آسیہ بی بی کی سزائے موت کے خلاف نظرثانی کی درخواست کی سماعت شروع ہوئی تو بینچ کے سربراہ جسٹس میاں ثاقب نثار نے دائیں جانب بیٹھے ہوئے جج اقبال حمید الرحمٰن کی ایما پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘چونکہ وہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی حیثیت سے سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قتل کے مقدمے کی سماعت کر چکے ہیں اور یہ مقدمہ بھی اس سے کسی حد تک منسلک ہے اس لیے وہ اس کی سماعت نہیں کر سکتے۔’
عدالت کا کہنا تھا کہ وہ اب نظرثانی کی اس درخواست کو واپس چیف جسٹس کو بھجوا دےگی اور چیف جسٹس ہی اس درخواست کی دوبارہ سماعت کرنے سے متعلق احکامات دیں گے۔
آسیہ بی بی کے خلاف جون 2009 میں توہین رسالت کے الزام میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ مقدمے میں الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے اپنے ہمراہ کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین کے ساتھ بحث کے دوران پیغمبر اسلام ﷺ کے خلاف توہین آمیز کلمات کہے تھے۔ اس مقدمے کے مدعی ننکانہ صاحب کی مسجد کے امام محمد سالم تھے۔اگلے برس 2010 میں انھیں اس مقدمے میں موت کی سزا سنائی گئی تھی۔
پانچ بچوں کی ماں آسیہ بی بی نے ہائی کورٹ میں اپنی اپیل میں موقف اختیار کیا تھا کہ مقامی عدالت نے توہین رسالت کے جرم میں سزا سناتے وقت حقائق کو نظر انداز کیا اور بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے انھیں سزا سنا دی تھی جو قانون کی نظر میں قابل پذیرائی نہیں ہے۔
2014 میں لاہور ہائیکورٹ کے دو رکنی بنچ نے آسیہ بی بی کی سزائے موت کے خلاف اپیل مسترد کر دی تھی اور ماتحت عدالت کی جانب سے انھیں دینے جانے والی سزا کو برقرار رکھا۔ آسیہ بی بی کو 2010 میں صوبہ پنجاب کے ضلع ننکانہ کی عدالت نے توہین مذہب کے الزام میں موت کی سزا سنائی تھی۔
آسیہ بی بی کی درخواست پر سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں مذہبی تنظیموں کی طرف سے کسی ممکنہ ردعمل سے بچنے کے لیے
سپریم کورٹ کی عمارت کے باہر پولیس اہلکاروں کی خاصی بڑی نفری تعینات کی گئی تھی۔
تاہم کمرہ عدالت میں لال مسجد فاونڈیشن کے عہدیداروں اور ایسے افراد کی قابل ذکر تعداد موجود تھی جو سلمان تاثیر کے قتل کے مقدمے میں موت کی سزا پانے والے ممتاز قادری کی نظر ثانی کی درخواست کی سماعت پر سپریم کورٹ میں آیا کرتے تھے۔
آسیہ بی بی کی سزا کی معافی اور رہائی کے لئے بہت سے افراد سرگرم رہے۔ آسیہ بی بی کی رہائی کے لئے کافی مظاہرے بھی کئے گئے۔ یاد رہے کہ سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو بھی ان کے محافظ ممتاز قادری نے آسیہ بی بی کے کیس میں بیان دینے پر قتل کیا تھا۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn