اکادمی ادبیاتِ اطفال کی طرف سے اچھوتی اور یادگار,, قومی کانفرنس برائے ادبِ اطفال،، کا انعقاد
مؤرخہ 22مئی 2016ء بروز اتوار پرل کانٹی نینٹل ہوٹل لاہور کے شالیمار ہال میں اکادمی ادبیاتِ اطفال ،پاکستان چلڈرن میگزین سوسائٹی اور ماہنامہ پھول کے اشتراک سے”امن اور ترقی ۔بزریعہ ادبِ اطفال”کے موضوع پر ایک شاندار اور یادگار قومی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔جس کے منتظمین حافظ مظفر محسن صاحب وائس چیئر مین اکادمی ادبیاتِ اطفال اور محمد شعیب مرزا صاحب صدر پاکستان چلڈرن میگزین سوسائٹی اور مدیر ماہنامہ پھول تھے۔اس کانفرنس کے انعقاد کا مقصد ملک بھر سے بچوں کے ادیبوں،شاعروں اور دانشوروں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا،مل بیٹھ کر باہمی مشورے سے کوئی لائحہ عمل مرتب کرنے کے ساتھ ساتھ بچوں کے لئے ادب تخلیق کرنے کا شوق رکھنے والوں کو مختلف اصنافِ ادب کو تحریر کرنے کی تکنیک وطریقہ کار اور باریکیوں سے آگاہ کرنا تا کہ وہ اس رہنمائی کی روشنی میں ایسی تحریریں لکھ سکیں جو قابل اشاعت ہونے کے ساتھ ساتھ بچوں کے لئے دلچسپ اور مؤثر بھی ثابت ہوسکیں۔اس کانفرنس میں آزاد کشمیر سمیت پاکستان بھر سے نامور ادیبوں کے علاوہ بچوں کے ادب سے دلچسپی رکھنے والے لوگوں کی ایک کثیر تعداد نے بڑے ذوق شوق سے شرکت کی۔نقابت کے فرائض شرمین قمر نے بہت احسن طریقے سے انجام دیئے۔صبح سے شام تک جاری رہنے والی اس کانفرنس میں ماشاء اللہ وہ مسلسل تروتازہ رہیں اور حاضرین کو بھی بور نہیں ہونے دیا۔یہ کانفرنس چار مختلف نشستوں پر مشتمل تھی۔
افتتاحی نشست کی صدارت مشہور دانشور،محقق اور بچوں کے ادیب جناب ابصار عبدالعلی صاحب نے کی۔مہمان خصوصی مشہور قطعہ نگار جناب ظفر علی راجا صاحب تھے۔کانفرنس کے روح رواں حافظ مظفر محسن صاحب اور محمد شعیب مرزا صاحب اور مولانا طارق جاوید عارفی صاحب بھی سٹیج پر جلوہ افروز ہوئے۔
اس کانفرنس کا باقائدہ آغاز محترم قاری احمد ہاشمی صاحب نے نہایت خوش الحانی سے تلاوتِ قرآن مجید،فرقان حمیدوترجمہ سے کیا۔محترم سرور حسین نقشبندی نے اپنی ہی تحریر کردہ یہ خوبصورت نعت پیش کرکے خوب داد سمیٹی ۔
رہتی ہیں میری سیرتِ اطہر پہ نگاہیں
دشوار نہیں کوئی بھی رستہ مرے آگے
محترم مولانا طارق جاوید عارفی صاحب نے ,,نون۔والقلم وما یسطرون،،کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو قلم کی صورت میں ایک بیش قیمت نعمت سے نوازاہے،اس لئے اس کا استعمال بہت سوچ سمجھ کر کرنا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ بچوں کے ادیبوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ایسی تحریریں لکھیں جو بچوں کو سچا مسلمان،سچا پاکستانی اور اچھا انسان بنائیں،انہیں شجاعت وبہادری سکھائیں اور نونہالوں کی کردار سازی کواپنا لائحہ عمل بنائیں۔ہونہار مقررہ مہرال قمر نے بہت خوبصورت اور پُرجوش انداز میں پاکستان جیسے زرعی ملک میں تھر میں سینکڑوں بچوں کا تڑپ ترپ کر جان دینا،بچوں کا پڑھائی چھوڑ کر محنت ومشقت کرنا،غربت،بے روزگاری،سیاسی انتشار،میڈیا کے بچوں پر منفی اثرات جیسے سلگتے ہوئے موضوعات پر مختصر مگر جامع انداز میں تقریر کرکے تالیوں کی صورت میں داد وصول کی اور ثابت کیا کہ بچوں کا مشاہدہ اور آواز کس قدر مؤثر ہے۔حافظ مظفر محسن صاحب نے خطبہ استقبالیہ میں تمام اہم شخصیات کا فرداً فرداً اورکانفرنس کا شرکاء کا کانفرنس میں شرکت کرنے اور اسے کامیاب بنانے پر اور مختلف اداروں کے تعاون پرشکریہ ادا کیا۔انہوں نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ اس کانفرنس سے تمام شرکاء کو بہت کچھ سیکھنے اور اپنے فن کو نکھارنے کا موقع ملے گااور وہ پہلے سے بھی بہتر انداز سے نئی نسل کی تربیت کا فریضہ ادا کریں گے۔کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے محمد شعیب مرزا صاحب نے 90ء کی دہائی سے حال تک بچوں کے ادب کے فروغ میں درپیش مسائل ومشکلات کا مختصر جائزہ پیش کیا۔انہوں نے کہا کہ بچوں کا چونکہ ووٹ نہیں ہوتا اس لئے وہ حکومتی ترجیحات میں شامل نہیں۔انہوں نے کہا کہ بچوں کے ادیبوں کے شایان شان کانفرنس کا انعقاد کرنا ہمارا ایک دیرینہ خواب تھا،یہ کانفرنس اس خواب کی تعبیر ہے،مگر ہے منزل نہیں بلکہ آغاز سفر ہے۔انہوں نے کہا کہ بچوں کا ادب نئی نسل کی کردار سازی میں اہم کردار ادا کرتا ہے اس لئے بچوں کے ادیبوں اور ادبی تنظیموں کو سرکاری سرپرستی حاصل ہونی چاہئے۔انہوں نے امید ظاہر کی کہ اس کانفرنس میں بطور مہمان آنے والے ادیب،شاعر،صحافی،دانشور بچوں کے ادب کی اہمیت اجاگر کرنے میں اپنا کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ خود بھی بچوں کے لئے لکھیں گے۔انہوں نے اکادمی ادبیات اطفال کی کوشوں کو سراہتے ہوئے خواہش ظاہر کی آئندہ بھی ایسے پروگراموں کا انعقاد ہوتے رہنا چاہئے۔اس نشست کے مہمان خصوصی محترم ظفر علی راجا صاحب نے کہا کہ اس قدر شاندار کانفرنس میں شرکت کرکے مجھے فخر محسوس ہو رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ کچھ مقامی اور انڈین چینلز پر دکھائے جانے والے پروگرام بالخصوص کارٹون ایسے ہیں جو ہماری اسلامی اقدار کے منافی ہیں اس لئے بچوں کو میڈیا کی بجائے کتب بینی کی طرف لانے کے لئے بچوں کے ادب کی تخلیق کی اہمیت اور بڑھ گئی ہے۔انہوں نے اس شاندار کانفرنس کے انعقاد پر منتظمین کو خراج یحسین پیش کیااور اپنا فی البدیہہ لکھا ہوا یہ شعر سنایا:
شجر ماں،باپ ہیں،سایہ ہیں بچے
بڑا انمول سرمایہ ہیں بچے
معروف شاعر،ادیب،استادمحترم امجد اسلام امجد صاحب نے بھی اس کامیاب کانفرنس کے انعقا د کے لئے منتظمین کی کاوشوں کو سراہا۔جنہوں نے کہا کہ ہمیں ادب کے زریعہ بچوں کی ذہن سازی کرنی ہے تا کہ وہ سوچنا شروع کریں کیونکہ جب تک وہ سوچنا شروع نہیں کریں گے ان کے تصورات واضح نہیں ہوسکیں گے۔انہوں نے کہا کہ یہ کانفرنس پرانی وضع داری اوراخلاقیات کو دوبارہ بحال کرنے کے طریقہ کار کو وضع کرنے کی ایک بہترین کوشش ہے اس لئے ہم سب کو اس میں اپنا اپنا حصہ ڈالنا چاہئے۔اس نشست کے صدر مشہور محقق،دانشور،ادیب محترم ابصار عبدالعلی صاحب نے کہا کہ اس کائنات میں دو جنتیں ہیں۔ایک آسمان پر اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی جنت اور دوسری یہ کائنات،یہ زمین۔ادیب اور قلمکار لوگوں کو بتائیں کہ اس زمین کو ،اس دنیا کو کیسے جنت بنانا ہے؟انہوں نے کہا کہ میرا خیال تھا کہ شاید بچوں اکثریت میری مخاطب ہوگی مگر کانفرنس میں آکر اندازہ ہوا کہ یہ بچوں کے لئے کام کرنے والے ادیبوں کے لئے تربیتی نشست ہے۔انہوں نے کہاکہ کارٹون بچوں کی تربیت کا مؤثر اور بہترین ذریعہ ہیں اس لئے ہمیں اپنے مذہبی واخلاقی تصورات ونظریات کو کارٹون کے ذریعہ ازبر کروا سکتے ہیں۔انہوں نے حکام بالا سے مطالبہ کیا کہ دیگر شعبہ ہائے زندگی کی طرح بچوں کے ادب کے حوالے سے نمایاں خدمات پربھی صدارتی تمغہ حسنِ کارکردگی دیا جائے اور بچوں کی ثقافتی سرگرمیوں کو منظم کرنے پر بھی خصوصی ایوارڈ دیا جائے۔انہوں نے کہا کہ وسائل نہ ہوں تو انسان سائل بن جاتا ہے مگر شعیب مرزا صاحب اور حافظ مظفر محسن صاحب نے وسائل کے بغیر اس شاندارکانفرنس کا انعقاد کرکے ایک بہت بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔اس نشست کے اختتام پر قاری احمد ہاشمی صاحب ،سرور حسین نقشبندی صاحب،مالانا طارق جاوید عارفی صاحب ،مہرال قمر،ظفر علی راجا صاحب اور ابصار عبدالعلی صاحب کو یادگاری شیلڈز پیش کی گئیں۔
دوسری نشست کی صدارت اسلام آباد سے تشریف لانے والے معروف شاعروادیب اور مسیحا محترم ڈاکٹر فرحت عباس صاحب نے کی۔اس نشست کا باقاعدہ آغاز پاکستان پیٹریات فورم کے رائٹرز ونگ ملتان کے نگران،قاری اور بچوں کے ادیب قاری عبداللہ نے تلاوت کلام الٰہی سے کیا۔معروف سکالر محترم خالد محمود صاحب نے,,ادیبوں کے لئے ریڈیو پر لکھنے کے مواقع،،پر سیر حاصل گفتگو کی۔انہوں نے کہا کہ بچے ہمارے معاشرے کی بنیادی اکائی ہیں اس لئے انہیں اپنے خطاب کا عنوان بنائیں،انہیں سنواردیں تو معاشرہ خودبخود سنور جائے گا۔انہوں نے کہا کہ ریڈیو آج بھی ایک مؤثر ذریعہ اظہار ہے اس لئے بچوں کے ادیبوں کو ریڈیو کے لئے بھی لکھنا چاہئے۔نامور پروڈیوسر محترم حفیظ طاہر صاحب نے,,بچوں کیلئے ٹی وی درامے کی تکنیک،، پر مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ بچے ہمارے مستقبل کے معمار ہیں،ہمارا سافٹ وےئر ہیں جس کی درست پروگرامنگ کی ضرورت ہے۔انہوں نے ٹی وی درامے کی تکنیک پر تفصیلی روشنی ڈالی۔محترم امجد اسلام امجد صاحب نے ,,ٹی وی ڈرامہ کیسے لکھا جائے؟پر تفصیلی روشنی ڈالی اور کہا کہ حاضرین(Audience) کو نہ ہی بے وقوف سمجھیں اور نہ ہی بے وقوف بنائیں۔انہوں نے کہا کہ آئندہ عملی ورک شاپ کا اہتمام بھی کیا جائے تا کہ افادیت میں اور اضافہ ہوجائے۔انہوں نے کہا کہ اس کانفرنس میں بہت دور دراز علاقوں سے لوگوں کو شرکت کے لئے بلایا گیا ہے جس اس گلے کا خاتمہ ہو گیا ہے کہ اکثر پروگراموں میں دو چار بڑے اور بنیادی شہر کے لوگوں کو ہی شرکت کی دعوت دی جاتی ہے۔صدر تقریب محترم ڈاکٹر فرحت عباس صاحب نے کامیاب کانفرنس کے انعقاد پر منتظمین کو مبارک باد پیش کی۔انہوں نے الیکٹرانک میڈیا پر بچوں کے لئے لکھنے کی ضرورت پر زور دیا۔انہوں نے بچوں کے ادیبوں سے کہا کہ بچوں میں پاکستانیت،وطنیت اور ادب کے جزبات پیدا کریں۔انہو ں نے اس مشہور شہر کے برمحل استعمال پر داد حاصل کی:
پھلا پھولا رہے یارب چمن میری امیدوں کا
جگر کا خون دے دیکر یہ بوٹے میں نے پالے ہیں
اس نشست کے اختتام پر قاری محمد عبداللہ صاحب،ڈاکٹر فرحت عباس صاحب،امجد اسلام امجد صاحب،خالد محمود عطاء صاحب،حفیظ طاہر صاحب کی خدمت میں یادگاری شیلڈز تقسیم کی گئیں۔
تیسری نشست کا آغاز حافظ محمد زاہد صاحب نے تلاوت کلام پاک سے کیا۔صدارت معروف ادیبہ وسماجی شخصیت محترمہ بشریٰ رحمن صاحبہ نے کی۔حمید نظامی انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر محترم ابصار عبدالعلی صاحب نے ,,بچوں کے ادب میں نظموں کی اہمیت،،کے موضوع پر تفصیلی مقالہ پیش کیا اور بتایا کہ نظم ،نثر سے زیادہ جلدی اورمؤثر انداز میں پڑھنے والوں اثر انداز ہوتی ہے۔پہلے لوری کے زریعے نہ صرف بچوں کو سلایا جاتا تھا بلکہ انہیں بہت کچھ سکھایا بھی جاتا تھا۔لہٰذا بچوں کے لئے نظمیں یخلیق کی جانی چاہےئیں۔معروف ادیبہ محترمہ مسرت کلانچوی صاحبہ نے ,,بچوں کے لئے اچھی کہانی لکھنے کی تکنیک،، بیان کی۔انہوں نے کہا بچوں کے لئے کہانی لکھنے کے لئے اپنے بچپن میں لوٹ جانا چاہئے۔کہانی لکھنے کے بعد اسے رکھ دیں اور 2,3بعد بطور مصنف نہیں بطور نقاد دوبارہ پڑھنا چاہئے۔معروف محقق محترم تحسین فراقی صاحب نے,,بچوں کی کہانیوں کے تراجم کے قواعدوضوابط،،پر تفصیلی روشی ڈالتے ہوئے کہا کہ ترجمہ کرنے والے کو اپنی ذات کی قربانی دینی چاہئے۔ترجمہ کرنے والے کو نے صرف اس زبان جس سے وہ ترجمہ کررہا ہے مہارت ہونی چاہئے بلکہ جس زبان میں ترجمہ کر رہا ہے اس پر بھی عبور ہونا چاہئے۔محترمہ بشریٰ رحمن صاحبہ نے ,,ناول کیسے لکھا جائے؟،، کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ بچوں کی ادیب کی دوہری ذمہ داری ہے۔جنہوں نے بتایا کہ ناول لکھنے کے لئے دیگر تکنیکی باتوں کے علاوہ مشاہدہ بے حد ضروری ہے۔جنہوں بچوں کے لئے فلمیں بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔ڈاکٹر ضیاء الحسن ضیاء صاحب نے کامیاب کانفرنس کے انعقاد پر منتظمین کو خراج تحسین پیش کیا۔
اس نشست کے اختتام پر حافظ محمد زاہد صاحب،بشریٰ رحمن صاحبہ،مسرت کلانچوی صاحبہ،ضیاء الحسن ضیاء صاحب اور ابصار عبدالعلی صا حب کو یادگاری شیلڈز سے نواز اگیا۔
تیسری نشست کی صدارت تحسین فراقی صاحب نے کی۔,,اخوت ،، کے روح رواں محترم ڈاکٹر امجد ثاقب صاحب نے ,,کامیابی مگر کیسے؟،، کے تحت اخوت کے آغاز کی کہانی بہت تفصیل کے ساتھ بالکل کہانی کے انداز میں سنائی اور کہانی کاروں کو دعوت دی کہ وہ اسے ایک کہانی کے انداز میں لکھیں تاکہ اس سے متاثر ہوکر لوگ اس کا ایک مؤثر حصہ بنیں۔پروفیسر حمیدہ شاہین صاحبہ نے ,,بچوں کے ادب کے معاشرے پر اثرات،، کے موضوع پر بہت ہی خوبصورت مقالہ بہت خوبصورت انداز میں پڑھا اور کہا کہ بچوں کے لئے پنجرے نہ بنائیں بلکہ خوبصورت گھر بنائیں جس میں کھڑکیاں بھی ہوں اور دروازے بھی۔محترم پرفیسر ہمایوں احسان صاحب نے,,کھول آنکھ زمیں دیکھ،فلک دیکھ ،فضا دیکھ،،کے موضوع پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں بچوں کو کہانیاں سنانے کے ساتھ ساتھ عملی سبق سکھانے کی بھی ضرورت ہے۔ہمیں اپنے آپ کو بطور نمونہ پیش کرنے کے قابل بنانا ہے۔ہمیں اپنے قول و عمل کے تضاد کو ختم کرنا ہے۔پہلے رہنما کو رہنمائی کے قابل بنانا ہے تب ہی بچے ہم سے رہنمائی لیں گے۔
اس نشست کے دوران لدھیانہ انڈیا سے آئے ہوئے معروف ادیب ڈاکٹر کیول دھیر صاحب کی کانفرنس میں شرکت سے کانفرنس
قومی سے بین الاقوامی رنگ اختیار کرگئی۔
ڈاکٹر کیول دھیر صاحب نے کہا کہ میں الحمرا میں ایک پروگرام میں شرکت کے لئے ہوٹل کے کمرے سے نکلا تو مجھے اس کانفرنس کا پتہ چلا تو میں یہاں آگیا۔ان کی آمد کے اعلان پر حاضرین نے پُرجوش تالیوں سے ان کا استقبال کیا۔انہوں بچوں کے حوالے سے اس شاندار کانفرنس کے انعقاد پر انتظامیہ کو خراج تحسین پیش کیا۔انہوں نے کہا میں انڈیا کے لوگوں کی طرف سے پاکستانیوں کو محبت اور سلام پیش کرتا ہوں۔محترمہ سعدیہ راشد صاحبہ صدر ہمدرد فاؤنڈیشن کچھ مصروفیات کی وجہ سے تشریف نہیں لا سکیں،ان کا پیغام پڑھ کر سنایا گیا۔اس نشست کے اختتام پر ڈاکٹر امجد ثاقب صاحب،پروفیسر حمیدہ شاہین صاحبہ ،پروفیسر ہمایوں احسان صاحب،شرمین قمرصاحبہ اور محترمہ سعدیہ راشد صاحبہ کو یادگاری شیلڈز دی گئیں۔
مشہور کاٹونسٹ سہیل بوبی کے کانفرنس کے حوالے سے بنائے ہوئے کارٹون شرکائے کانفرنس کی خصوصی توجہ کا مرکز بنے رہے،حاضرین نے ان کی اس کاوش کو بہت سراہا۔
پرل کانٹی نینٹل ہوٹل کے شالیمار ہال میں سادگی مگر پُرکاری سجے خوبصورت سٹیج پر خوبصورت پھولوں کا نفیس گلدستہ اپنی بہار دکھا رہا تھا۔تیز روشنیوں کی بجائے بے حد نفیس فانوس کی روشنیوں نے ماحول کو خواب ناک بنا دیا تھا۔مگر پروگرام کی نوعیت،ماہرینِ فن ،دانشوروں کی پُر اثر گفتگو،دو مرتبہ کی چائے اور پُر تکلف ومزیدار ظہرانے نے شرکائے کانفرنس کو نے صرف چاک وچوبند رکھابلکہ مجھ سمیت بچوں کا ادب تخلیق کرنے کا شوق رکھنے والوں کے شوق کو مہمیز کیا۔ایک دن میں معلومات کا ایک وسیع ذخیرہ فراہم کیا گیا۔گویا یہ کانفرنس سمندر کو کُوزے میں بند کرنے کی ایک بہترین کوشش و کاوش تھی۔کانفرنس کے تمام شرکاء کو یادگار کے طور پر ایک ایک بہت خوبصورت بیگ دیا گیا جس میں اکادمی ادبیات کے مانوگرام(Monogram) والا پیڈ،قلم،کہانیوں کی کتاب،کانفرنس کا آرٹ پیپر پر شائع شدہ بروشر وغیرہ تھے۔علاوہ ازیں تمام شرکاء کو اعزازی اسناد سے بھی نوازہ گیا۔
کانفرنس کے شرکاء کے اسمائے گرامی کچھ یوں ہیں:
شاہد اقبال(گوجرانوالہ)،محمد زبیر امین (ملتان)،جاوید اقبال(لاہور)،منزہ اکرم (لاہور)،عثمان اکرم (لاہور)،طارق ریاض خان(لاہور)،مرزا حامد بیگ(لاہور)،امجد شریف (گوجرانوالہ)،رانا محمد شاہد (بورے والا)،عنیزہ طارق(ملتان )،عبدالوحید مزاج(میانوالی)،نیلما ناہید درانی (لاہور)،ڈاکٹر فوزیہ سعید (لاہور)،یاسمین کنول (پسرور)،ساجد انور ملک (لاہور)،بنتِ محمد صدیق (لاہور)،سمیرا فاطمہ قادری (گوجرانوالہ)،شوکت علی مظفر (کراچی )،شاہد انور شیرازی (مردان)،ڈاکٹر فضیلت بانو(اوکاڑہ)،عبدالرشید فاروقی(جھنگ)،عرفات ظہور(ملتان)،نذیر انبالوی (لاہور)،قاری عبداللہ (ملتان)،حافظ مظفر محسن (لاہور)،ریاض احمد قادری (فیصل آباد)،اکرم سحر فارانی (لاہور)،چوہدری عبدالخالق(لاہور)،ظفر علی راجا (لاہور)، حافظ نعیم سیال (ملتان)،فرحان اشرف (ہارون آباد)،خالدہ قمر (لاہور)،شرمین قمر (لاہور)،زمرد سلطانہ (الٰہ آباد)،عمران سہیل بوبی (اوکاڑہ)، آمنہ خواجہ صاحبہ (لاہور)،مدیر بزم قرآن/اسامہ منور(لاہور)،اشرف سہیل (لاہور)،فہیم عالم (لاہور)،اسحق وردگ(پشاور)،حافظ زاہد (لاہور)،اختر سردار چوہدری (کسووال)،زاہد حسن (لاہور)،زاہد محمود شمس (لاہور)،فرزانہ ریاض (میلسی)،ڈاکٹر فرحت عباس (اسلام آباد)،ضیاء اللہ محسن (ساہیوال)، عبداللہ نظامی (لیہ)،اعجاز احمد اعجاز(اسلام آباد)،احتشام جمیل شامی (اوکاڑہ)،عزیر سلیم (ملتان)،قمرالحسن (لاہور)،احمد عدنان طارق(فیصل آباد)، نادر کھوکھر(لاہور)،علی عمران ممتاز (ملتان)،منور حسین منور(محراب پور)،امان اللہ نےئرشوکت (لاہور)،پروفیسر افضل حمید (فیصل آباد) ،مزمل صدیقی (فیصل آباد)،محمد طارق سمراء (خانیوال)،محمد علی عادل (اسلام آباد)،نعیم امین (لاہور)،اسد نقوی (لاہور)،بدر سعید (لاہور)،زابر سعید (لاہور)،عبدالمنان (لاہور)،عائشہ جمشید (لاہور)،اعجاز گیلانی(لاہور)،امتیاز عارف (لاہور)،صالح جوئیہ (ملتان)،شہزاد اسلم راجہ (لاہور)،سدرہ امبرین (لاہور)،تہذین طاہر (لاہور)،فرخ شہباز وڑائچ (لاہور)،جویریہ ثناء (ملتان)،مہرال قمر صاحبہ (لاہور)،نعیم مرتضیٰ صاحب (لاہور)،وسیم عباس صاحب(لاہور)،مقدس اعوان (لاہور)،ڈاکٹر آمنہ قریشی (لاہور)،امبرین اکرم (لاہور)،فضیلت اکرم (لاہور)، حافظ احمد ہاشمی (لاہور)،ظہرین تبسم (لاہور)،ماریہ تبسم (لاہور)،سرور حسین (لاہور)،نائلہ ندیم (لاہور)،عادل خان شہریار (لاہور)،محمد اجمل (لاہور)، عبدالقیوم مرزا(لاہور)،رباحہ ارشد (لاہور)،ریحانہ کنول (لاہور)،فاطمہ خان (لاہور)،نصیر احمد (لاہور)،محمد جمیل (راولا کوٹ آزاد کشمیر)،ملک سلیم (لاہور)،شیر عالم (لاہور)،محمد احسان (کوئٹہ)،ریحان احمد (فیصل آباد)،سفیان ریاض (وہاڑی )،شرجیل سلیم (لاہور)،زوہیب احمد (شیخوپورہ )،سہیل احمد (لاہور) ،پروفیسررضیہ رحمن(خانیوال)کے علاوہ حلقہ ارباب ذوق کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر امجد طفیل ،ماہنامہ ’’ادب لطیف‘‘کے مدیر مظہر سلیم مجوکہ ،ماہنامہ ’’ارژنگ‘‘کے مدیر معروف شاعر حسن عباسی ،کالم نویس وچےئر مین پاکستان کالمسٹ کونسل ندیم بھٹی،سماجی رہنماعلینہ ٹوانہ،محمدی آئی ہسپتال اور ہمت ٹرسٹ پاکستان کے ڈائریکٹر ندیم احمد جنجوعہ ،ساؤتھ ایشین کالمسٹ ایسوسی ایشن کے سیکرٹری جنرل اور ہفت روزہ ’’سکول لائف‘‘کے چیف ایڈیٹر ضمیر آفاقی ،معروف شاعر حافظ عزیر احمد ،اکادمی ادبیات پاکستان کے آفس سیکرٹری محمد جمیل ،معروف شاعر اور ’’خیال و فن ‘‘ کے مدیر اعلیٰ محمد ممتاز راشد ،ریڈیو پاکستان کے مصطفی کمال ،اردواور پنجابی کے معروف ادیب زاہد حسن ،معروف شاعر عاصم خواجہ،معروف شاعر و کالم نویس پروفیسر ناصر بشیر ،ممتاز شاعر و کالم نگار سعداللہ شاہ،معروف ادیب و شاعر اعتبار ساجد ،معروف شاعرہ نیلما ناہید درانی،ہمدرد فاؤنڈیشن کے منیجر پبلک ریلیشنز علی بخاری ،نظریہ پاکستان ٹرسٹ صوبہ سرحد کے سیکرٹری ملک لیاقت علی تبسم ،پنجاب ایجوکیشن اینڈ وومنٹ فنڈ کے حسن جمیل اور ریحان غوری ،صحافی فرقان علی ، معروف شاعر اور ادیب شکیل چوہان اور دیگر شخصیات نے بھرپور شرکت کی اور کانفرنس کے تمام سیشنز میں موجود رہے ۔
کانفرنس کی اہمیت کے پیش نظر پرنٹ ،الیکڑانک میڈیا بشمول ریڈیوپاکستان نے خصوصی کوریج دی جبکہ کالم اوررپورٹس کی اشاعت کا سلسلہ مختلف اخبارات و رسائل میں ابھی تک جاری ہے ۔
آخر میں بچوں کے معروف ادیب نزیر انبالوی صاحب نے کانفرنس کی سفارشارت کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے کہا:
-1ایم اے اردو کے نصاب میں بچوں کے کلاسیکل ادب اور عصر حاضر میں لکھے جانے والے ادب میں سے منتخب حصے شامل کئے جائیں۔
-2بچوں کے ادب میں نمایاں خدمات پربھی صدارتی تمغہ حسن کارکردگی دیا جائے۔
-3اکادمی کی طرف سے بچوں کے ادیبوں کے لئے ایوارڈز کا اجراء
-4بچوں کے رسائل کے لئے سرکاری اور نجی اداروں کے اشتہارات کی فراہمی۔
-5بچوں کے رسائل کے مدیران ودیگر عملے کے لئے تکنیکی وتربیتی ورکشاپس کا انعقاد۔
-6بچوں کے ادیبوں کی انشورنس وسرکاری مراعات کا حصول۔
-7بچوں کے ادب کے حوالے سے کتب میلوں کا اہتمام۔
-8مستحق اور بیماربچوں کے ادیبوں کے لئے ماہانہ وظیفہ کا اجراء۔
-10ہر لائبریری میں بچوں کے ادب کا شعبہ قائم کیا جائے جو بچوں کے رسائل خریدنے کا پابند ہو۔
-11بچوں کے ادب کے لئے کاغز کی کم قیمت پر فراہمی۔
-12بچوں کے ادیبوں/رسائل کی ڈائریکٹری کی اشاعت۔
-13ہر سال بچوں کے ادیبوں کی قومی/عالمی کانفرنس کا انعقاد کرنا۔
14۔ ہر شہر کی مرکزی لائبریری میں شعبہ بچوں کا ادب کا قیام لازم قرار دیا جائے، ان لائبریریوں کے لئے بچوں کے رسائل اور کتب کی خریداری کے لئے خصوصی فنڈ مقرر کیا جائے۔
15۔ بچوں کے رسائل اور پبلشرز کو رسائل اور کتب کی اشاعت کے لئے حکومت ارزاں نرخوں پرکاغذ فراہم کرے۔
16۔ بچوں کے رسائل کو خصوصی طور پر سرکاری اشتہارات دیئے جائیں۔
17۔ تعلیمی اداروں میں بزمِ ادب کے دوبارہ آغاز کے ساتھ ساتھ خصوصاً سکولوں میں کتاب میلوں کا باقاعدہ اہتمام کیا جائے۔
18۔ الیکٹرانک میڈیا کے لیے لازم ہو کہ وہ 24 گھنٹے میں سے 2 گھنٹے بچوں کے لئے پروگرام نشر کریں جن کی تیاری کے لئے بچوں کے ادیبوں کی خدمات حاصل کی جائیں۔
محترم حفیظ طاہر صاحب کا یہ قول”خدارا!اس کارِ نفیس کو جاری رکھئے”تمام حاضرین کے دل کی آواز تھی۔
یوں یہ مفید معلومات سے بھر پور یادگارکانفرنس اپنی یادوں کے انمٹ نقوش دل ودماغ پرثبت کرکے اپنے اختتام کو پہنچی۔
رضیہ رحمٰن درس وتدریس کے شعبے سے وابسطہ ہیں۔ خانیوال میں ایک کالج میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر اردو خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔ اور علم کی یہ خدمت گذشتہ 22 سال سے جاری ہے۔ مختلف ادبی تقریبات کی رپورٹس لکھنے کے علاوہ ادب کی باقی سرگرمیوں میں باقاعدہ حصہ لیتی رہتی ہیں۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn