ہماری قوم میں اگر اتحاد ہوتا تو آج یہ سب واقعتاً نہیں ہورہا ہوتا جو آج ہورہا ہے..خیر اب اگر متحد ہونے کا سوچا ہے تو خدارا متحد ہوجائیں چاہے پھل فروشوں کے خلاف ہی کیوں نہ ہونا پڑے. حلف لے لیں کچھ نہیں ہوگا تین دن پھل نہ کھانے سے آپ کو، لیکن ان افراد کو جو اس مہنگائی کا طوفان برپا کیے ہوئے ہیں ایک سبق حاصل کریں گے کہ عوام ان کے خلاف متحد ہے.
چونکہ ہم پاکستانی قوم ہیں اور اتحاد کا تو تصور بھی محال ہے تو یہ ناممکن بات ہے کہ ہم وہ چیز خریدنا چھوڑ دیں جو مہنگی ہوچکی ہو بلکہ ہم مجبور ہیں ہم کم خرید لیں گے لیکن ہم ان اشیاء کو خریدنا ترک نہیں کرسکتے کیونکہ ہم بے حس ہوچکے ہیں یا یہ کہہ لیں کہ ہمارے پاس احتجاج کرنے کے لیے اتنے سارے مسائل ہیں کہ ہم کس کس مسئلہ پر احتجاج کریں یہ سوچ کر ہی ہم احتجاج کا راستہ اختیار نہیں کرپاتے.شروعات تو کریں پھل فروش سے پھر وطن فروش تک بھی پہنچ ہی جائیں گے ایک نہ ایک دن کر کے تو دیکھیں بائیکاٹ صرف تین دن ہی کرلیں”اخراجات میں میانہ روی آدھی معیشت ہے” دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کی معیشت کی تباہی اس نوعیت کی ہوئ کہ افراطِ زر یعنی hyper inflation کی وجہ سے ایک ڈبل روٹی کی قیمت 30,000 ڈچ مارک (آج کے حساب سے 10لاکھ روپے) ہوگئی تھی. جرمن اکثریت نے 5 سال تک روزانہ ایک ابلا ہوا آلو کھا کر اپنے آپ کو زندہ رکھا اور معاشرے کے دوسرے افراد کو بھی، اس کے برعکس ہم کس بھونڈے انداز سے چائے سگریٹ اور دیگر مشروبات پر روزانہ 10 کروڑ روپے سے زائد زرمبادلہ لٹاتے ہیں.
آپ کو 55 سال نہیں صرف تین دن اپنے آپ کو بنا پھل فروٹ کھائے زندہ رکھنا ہے.کوشش تو کی جاسکتی ہے یقین کیجیے اس میں آپ کا ہی فائدہ ہے.
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn