کہکشاں میری خاک سے روشن
میری مٹی سے جگمگایا چاند
یہ کائنات ،یہ کہکشائیں ۔ یہ چاند ،یہ سورج اور ستارے انسان کے لئے بنائے گئے ۔سات آسمانوں میں سے آسمان ۔ دنیا پر صرف ستارے بنائے گئے جو کہ اللہ تعالی نے ہماری آنکھوں کی حسن آفر ینی کے لئے بنائے اور راستے معلوم کر نے کے ہمیں عطا کئے ہیں ۔
انسان کی بساط زندگی کی بساط پر صرف ایک مہرے کی ہے ۔ جب حکم الہی آجاتا ہے تو یہ بساط لپیٹ دی جاتی ہے اس دنیا کی مثال اس با غ کی سی ہےجس کے اندر جا نے کا صرف ایک راستہ ہو اور دوسرا راستہ باہر نکلنے کا ۔ ایک دفعہ اندر داخلے کے بعد واپسی ناممکن ہے ۔ باغ کے مالک نے ہر ایک کے ہاتھ میں ایک ایک باسکٹ دی ہے جس کو پھلوں سے بھر نے کا اختیار بھی دیا ۔ باغ رنگ برنگے پکے ہوۓ لذیذ پھلوں سے بھرا ہوا ہے ۔ اندر جانے والے مسافر کی نظر ہر پھل پر پڑ تی ہے تو سوچتا ہے اس سے بہتر توڑوں گا اس کشمکش میں آگے بڑ ھتا رہتا ہے کہ باغ ختم ہو جاتا ہے اور اس کا وقت پورا ہو جاتا ہے ۔ وہ خالی ہاتھ رہ جاتا ہے ۔
یہ ہی حال ہم انسانوں کا ہے ۔ ہم مقررہ مدت کے مالک تو ہیں لیکن اپنی سرشت کے مطابق وقت ضائع کر کے چلے جاتے ہیں ۔ اور خالی باسکٹ ہاتھ میں لئے اس دنیا سے چلے جاتے ہیں ۔ ہر انسان کی فطرت میں برائی کا عنصر اس شدت سے پا یا جاتا ہے کہ وہ حیوانی جبلت سے لڑ تا تو ہے اور اس پر قابو پانے کے کوشش بھی کر تا ہے لیکن اکثر ناکام ہو جاتا ہے ۔یہ جنگ انسان کے جذبات اس کے حالات اس کی خواہشات کے درمیان جاری رہتی ہے اس کے دو ” سرے ” ہیں ۔ایک سرے پر بھوک اور دوسرے سرے پر جنس ہیں ۔ مسلہ صرف انسان کے پیٹ کی بھوک کانہیں ہے بلکہ جنس کا بھی ہے یہ کشمکش انسان کی حیوانی سطح پر مراجعت کا باعث بنتی ہے ۔یوں انسان انسانی سطح سے حیوانی سطح پر مرا جعت کر تا ہے ۔ یہ ہی انسان کا اصل امتحان ہے کہ وہ خود کو انسانی سطح پر قائم رکھے اور یہ ہی اس کی کامیابی ہے جس کے لیے اس کو دنیا میں مبعوث کیا گیا ۔
سبت کے دن کا واقعہ ان انسانو ں کی روداد ہے جو کہ اپنی فطری جبلت پر قابو نہ پا سکے اور ہفتہ کے دن مچھلیاں پکڑتے تھے ۔ وہ مچھلیاں پکڑ نے کے لئے نئے نئے طریقے ڈھونڈتے ۔ ایک فرد نے جس کا نام الیاسف تھا جو کہ اس قبیلے کا عقلمند ترین انسان تھا اس نے دریا سے ایک نالی بنائی ۔ ہفتے کے دن مچھلیاں بڑی تعداد میں آتیں اور نالی بھر جاتی تو وہ نالی کے دریا سے جوڑ والی جگہ پر ناکہ لگاد یتا اور ساری مچھلیاں پکڑ لیتا ۔ اس نے خدا سے مکر کیا ۔ خدا نے اس سے مکر کیا اور "بے شک اللہ سب سے بہتریں مکر کر نے والا ہے ۔”اس قریے کے تمام انسان ایک ایک کر کے بندر بن گئے ۔الیاسف نے تہیہ کیا تھا کہ وہ بندر نہیں بنے گا آخر تک آدمی کی جون میں رہے گا ۔ انسان پیدا ہوا ہے انسان مرے گا لیکن اسے اپنی خواہشات جن میں جنس ،بھوک ،لالچ ،خوف ، ہم جنسوں سے لاتعلقی ، وغیرہ شامل ہیں پر قابو نہیں رہا ایک ایک کر کے وہ سب کا شکار ہوا اور آخر کار بندر بن گیا ۔ یہی انسان کے لئے اصل کشمکش ہے کہ سارے زندگی خیر وشر کے درمیان معلق رہتا ہے لیکن ان برائیوں سے بچنا اور خود کو دین ۔بر حق کے تابع رکھنا اس کا کمال ہے ۔اصل کامیابی ہے ۔
مذہب ۔اسلام انسان کی دنیاوی زندگی کو اخُروی زندگی پر تر جیح دینے کا خواستگار ہے ۔
اور یہ ہی ہمارا مقصود ۔زندگی بھی ہے ۔کہ ہم اپنے دن کو نیکیوں سے بھر کر اخروی سفر کے لئیے زادِراہ ہمراہ لے جائیں وہ سفر جو ہمیں تنہا طے کر نا ہے ۔ وہ سفر جو بہت کھٹن ہے ۔قبر کی اندھیری کالی رات سے میدان ۔محشر تک ۔
اللہ ہمیں تو فیق دے ۔امین
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn