وضع میں تم ہو نصاری تو تمدن میں یہود
یہ مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود
صبح صبح جب ٹی وی لگایا توایک طو فان بدتمیزی سے واسطہ پڑا ۔ ایک محترمہ مارننگ شو کی مشہور ہوسٹ شادیوں کا ہفتہ مناتی نظر آئیں۔ یہ محترمہ اپنے چینل کی ریٹنگ بڑھانے کے لئے اوچھی حرکتوں اور ناچنے تھرکنے میں خود بھی مشغول تھیں اور ساتھ موجود ماڈلز کو بھی متحرک کر رہی تھی ۔ اچھے خاصے خاندان سے تعلق تھا ۔ پروفیشنل ڈگری ہولڈر ہو کے اس مصنوعی چکا چوند میں ڈوبی ہوئی تھیں ۔ اسی نے ان کا گھر تک توڑ دیا لیکن یہ باز نہیں آئیں ۔ جب محترمہ کو طلاق ہوئی تو ہماری ایک جاننے والی بزرگ خاتون بولیں ہاۓ مجھے تو اس کی طلاق کا اتنا غم ہوا جتنا اس کو خود بھی نہیں ہوا ہوگا ۔ کاش وہ خاتون کچھ ہمدردی اپنی اس بہو سے بھی کر لیتیں جو ان کے ساتھ رہتی ہے جس پہ نکتہ چینی ، جس کی غیبت ، جس کا جینا حرام کر نا وہ اپنا فرض سمجھتی ہیں ۔
جس چینل کا مارننگ شو دیکھیں ۔ ہر ایک پہ یہی حال ہے ۔ ہر جگہ ماڈلز لاکھوں روپے مالیت کے برانڈڈ پارٹی اور برائیڈل ویر پہنے ، میک اپ سے لتھڑے چہرے ،ہندوؤں کی طرح پگڑیاں سروں پہ سجا ۓ مرد حضرات ۔ کیٹ واک کرتے ہوۓ ۔پھر رقص ، مذاق ہاہا ہوُہوُ۔ یہ کو ن سی ثقافت کا مظاہرہ ہو رہا ہے ؟
ان مارننگ شوز میں میزبانی کا فرض انجام دینے والے دین و دنیا ، علم وادب ہر چیز سے بے بہرہ ہیں ۔ ناچنا گانا ، حسن کو نکھارنا ، مو ٹاپا دور کرنا اور اس قسم کے بے شمار غیر ضروری مسائل ان کے اہم ٹاپک ہیں ۔ وہ ملک جہاں غریب ایک وقت کی روٹی کے لئے ترستا ہے ۔ وہاں یہ ایک ایسی خیالی جنت سجاۓ بیٹھے ہیں جہاں خوب صورت خواتین میک اپ کے ہتھیاروں سے لیس ناچتی تھرکتی ادائیں دکھاتی نظر آتی ہیں ۔ ان شوز کو دیکھ کر لڑ کیاں ماں باپ سے ایسے لاکھوں روپے کے کپڑوں اور ہزاروں کے میک اپ کی فر مائش کرتی ہیں ۔ گویا زندگی کا مقصد صرف تن کو سجانا رہ گیا ہے ۔
پھر کوکنگ کے پروگرامز کہاں پیچھے رہے ۔ رنگ برنگے کھانے پکاتے شیف کوکنگ تو سکھاتے ہیں جو اچھی بات ہے لیکن یہاں بھی حد سے تجاوز ہے ۔ بچے سادہ غذا کھانے پہ آمادہ نہیں ۔ جو وہ دیکھتے ہیں وہی مانگتے ہیں ۔ سفید پوش لوگوں کے لئے یہ فر مائشیں پوری کرنا ممکن نہیں ۔ لیکن ان چینلز کو تو ریٹنگ چاہئے انہیں معاشرے کی اصلاح سے کیا لینا دینا ۔
پاکستان میں مارننگ شو کا آغاز نوے کی دہائی میں ہوا ۔مستنصر حسین تارڑ کی عمدہ گفتگو ۔ جس کو سن کے ہم اسکول جایا کرتے تھے ۔ ادبی علمی شخصیت کی گفتگو بہت اعلی تربیت کا کام کرتی تھی اور ہمیں بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ۔
لیکن زمانہ بدلا پرائیویٹ چینلز نے معیار گرا دیا ۔ ڈراموں کے نام پہ فحاشی ، شرعی مسائل اور خانگی جھگڑے مو ضوع بن گئے ۔ ڈائجسٹ کی کہانیاں اسکرین پہ گردش کر نے لگی لیکن ڈرامہ بنانے والے پروڈیوسر ، ڈائریکٹر یہ بھول گئے کہ لکھے الفاظ پڑ ھنا ایک الگ بات ہے اور اسے سارے گھر کے ساتھ بیٹھ کے دیکھنا الگ چیز۔ بس پیسہ آج اخلاقی قدروں سے بڑ ھ کر ہر چیز بن گیا ہے ۔ اور یہی ہمارے معاشرے کے اخلاقی انحطاط کا باعث ہے ۔
اللہ تعالی ہم سب کو نیکی کی ہدایت دے ۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn