ادارتی نوٹ : جوں ہی ویلنٹائن ڈے نزدیک آتا ہے ویلنٹائن ڈے کے حامی و مخالفین سوشل میڈیا پر لٹھ برداری شروع کر دیتے ہیں۔ ویلنٹائن ڈے کا ہمارے برصغیر کی ثقافت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ ناں ہی یہ اس خطے کے ساتھ وابستگی رکھتا ہے۔ لیکن اس کے حامی و مخالفین بنا حقائق و تاریخ جانے سوشل میڈیا پر جہاد شروع کر دیتے ہیں۔ ادارہ قلم کار کو ویلنٹائن ڈے سے کوئی مسئلہ نہیں کہ منایا جائے یا نا منایا جائے لیکن محترم ظہور ندیم صاحب کی دیوارِ مہربانی پر ان کے ایک دوست ناصر خان ناصر نے ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے تاریخ رقم کی ہے۔ اسے ان کی اجازت کے ساتھ قلم کار کے قارئین کے لئے پیش کیا جا رہا ہے۔
چند دن میں دنیا بھر میں محبت اور دوستی،امن کا خوبصورت تہوار منایا جا رہا ہے۔ یہ تہوار کس طرح شروع ہوا، اس کے بارے میں پاکستان کے مذہبی حلقے من گھڑت باتیں سنا کر لوگوں کو متنفر کرنے کی مہم میں جٹے ہیں۔ اصل حقائق پیش خدمت ہیں۔
فروری، سن 278 A.DD. کو روم میں سینٹ ویلنٹائن کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا تھا ۔ یہ شہنشاہ کلاڈیس کے زمانے کی بات ہے۔ اس ظالم حکمران کی بادشاہت میں روم میں بے شمار ظلم و تشدد بھرے ناپسندیدہ اور غیر مقبول قوانین رائج تھے۔ شہنشاہ کو ایک بڑی فوج کی ضرورت ہمیشہ رہتی تھی مگر بہت سے نوجوان فوج کے نام سے ہی بدکتے تھے۔ کلاڈیس کا خیال تھا کہ اس کی بڑی وجہ نوجوانوں کا اپنی بیویوں اور فیملی سے فطری لگاؤ ہے۔ اس بنا پر کلاڈیس نے روم میں شادی اور منگنی کی رسومات پر پابندی لگا دی۔ سینٹ ویلنٹائن نے اس قانون کو توڑتے ہوئے چوری چھپے لوگوں کے بیاہ کی مذہبی رسومات جاری رکھیں۔ جب ان کے ایسے قانون شکن اقدامات کی بادشاہ کو خبر ملی تو اس نے انھیں سزائے موت کا حکم سنا دیا۔ سینٹ ویلنٹائن کو گرفتار کر کے روم کے سڑکوں پر گھسیٹا گیا۔ پھر ڈنڈوں سے مار مار کر ادھ موا کرنے کے بعد ان کا سر قلم کر دیا گیا۔
روایات کے مطابق جیلر کی بیٹی کو سینٹ ویلنٹائن سے ہمدردی ہو گئ تھی اور وہ ان کی دوستی کا دم بھرنے لگی تھی۔ مرنے سے قبل انھوں نے اس خاتون کو جو الوداعی رقعہ تحریر کیا تھا، اس میں اختتامی دستخط "تمھارے ویلنٹائن کی طرف سے” لکھ کر کیے گئے تھے۔
اپنی انہی بے شمار خدمات کی بنا پر موت کے بعد انھیں سینٹ کا درجہ مرحمت فرمایا گیا۔
ویلنٹائن نام کے کم از کم تین لوگ سینٹ بنائے گئے۔ پیگن مذہب کے زمانے میں 14 فروری کو Lupercalia تہوار منایا جاتا تھا، جسے محبت کا تہوار بھی کہتے تھے۔ لوگ اس دن اپنے چاہنے والوں کو پھولوں کے تحائف پیش کرتے تھے۔ سن 496 A.D. کو پوپ نے اس محبت کے تہوار Lupercalia پر پابندی لگا دی اور اس دن کو سینٹ ویلنٹائن کا دن منانے کا اعلان کیا۔ آہستہ آہستہ یہ دن پھر پھولوں اور تحائف پیش کر کے دوستی اور محبت کے اظہار کا دن بن گیا۔
تمام تہذیب یافتہ ممالک میں یہ تہوار منایا جاتا ہے۔ اسکولوں میں ننھے بچے اپنے والدین اور نانی، نانا /دادی، دادا کے لئے تصویریں یا پیغام پینٹ کر کے بناتے ہیں۔ بوڑھے لوگ بھی بچوں کو وش کر کے تحائف دیتے ہیں۔ میاں بیوی پھول /تحائف خوشبو کا تبادلہ کرتے ہوئے تجدید محبت کرتے ہیں۔ محبت کرنے والے اپنی محبوب ہستی کو تحفہ اور پیغام بھجواتے ہیں۔ اس تہوار کا اصل مقصد دراصل تجارت کو فروغ دینا ہی ہے۔ طرح طرح کے تحائف چاکلیٹ کینڈی پھول اور عطر وغیرہ کی خریداری کی بنا پر کرنسی گردش میں آتی ہے ۔ چھوٹے موٹے دوکانداروں ، پھول اگانے والوں سمیت بے شمار لوگوں کو روزگار میسر آتا ہے۔ ٹیکس کی مد میں حکومت کا خزانہ بھی بھر جاتا ہے اور حکومت عوام کی فلاح و بہبود کے لئے خرچ کرنے کے لئے فنڈز حاصل کر لیتی ہے۔ یوں اکانومی کا پہیہ گردش میں رہ کر ملک و ملت کی ترقی میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے وطن عزیز میں جاہل مولوی کی قیادت میں اس بے ضرر سے تہوار کی مخالفت کی لہر چل نکلی ہے۔ اسے بے حیائ کو فروغ دینے کے علاوہ غلط مطلب عطا کر کے خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کی حکایت پوری کی جا رہی ہے۔ حکومت کی طرف سے بھی اس کی مخالفت کی حماقت پر سوائے سر پیٹ لینے کے اور کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ وطن عزیز میں مہنگائ، اقربا پروری، رشوت، سفارش، دھاندلی، ملاوٹ، تشدد، ہنگامہ آرائی، قتل و غارت، بم دھماکے اور دیگر دہشت گردی سے نظریں چرا کر صرف ویلنٹائن ڈے کو برا بھلا کہنا ہماری پسماندگی اور ذہنی پستی کی علامت ہے
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn