وطن عزیز میں خود کش دھماکوں کے بعد دل کش دھماکوں کے انتظار میں آج بھی قوم انتظار میں گم ہے بلکہ گم سم اور قدرے مایوس بھی نظر آتی ہے،مُلک کے اشرافیہ کو چھوڑیئے،حکمرانوں کو بھی بخشیئے،آیئے بات کرتے ہیں ادب و ثقافت کے اشرافیہ کی،وہ اشرافیہ جس نے ملک بننے سے لیکر آج تک جو بھی کیا ،خوب کیا ! ادب و ثقافت کی سرپرستی سے لیکر ایوارڈ کی بندر بانٹ تک ، ایک ایک دہائی میں بیسوں دُہائیاں سننے اور دیکھنے کو ملیں،ادب و ثقافت کے مرکزی اداروں کے سنگھاسنوں پر بڑے ظالم اور جلاد ٹائپ لوگ براجمان کر دیئے گئے بلکہ مناسب ہوگا یہ کہنے میں کہ قوم پر تھوپ دئے گئے،اُن ادبی اشرافیہ اور قزاقوں نے اپنی اپنی لابیاں،اپنے قبیلے اور اپنی مسجدیں بناڈالیں اور اپنے ادبی و فکری مسالک کو پروان چڑھانے میں غیر مسلک اور غیر ادبی لوگوں کی قربانیاں دینے میں لگ گئے بلکہ آج بھی ہر بقر عیدکے موقعہ پر سالانہ ادبی میلہ،کانفرنس اور کتاب میلے میں اپنی خود نمائی کی دیوی کے چرنوں میں اُنہیں برابر قربان کیے جاتے ہیں،اِن ادبی اشرافیہ کو حکمران اشرافیہ نے ملک میں ادب و ثقافت کی ترویج و ترقی کی ذمہ داری کیا سونپی ،راتوں رات انہوں نے خود اپنی کایا پلٹ ڈالی،جو کل تک خیالوں کے گھوڑے دوڑاتے پھرتے تھے آج وہ خود نمائی کے بگولوں پرسوار ہیں اور ادبی و فکری مخاصمت کے میدانوں میں اپنے قلم سے جینوئن قلم کاروں کا سر قلم کئے جاتے ہیں داد و تحسین کے ڈونگرے اور دَھن بھی اُنہی پر برستا ہے اوردرباری مورخ بھی اُن کے گُن گاتے نظر آتے ہیں،اطلسی پوشاکیں اور شاہی دسترخوان بھی اُن کے لیے سج جاتا ہے،شاہی خلعت اور انعام و اکرام سے لدھے پھندے اُن ادبی اشرافیہ کو مُلک کے اصلی اور سچے لیکن ٖغریب فنکار ہنر مند اور قلم کاربھلا کیسے نظر آسکتے ہیں ؟
جینوئن لکھنے والے قد آور اُدباء و شعراء جو دربار سے منسلک نہیں وہ کنارہ کشی اختیار کیے ہوئے ہیں،جوتھوڑے ڈھیٹ قسم کے تھے وہ آئے روز ایوان صدر اور ایسی ہی جگہوں پر قدرے راندہ درگاۂ ہونے پر توبہ تائب ہوچکے ہیں،میرا دعویٰ ہے اس ملک میں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں بہترین لکھنے والے شعراء اور ہنر مند و فنکار موجود ہیں لیکن ان کی شناخت کو بھوک اور غربت کے دیو ہیکل عفریتوں،میڈیا کے فرعونوں اور شعر و ادب کی ترویج و ترقی کے مرکزی اداروں کی رعونت نے گھر بیٹھنے پر مجبور کر دیا ہے،فن اور تحریر سے وابستہ میرے وہ لوگ ان ادبی اشرافیہ کے لگائے تھر،تھل اور چولستان میں بھوک،پیاس کے ہاتھوں مرنے والے جنگلی موروں کے سے حال میں جینے پر مجبور ہیں اوراسکے باوجو د اپنی تخلیقات کی خوشبو اور پاکیزگی کو اُن ادبی اشرافیہ اور ادبی قزاقوں کے شر سے بچانے میں کسی حد تک کامیاب رہے ہیں،ورنہ دیکھ لیں،منٹو،مجید امجد،ساغر صدیقی سے لیکر جالب اور جالب سے لیکر فرزانہ ناز تک سب ادبی اشرافیہ کی محلاتی سازشوں، ذاتی پسند و نا پسند،عناد،ادبی رعیت بننے پر بغاوت اور کسی جوہڑ کو سمندر کہنے سے انکاری پر انکی تخلیقات اور انکے ادبی وجود کو تسلیم کرنے سے نہ صرف انکار کر دیا گیا بلکہ شاہی قصرِ ادب میں داخلہ بھی ممنوع کر دیا گیا،اربوں روپے کے ادب ترویج و ترقی کے منصوبے مکمل ہو چکے ہیں،لیکن انکے ثمرات اور اثرات چند بڑے شہروں تک ہی محدود رہے ہیں،مضافاتی شعراء و اُدباء آج بھی قومی ادبی میلہ اور قومی کتاب و ادب کانفرنس میں شرکت سے محروم ہیں اگر کوئی آج بھی اپنے زورِ بازو پر یا گرتے پڑتے وہاں تک پہنچ بھی جائے تو ادبی فرعونوں کے حواری اسٹیج سے ہی اسے دھتکار کے نیچے گرانے میں دیر نہیں کرتے۔جس ملک میں رشوت سفارش اور کرپشن عروج پر ہوں وہاں بھلا کون ادب کے اس پانامہ کو دیکھے گا، میں سمجھتا ہوں کہ اس ملک میں لکھنے والوں میں سب سے مظلوم اور نظرانداز طبقہ میں وہ صحافی ،اخباری کارکن، ڈیسک پر کام کرنے والے لوگ، رپورٹرز،کالم نگار اور مدیر حضرات وغیرہ ہیں جو سال ہا سال سے اچھے مستقبل کے انتظار میں اپنی زندگی کے قیمتی لمحات آس و یاس میں گزارنے پر مجبور ہیں،محض پریس اوررائٹر کا لیبل سجا لینے سے نہ کسی کا پیٹ بھرتا ہے نہ وہ معاشرے میں باعزت سروائیو کر سکتا ہے،اب اس مقابلے کی فضا میں ماس میڈیا کے لوگوں کے لیے حکومت کوئی میکنزم سامنے لائے،انکی معاشی ترقی اور سماجی و ادبی حیثیت کونہ صرف تسلیم کرے بلکہ قومی ادبی اداروں میں انکی خدمات کو قابل قدراور قومی خدمات کے مترادف قرار دے،باقی ادبی و فکری مخاصمت اپنے عروج پر ہے،پلڑا اسکا بھاری ہے جو اقتدار کی بخشش کے طفیل ادبی اشرافیہ کے قبیلے اور اسکے فکری مسلک سے منسلک ہیں،لمحہِ فکر یہ ہے کہ عالمی ادب میں ابھی ہم کوسوں دور دور ہیں،ہمارا کوئی فکری فلسفہ،کتاب یا کوئی لائن عالم کو متوجہ نہ کر سکی،دنیا کی سو بہترین کتب کی فہرست بنتی اور تبدیل ہوتی رہی ہے،پھر ہزار کُتب کی رینکنگ ترتیب پاتی ہے،ہمارا نام و نشان نہیں ،ممکن ہے کسی لاکھ بہترین کُتب میں ہم کسی کونے کُھدرے میں سانس لے رہے ہوں تو یہ کوئی اعزاز یا فخر نہیں،ملالہ کو آدھا نوبل پرائز ملے یا پورا ، یہ ہماری تسلی و تشفی نہیں، جو ہمارے جینوئن ادیب اور مزاحمتی شاعری کے افراد ہیں وہ کیوں اُن ادبی عالمی اداروں کو نظر نہیں آتے، وجہ اسکی محض یہی ہے کہ ہمارے ادبی اشرافیہ کی ترجیحات ،پرموشن اور مارکیٹنگ کا کرایٹیریا عام اور خاص ادیب و شاعر دونوں کے لیے الگ الگ ہے،ایک جینوئن ادیب ایک بیوروکریٹ ادیب سے بہتر ہوتا ہے لیکن مارکیٹنگ اور پرموشن بیوروکریٹ ادیب کو نصیب ہوتی ہے،ادبی اشرافیہ کے میلے ٹھیلوں میں اسکی پزیرائی اور ستائش ہوگی،کیوں؟ کیوں کہ وہ ادیب کے ساتھ ساتھ بیوروکریٹ بھی تو ہے نا ! چلیں عالمی اداروں کے اعزازات کو چھوڑیں وہ ہم بغلوں سے اخروٹ توڑ کر بنا ہی لیں گے،ہمارے ملکی ادبی ادارے بھی ہمارے دیسی لکھاریوں کو زیادہ منہ نہیں لگاتے،اس ملک میں تقریبا ہر شاعر ادیب اور صحافی کی طبع زاد دو دو یا تین چار کتابیں شائع ہو چکی ہیں ،لیکن پوچھ لیں ان سے کہ کبھی کسی نے بھول کر بھی انہیں ادبی کانفرنسوں،ادبی فیسٹیول یا اسلام آباد کراچی لاہور بلایا ہے؟ ہمارے ادبی اشرافیہ تو شاید ان مقامی اُدباء اور شعراء کے نام سے بھی واقف نہیں، ہماری ادبی اشرافیہ کی اس نااہلی اور اقرباء پروری کے فروغ سے ہزاروں لکھنے والے لکھنا چھوڑ چکے ہیں،قلم توڑ چکے ہیں، لیکن ہماری ادبی اشرافیہ اقرباء پروری اور خود نمائی کے بگولوں پر سوار زمینی حقائق سے دور ۔ ۔ بہت دور محو پرواز ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn