جیسا کہ ہر گھر کے آنگن کی ایک انوکھی کہانی ہوتی ہے، بلکل ویسا ہی میں بھی بچپن میں ایک انوکھے مزاج کا مالک تھا زیادہ تر بچپن نانی کی ہاں گزرا ہے اور وہ کہتے ہیں نہ، کہ اگر بچے کو بگاڑنا ہو، تو اُسے اسکی ننھیال بھیج دیں۔ میری زندگی بھی اُس بچے جیسی گزری تھی، جو ایک پتنگ کے پیچھے لاپرواہ ہوکے دوڑتا ہے اور رکنے میں نہیں آتا، جب تک اسے پکڑ نہ لے، اور آج تک ویسے ہی زندگی اسی دوڑ کیساتھ آگے بڑھ رہی ہے. لیکن کچھ چیزیں جو ابھی تک ذہن میں کسی قیمتی متاع کی طرح محفوظ ہیں، ان میں سے اک یاد ہمارے معاشرتی علوم کے ماسٹر جی کے متعلق ہے
پرائمری سکول پاس کرنے کی خوشییوں میں ایک خوشی یہ بھی تھی ، کہ اب ششم کلاس میں انگریزی اور معاشرتی علوم کے مضامین بھی پڑھنے ہونگے۔ اپنے ملک کے بارے میں جاننے کی ایک لازوال جستجو، جو ابھی بھی مجھے ماضی کے دریچوں میں لے جاتی ہے، ہوا کرتی تھی۔ مجھے کیا پتہ تھا کہ ہمارے معاشرتی علوم کے ماسٹر جی بھی اس بندے جیسےہوں گے، جس کے بارے میں کہا جا تا ہے، کہ "گھاٹ پہ آئے، نہا لئے اور چل دئیے”۔ ہمارے ماسٹر جی دیکھنے میں بلکل لیاقت علی اور کردرا اور اخلاق میں عامر لیاقت جیسا تھے. بہت ہی شاطر، حاضر جواب لیکن غربت کا مارا ہوا انسان تھا، اللہ تعالی مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے۔ اُن کی پڑھائی ہوئے معاشرتی علوم کے زیادہ تر ابواب ابھی تک یاد ہیں، جو صرف بچپن کی کہانیوں سے کم نہیں ہوا کرتے تھے جیسا کہ "دو قومی نظریہ” کی بنیاد پہ پاکستان بنا تھا۔ اس وقت مجھے نہیں معلوم تھا کہ پاکستان میں مسلمانوں کی آبادی بھارت کے مسلمانوں، سے کافی کم ہے اور نہ استاد محترم نے بتا یا تھا۔ تو پھر دو قومی نظریہ کا درس کیوں؟ سقوط ڈھاکہ کے بعد جو بنگالیوں کے ساتھ ہوا ہے، اسکے بعد بھی دو قومی نظریہ ایسا پڑھا رہے تھے، جیسے بنگالی سارے کہ سارے غیر مسلم تھے۔ اور اس سے زیادہ کیا اور بد بختی ہوسکتی ہے، کہ مملکت خداد پاکستان کے زیادہ تر رسومات ہندوازم سے ماخوذ ہیں۔ پھر بھی دو قومی نظریہ؟ چلے ان سب کو چھوڑ دیں ہمارا ملک جو دو قومی نظریہ کی بنیاد پہ الگ ہوگیا تھا، ابھی تک ہمارے ٹی وی چینلز پہ انہیں ہندوؤں کے ڈرامہ چلتے اور پسند کئے جاتے ہیں۔ کاش میرےاستاد محترم زندہ ہوتے، تو میں ضرور پوچھتا، کہ سر وہ علامہ اقبال کا جو خواب تھا، اس میں بھارت اور بنگلہ دیش کے مسلمان شامل نہیں تھے کیا؟ کاش میں ان سے یہ بھی پوچھتا کہ قائد اعظم جس نے پاکستان بنایا تھا، اس میں ان کی سیاسی خدمات پہ کوئی تحقیق کیوں نہیں ہونے دی جاتی؟ کاش ماسٹر جی زندہ ہوتے تو میں یہ بھی پوچھ لیتا، کہ یہ کافر کافر کا کیا مطلب؟، اس کے بارے میں تو آپ نے نہیں پڑھایا تھا۔ میں ضرور پوچھ لیتا کو استاذ محترم آپ نے تو ہمیں یہ پڑھایا تھا، کہ یہ ایک آزاد مملکت ہوگی, کہاں گئی وہ آزادی جو آپ نے پڑھائ تھی. سر مجے جواب دیں کہ آپ نے کہا تھا کو ١١ اگست کو بابائے قوم نے فرمایا تھا کہ پاکستان ایک سیکولر ریاست بنے گی اور پھر آپ نے دو قومی نظریہ بھی پڑھایا تھا، سر جی یہ تضاد نہیں ہے، تو اس کو میں کیا سمجھوں پھر؟ استاد محترم سے یہ بھی پوچھتا کو آپ نے ایک دن فرمایا تھا کو جمہوریت میں ہر شہری کو آزادی رائے کا حق حاصل ہوتا ہے، لیکن یہاں تو جیل مقدر بنتی ہے اگر کسی نے آزادی رائے کے حق کق استعمال کرتے ہوئے مزہب سے متعلق قانون پر بات کی تو وہ واجب القتل ٹہرا مطعون و ملعون قرار دیا گیا. ہمارے معاشرتی علوم کے استاد نے ہمیں یہ بھی پڑھایا تھا، کہ پاکستان امن کا گہوارہ ہوگا، لیکن یہاں تو نماز میں ہاتھ باندھنے والا نماز میں ہاتھ نہ باندھنے کو قتل کرنے پہ ُتلا ہوا ہے. کاش میں میں اپنے معاشرتی علوم کے ماسٹر جی سے یہ بھی پوچھ سکتا کہ آپ نے تو کہا تھا کو پاکستانیوں کی باہر ملکوں میں بڑی عزت ہوتی ہے، لیکن امیگریشن والے بہت تنگ کرتے ہیں. جب معلوم ہوتا ہے پاکستانی ہے تو کپڑے تک اتروا لیے جاتے ہیں کاش آپ زندہ ہوتے تو میں کہتا کہ مجھے وہی پاکستان لا کے دیں جو ہمیں نعاشرتی علوم اور مطالعہ پاکستان کی کتابوں میں پڑھاتے تھے یا تو آپ جھوٹ بولتے تھے یا پھر نصاب جھوٹا ہے ہماری نسلوں کو ماضی کے جھوٹے سچے ہیروز کے مزاروں کے مجاور بنانے کی بجائے ماضی کی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے دوبارہ وہی غلطیوں سے بچ کر پاکستان کی ترقی کیلیے تیار کرنا چاہییے
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn