سال 2005 میں پاکستان کی تاریخ کا بدترین زلزلہ آیا تھا، سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جاں بحق ہونے والوں کی تعداد ایک لاکھ کے قریب تھی جبکہ حقیقت میں شاید یہ اِس سے بھی زیادہ تھی۔ پورا ملک اِس المیہ پر نہ صرف ماتم کناں تھا بلکہ متاثرین کی امداد میں بھی متحد نظر آیا تھا۔ سال ۲۰۱۰ میں پاکستان کی تاریخ کا بدترین سیلاب آیا جس نے تقریبا ہر صوبے کو اپنی لپیٹ میں لیا۔ دیہات اور بستیاں صفحہ ہستی سے مٹ گئیں، فصلیں تباہ اور گھر ملیا میٹ ہوگئے۔ تباہی ایسی کہ الفاظ میں ممکن نہیں۔ اِس سیلاب میں2000 کے قریب افراد جاں بحق ہوئے۔ اِس تباہ کن انسانی المیے پر وہ اتحاد اور مدد کا جذبہ نظر نہ آیا جو2005 کے زلزلے میں دیکھنے کو ملا تھا۔ یہاں تک کہ لوگ یہ نتیجہ نکالتے پائے گئے کہ چونکہ اِس المیے میں اموات کی شرح کم تھی لہذا زلزلے کی نسبت کہیں زیادہ تباہ کن ہونے کے باوجود، یہ ہمیں پینسٹھ کی جنگ اور زلزلے کی طرح متحد نہ کر پایا۔ شکار پور میں نمازِ عید کے دوران دو خود کش بمباروں نے حملہ کیا جو کہ خوش قسمتی سے ناکام بنا دیا گیا، ایک بمبار ہلاک ہوگیا اور ایک زخمی حالت میں پکڑا گیا۔ دو خود کش بمباروں کے ذریعے حملے کا منصوبہ دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ حملے کے ماسٹر مائینڈ نے کس درجہ جانی نقصان کی منصوبہ بندی کی تھی۔ خام بدہن اگر یہ حملہ کامیاب ہوجاتا تو جانی نقصان کا تصور کرکے ہی دل دہل جاتا ہے۔ یہ وہی شکار پور ہے جہاں 2015 جنوری میں نماز جمعہ کے دوران خود کش حملے میں 60 شیعہ مسلمان شہید اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔ ہمارے ہاں پائی جانے والی اُس کمرشل لبرلز اور الباکستانیوں کی اُس اکثریت کو تو ایک طرف رکھ دیں جنہیں شیعوں پر ہونے والے ہر حملے میں ایران سعودی پراکسی، غیر حقیقی موازنے یا ڈرون کے ردعمل نظر آتے ہیں، البتہ حملوں کی بلا مشروط مذمت کرنے والے بھی ویسے ہی خاموش نظر آئے جیسے2010 کے سیلاب میں، جس میں اموات کی شرح کم تھی۔ تو کیا ہم صرف اُس المیہ پر دکھی ہوتے ہیں جس میں زیادہ انسان مرے ہوں؟ کیا ہم موت پرست ہیں؟ ہمیں کوشش کرکے اموات کے علاوہ بھی اپنے جذبات کو بیدار کرنا ہوگا تاکہ2005 کے تباہ کن زلزلے کی طرح2010 کے سیلاب کے نقصانات اور تباہی پر بھی برابر غمزدہ ہوں۔ تاکہ ملک کے طول و عرض میں ہونے والی دہشتگردی کی وجوہات اور اُس کے ماخذ پر اس سے قطع نظر غور سکیں کہ دہشتگرد حملے میں کامیاب ہوا ہے یا ناکام۔ یاد رکھیئے کہ دہشتگرد ناکام ہوا ہے، اُس کا نظریہ نہیں۔ اگر شکار پور میں زندہ پکڑا جانے والا خود کش بمبار بھی دوسرے بمبار کی طرح ہلاک ہوگیا ہوتا تو اب تک ہم شاید وہی مفروضے دہرا رہے ہوتے کہ حملے میں بیرونی ہاتھ ملوث ہے، حملہ کرنے والے مسلمان تو کیا انسان بھی نہیں ہیں اور آخری دہشتگرد کے خاتمے تک تعاقب جاری رہے گا وغیرہ وغیرہ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ حملے کی ذمہ داری حسبِ معمول تحریک طالبان، جند اللہ، جماعت الاحرار یا لشکر جھنگوی قبول کرتی اور پھر حملہ آوروں کی تصویریں بھی جاری کرتی لیکن ہماری اکثریت اِس ذمہ داری کو نظر انداز کرکے بیرونی سازش کے نعرے لگاتے ہوئے اندرونی مسئلے پر غور کرنے سے انکار کر دیتی۔ لیکن چونکہ حملہ آور زندہ پکڑا گیا تو اِس بارمعاملہ تھوڑا مختلف ہے۔ حملہ آور سے لیکر اُسے کوئٹہ سے شکار پور بھیجنے والے تک، سب اندرونی ہیں، بیرونی کچھ نہیں۔ عثمان نامی حملہ آور سوات کا رہنے والا تھا اور اُس نے کراچی کے مدرسہ ابو ہریرہ سے تعلیم حاصل کی تھی۔ مدرسہ کن مخصوص نظریات کا حامل ہوگا، یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں۔ خود کش بمبار کی حیثیت چلتے پھرتے بم جیسی ہوتی ہے، یہ درخت کے پتے کی طرح اُگتے اور جھڑ جاتے ہیں اور پھر نئے پتے پھوٹ پڑتے ہیں۔ اصل محرک درخت کی جڑ اور جڑ کو ملنے والا پانی ہے۔ دہشتگردی ختم کرنی ہے تو اس جڑ اور اسکی سپلائی لائین کو کاٹنا ہوگا۔ غور کرنا ہوگا کہ بلوچستان میں رمضان مینگل اور ولی الرحمٰن فاروقی آزاد کیوں ہیں؟ اندرون سندھ میں اسی کالعدم تنظیم سپاہ صحابہ کو سرگرمیاں جاری رکھنے کی چھوٹ کیوں ملی ہوئی ہے؟ اور سب سے اہم یہ کہ مدرسہ ابو ہریرہ جیسے مدارس میں آخر پڑھایا کیا جاتا ہے جس کا نتیجہ ایک دن عثمان کی صورت نکلتا ہے؟ اِن باتوں پر غور کرینگے تب ہی سمجھ سکیں گے کہ خود کش بمباروں کو بلوچستان سے کس نے روانہ کیا، شکار پور میں ہوٹل میں کس نے ٹھہرایا، پیسے کس نے دیئے، نشے کا انجشن کس نے لگایا اور پھٹنے کیلئے موٹر سائکل پر بٹھا کر مسجد تک کون لایا۔ سہولت کار کسی ایک شخص کا نام نہیں، ایک مربوط نیٹ ورک کا نام ہے جو ابو ہریرہ مدرسے جیسے مدارس سے لیکر اُن تکفیری تنظیموں تک پھیلا ہوا ہے جو کبھی سپاہ صحابہ، کبھی جماعت الاحرار، کبھی طالبان اور کبھی جند اللہ کی صورت کاروائی کرتی ہیں۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn