِ عمل نے، خود کو انقلابی فکر سے وابستہ ہونے کا دعوی کرنے والی نئی نسل کی نفسیات پر یہ اثر ڈالا ہے کہ انہوں نے فضائیل و مناقب اہلیبیتؑ کے تذکرے کو بس ایک رسم سمجھ لیا ہے۔ یعنی جس تذکرے کو ہم عبادت سمجھ کر، اپنی زندگی کا اہم ترین جزو سمجھ کر سنتے آئے، آج یہ طبقہ دانستہ یا غیر دانستہ طور پر خود کو اس سے الگ کر کے کھڑا ہوگیا۔ کتنے افسوس کا مقام ہے کہ ایک نوجوان کسی مجلس میں فضائیل مولائے کائناتؑ سنے اور دوسری طرف اس کشمکش کا شکار ہوجائے کہ یہ تو میں پہلے بھی سن چکا ہوں، اب مجھے کچھ اور بتایا جائے۔ کچھ اور یعنی فکر و عمل کے نام پر وہ اصلاحی و وحدتی پیغام سنایا جائے جو اس خطے کیلئے کبھی compatible تھا ہی نہیں۔ میں کسی کا نام لیے بغیر عرض کروں گا کہ آخری بار ان کے منہ سے فضائل و مناقب اہلیبیتؑ کے حوالے سے کچھ الفاظ (جی بس کچھ الفاظ) کب سنے تھے؟
۔
ایک جانب ناصبیت مختلف شکلوں میں ظاہر ہورہی ہے، فضائیلِ مولائے کائناتؑ کو جھٹلانے کی کوشش کررہی ہے، جھوٹی روایتٰں گھڑی جارہی ہیں، شیعہ عقائد پر حملے کیے جارہے ہیں اور دوسری جانب ہمارے اندر موجود ایک طبقہ مسلسل فضائیل انقلاب و وحدت بیان کرنے میں مصروف ہے۔ کیا اس طبقے کو نظر نہیں آتا کہ ان کے برعکس، اہلسنت علماء کس قدر یکسوئی سے اپنے نظریات و عقائد کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں؟ ڈاکٹر طاہر القادری کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ جبکہ ہمارے حصے میں آئے قنبر نقوی اور حسین مسعودی۔
عجیب صورتحال ہے کہ اہلسنت علماء تو برصغیر کے روایتی مناظرانہ مگر علمی رنگ سے جڑے ہوئے ہیں لیکن شیعہ علماء کا ایک طبقہ ضرورت سے زیادہ لچکدار بننے کی کوشش میں رکوع کرتا ہوا بس سجدہ ریز ہونے کے قریب ہے۔
۔
میں کئی ایک مشہور شیعہ علماء کی مجالس سنتے ہوئے اکثر سوچا کرتا تھا کہ مولانا نے یہ نقطہ تو پہلے بھی بیان کیا ہے، یہ دلیل تو وہ پہلے بھی کسی مجلس میں دے چکے ہیں، یہ استدلال تو میں پہلے بھی سن چکا ہوں۔ لیکن پھر میں خود ہی سمجھ جایا کرتا تھا کہ یہ علماء چاہتے ہیں کہ یہ تمام دلائل سننے والوں کے ذہنوں میں خوب راسخ ہوجائیں تاکہ آنے والے وقتوں میں جب ہم نہ ہوں اور کوئی جواب دینے والا نہ ہو تو یہ لوگ ہماری دلیل کو یاد کرکے جواب دے سکیں۔
۔
مجھے فخر ہے کہ میرا تعلق اُس نسل سے ہے جو بچپن میں ڈائیری میں مجالس کے نکات لکھا کرتی تھی، انٹرنٹ سے مجلس ڈاونلوڈ کرکے بار بار سنا کرتی تھی، ٹیپ ریکارڈ اٹھا کر مجلس میں جایا کرتی تھی تاکہ مجلس ریکارڈ کرسکے۔ اور یہ سب کرنے کے بعد بھی وہ اپنے سنی دوستوں کے ساتھ ایک پلیٹ میں کھانا بھی کھاتی تھی اور اُن سے مختلف موضوعات پر علمی بحث بھی کرلیا کرتی تھی۔ کیوں کہ ہم co-existence کی اہمیت بھی سمجھتے تھے۔ کاش ہمارے مذہبی سیاسی قائدین بھی یہ سمجھ سکیں اور ہماری عزت نفس مجروح کرنے کا سلسلہ بند کریں۔
۔
ابھی بھی وقت ہے، اپنا محاسبہ کیجئے اور خود کو اس شعر کی صورت ڈھال لیجئے:
۔
غمِ شبیرؑ اور حُبِ علیؑ ہے زندگی اپنی
یہ جذبہ دل میں رہتا ہے یہ سودا سر میں رہتا ہے۔
۔

حالیہ بلاگ پوسٹس