Qalamkar Website Header Image

پتا نہیں ہے کیا میں اسسٹنٹ کمشنر ہوں ! اُستاد کون؟ | محمد مزمل صدیقی

کوئی اگر آپ سے پوچھے ،حضور اُستاد کون ہوتا ہے، آپ فوراََ کہیں گے۔اُستاد،اُستاد وہ ہوتا ہے ۔ جو کسی کو ایک لفظ بھی سکھا دےاور اگر آپ سےکوئی یہ پوچھے کہ بھئی کمشنر کون ہوتا ہے تو آپ ناگوار سا منہ لےکر کہیں گے۔ کمشنر ؟ کمشنر تو شہر کا بڑا سخت گیر افسر ہوتا ہے۔اپنی افسری کے نشے میں دھت ہر کس و ناکس کو روندتا چلا جاتا ہے۔ کمشنرتو جی بڑا آدمی ہوتا ہے صاحب ۔
دوستو ان سطور کے لکھنے کا مقصد گذشتہ دنوں کوٹ مومن میں آنے والا واقعہ ہے ۔جس نے اہلِ علم و اہلِ دانش اور اہلِ فکر کے سر شرم سے جُھکا دئیے۔
میں مزید کچھ لکھنے سے پہلے اُستاد کی اہمیت پر بات کروں گا ۔دوستو! جھوٹ معاشرتی پیش خیمہ ہے جو بہت سے گناہوں کا ناسور ہے ۔اُستاد قوم کا معمار ہے ۔اُس کا خیر خواہ ہے ۔گرمی ہو یا سردی وہ اپنے فرائض انتہائی ذمہ داری سے نبھاتا ہے۔وہ قوم کا مصلح ہے ۔طلباء کو کامیابی کے گُر سکھاتا ہے ۔ آگے بڑھانے کے لئے پیچھے سے تھپکی دیتا ہے ۔اُستاد کے لئے اس کا طالب علم اولادِمعنوی کی حیثیت رکھتا ہے ۔بچہ 6 سے 8 گھنٹے استاد کے پاس گزارتا ہے ۔تعلیم و تربیت کے مختلف مراحل سے گزرتا ہے ۔اُستاد انسانیت کا درس دیتا ہے۔ محبت، اخوت، رواداری، ہمدردی، ایثار، قربانی، اتفاق، اتحاد، شرافت، امانت، دیانت، صداقت اور عدالت کا سبق دے کرافراد کو اقوام کی امامت سکھاتا ہے وہ قوم کا معمار ہے۔ الغرض اُستاد اس معاشرے کی روح ہے ۔ایسی روح جس کے بغیر یہ معاشرہ ایک ریوڑ ہے ایک ایسا ریوڑجسے ہانکنے والا کوئی نہ ہو۔
ہمارے زوال کی بڑی وجہ ایک یہ ہے کہ ہم نے تعلیمی معیار میں کم بجٹ مختص کیا ہے ۔ کبھی سکول ختم کر رہے ہیں ۔کبھی اساتذہ کو پرائیویٹ ادارے میں بھیجا جا رہا ہے ۔کبھی کسی اُستاد کو تنخواہ نہیں مل رہی ۔لیکن پھر بھی اُستاد اپنی ذمہ داری سے پہلو تہی کی بجائے بھر پور قومی خدمت اور طالبعلموں کو آگے بڑھانے کے جذبے کے تحت، غربت و بے بسی میں اپنے فرائض ذمہ داری سے سر انجام دے رہا ہے ۔اُستاد کے گھر کھانا نہ پکے ۔اُسے تنخواہ نہ ملے ۔وہ یہ درد سینے میں چھپا کر دل مسوس کر رہ جاتا ہے ۔لیکن اگر معاشرہ اُسےپرائمری ،مڈل ،میٹرک اور ایف۔اے ۔لیول کا اُستادسمجھ کر دھتکار دے ۔ قدر کی نگاہ سے نہ دیکھے ۔تو یہ مقام اُس کے لئے سوحانِ روح ہوتا ہے ۔ایک یہی تو زعم ہوتا ہے ۔جو ان کے لئے آکسیجن کا کام کرتا ہے گلی شہر گائوں کا بچہ بچہ اُستادجی استادجی کہہ کر کیسے اُستاد کا دل موہ لیتا ہے وہ ایک اُستاد ہی بتا سکتا ہے۔
ہمارے معاشرے نے اُستاد سے اُس کا اصل منصب چھین لیا ہے ۔واقعہ یہ ہے کہ گذشتہ دنوں کوٹ مومن کے ڈگری کالج میں انٹر کے امتحانی سنٹر کا دورہ کرنے اسسٹنٹ کمشنر عفت النسا گئیں ۔کالج گھومنے پھرنے کے بعد پرنسپل آفس میں داخل ہوئیں اور پرنسپل کی کرسی پہ براجمان ہوکرحاضری رجسٹر لانے کا کہا.۔کالج کے پرنسپل صاحب کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ وہ ایک طرف ٹھہر گئے جبکہ کمشنر صاحبہ اپنی افسری کے زعم میں پائوں ہلا کر منتظر با رجسٹر ہیں ۔افسری کا یہ نشہ اس کے نزدیک شاہانہ اور با وقار تھا ۔وہ بڑی لمبی گردن گھما گھما کر انجانے چہروں کو دیکھ رہی تھی ۔جس میں اُستاد تھے ۔اور کالج کے چند گھومتے گھامتے بچے تھے ۔۔پرنسپل صاحب پیری میں ایک طرف ٹھہرے ہیں ۔اپروفیسر اظہر شاہ صاحب یہ منظر دیکھ رہے ہیں وہ کُرسی کی اہمیت سے آگاہ ہیں ۔پیری کے مسائل سے آشنا ہیں ۔ایک پرنسپل کے منصب سے آگاہ ہیں ۔
کمشنر صاحبہ ایک مہمان ہیں اُنہیں کُرسی پر بیٹھنے کا حُکم بھی پرنسپل صاحب سے لینا چاہئے تھا ۔ اظہر صاحب یہ بولنے کی جسارت کر بیٹھے
‘ آپ کو جو ریکارڈ اور معلومات چاہیے دینے کو تیار ہوں لیکن یہ کرسی پرنسپل صاحب کی ہے اس پر نہ بیٹھئے۔یہ کرسی آپ کی نہیں ،دوسری کرسی پر تشریف رکھیئے ۔’
‘پتا نہیں ہے کیا میں اسسٹنٹ کمشنر ہوں عفت النساء اسسٹنٹ کمیشنر، کالج پرنسپل کی کرسی پر تشریف رکھے ہوئے ہیں۔’
دیکھئے اختیارات کا ناجائز استعمال ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اگر ایک کمشنر ہے تو وہ اپنی کرسی پر بیٹھنے کا اختیار رکھتا ہے ۔اور یہ اختیار بھی کہ وہ کسے بیٹھنے کی اجازت دے اور کسے کہے نکل جائے میرے دفتر سے ۔لیکن جہاںکمشنر اختیار رکھتا ہے ۔وہیں پرنسپل بھی ویسے ہی اختیارات رکھتا ہے ۔وقار رکھتا ہے ۔شناخت رکھتا ہے ۔وہ بھی بڑی عمر کے بعد اس عہدے پر پہنچتا ہے ۔ بہت سے پہاڑ سر کرکے اُسے یہ منصب ملتا ہے کہ وہ کسی کرسی کا اہل ہے ۔
بہر کیف کمشنر صاحبہ اس پر تلملا اُٹھیں ۔اُن کا غصہ ہوا میں کھولنے لگا ۔ یہ جانے بغیر کہ وہ اس وقت جس شخص سے مخاطب ہوئی ہیں ۔وہ اپنے پیشےکے لحاظ سے اُس کے لئے روحانی باپ کا درجہ رکھتا ہے ۔ قوم کا معمار ہے ۔ قوم کا محسن ہے۔۔اس انا پرست کے تن بدن میں آگاہی کا درد پھیل گیا کہ کوئی کمشنر کو کیا سوچ کر کہہ رہا ہے کہ آپ پرنسپل کی کرسی چھوڑ کر دوسری کُرسی پر تشریف رکھیے۔آنِ واحد میں فون ہوئے ۔پولیس آگئی۔پولیس شان میں گستاخی کرنے والے کو گرفتار کر کے لے گئی۔ 2 گھنٹے تک اس بے جرم اُستاد کو حبس بے جا میں حوالات میں رکھا گیا۔
دوستو بات یہیں ختم نہیں ہوئی۔
آج سے دوسال قبل سابق وی سی بی زیڈیو پروفیسر ڈاکٹر خواجہ علقمہ صاحب کو کروڑوں روپے کی کرپشن کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا ،تو حالتِ گرفتاری کی تصویر دیکھ کر میرے بہت سے صحافی دوستوں کا جذبہ احترامِ اُستاد جاگ اُٹھا کہ ہائیں کہ ایک اُستاد کو ہتھکڑی لگا دی گئی ۔دوست صحافیوں کی آنکھ نے یہ نہیں دیکھا کہ خواجہ صاحب کو کس حیثیت میں گرفتار کیا گیا ۔بس یہ دیکھا کہ ایک اُستاد کو گرفتار کیا جارہا ہے ۔ہتھکڑی لگا کر لے جایا جا رہا ہے ۔ایک اُستاد کا یہ ہم معاشرے میں کیا مقام دیکھ رہے ہیں۔ اُن کے قلم چلے اور میں نے ہاسا کیا کہ وہ اُستاد بعد میں ہے۔ پہلے وہ انسان ہے ۔اپنی اخلاقیات کا ذمہ دار ہے ۔وہ اخلاقیات ایک ذمہ داری ہوسکتی ہے۔ بد عنوانی ہو سکتی ہے۔اگر وہ ان سے پہلو تہی برتتا ہے ۔تو سزا کا مستحق وہ خود ٹھہرتا ہے۔
لیکن اس واویلے نے کہ ایک سابق وائس چانسلر کو گرفتار کرلیا گیا یعنی ایک اُستاد کو ۔ایک اُستاد کو گرفتار کرلیا گیا ۔حکومت کو شک کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ مگر یہ کسی نے افسوس سے نہ کہا ۔اچھا ہوا بہت کرپشن کر چکا تھا ۔
دوستو! ہمار ے میڈیا نے خواجہ صاحب کی گرفتاری کا جتنا واویلہ کیا اور جس صورت کیا وہ صورتِ اظہاراہل فکر کو بخوبی معلوم ہے ۔وہاں احتجاج بنتا نا تھا ،۔ہاں اتنی خبریں نہ بنتی تھیں جتنی بنا دی گئیں ۔وہ اُستاد کی حیثیت سے تو جہاں رہے اس وقت وہ ایک ملزم کی حیثیت سے پیش تھے ۔
ایک کمشنر ،ایک وائس چانسلر ،ایک پرنسپل ،ایک صدر،وزیر اعظم، ،وزیر ،مشیر ،کوئی بھی بڑا سے بڑا آدمی صاحب حیثیت بعد میں ہے ،انسان پہلے ہے لہذا انسانیت کا وقار مجروح کرنے پر وہ سزا کا مستحق ہونا چاہئے ۔ اور کوٹ مومن واقعےپر سماج کی زبان کی خاموش ہے ۔صرف اس لئے کہ وہ پروفیسر جنہیں گرفتار کیا گیا،ایک بڑی جامع کے سابق وی سی نہیں ؟خورد بردگی کے الزام میں گرفتار شخص نہیں ۔ایک اسسٹنٹ کمشنر کو بس اس کی اوقات یاد دلانے پر مجرم ہوگئے بس ؟ پولیس انتظامیہ نے جس بے ہودگی کا مظاہرہ کیا وہ شرمناک ہے اور ہمارے سر جھکانے کے لئے کافی ہے کہ پولیس جس سے مجرمان پکڑے نہیں جاتے ،وہ بے مجرم پکڑنے چلی آتی ہے ۔اپنے سے نچلے طبقے کے لوگوں کو زلیل کرتی ہے ۔کہنا یہ ہے کہ خواجہ صاحب بھی اُستاد تھے اور پروفیسر اظہر شاہ صاحب بھی ۔جب خواجہ صاحب کی گرفتاری پر اتنا واویلہ کیا جا سکتا ہے ،تو ایک بے مجرم استاد اظہر شاہ صاحب کو ایک نالائق اور بدمعاش کمشنر کے زیر عتاب لئے جانے پر کیوں سماج کی زبان خاموش ہے ۔کیوں میڈیا گنگ تماشائی بن گیا ہے ۔ کیا اُستاد ایک جامعہ کا بڑا ہوسکتا ہے ؟ کسی کالج ؟ کسی سکول ؟ کا اُستاد اُستاد نہیں ؟ مجھے صوفی اشفاق احمد یاد آرہے ہیں ۔اُن کی شناخت ڈراما نگار اور افسانہ نگار کی بھی ہے۔اپنی کتاب زاویہ میں ایک واقعہ درج کرتے ہیں
روم (اٹلی ) میں میرا ٹریفک چالان ہوا۔مصروفیت کی وجہ سے چالان فیس وقت پر ادا نہ کر سکا ۔ کورٹ جانا پڑا۔جج کے سامنے پیش ہوا ۔ اس نے وجہ پوچھی میں نے کہا ٹیچر ہوں۔ کچھ دن مصروف تھا۔بات ابھی پوری نہیں ہوئی تھی کہ
جج نے کہا A Teacher is in Court
اور سب لوگ کھڑ ے ہو گئے ۔یہاں تک کہ جج صاحب بھی کھڑ ے ہو گئے اور مجھ سے معافی مانگ کر چالان کینسل کر دیا۔میں اپنی غلطی پر بہت شرمسار ہوا مگر اس روز میں نے اُس قوم کی ترقی کا راز جان لیا ۔
دوستو!ترقی یافتہ ممالک میں اُستاد کا یہ احترام ہے ۔افسوس کہ پاکستان جیسا ملک جسے ساری زندگی چمکانے میں گزاردی جاتی ہے وہاں کے باسیوں کو سہولت کے ساتھ ساتھ عزت سے بھی محروم کردیا جاتا ہے ۔وہ عزت کہ زندگی بھر محنت کرنے کے بعد ایک منصب پر فائز ہونے والے اُستاد کے لئے شہر کے اسسٹنٹ کمشنر کی طرف سے ایک تو یہ الفاظ ہیں
‘ تم میرے تلوے چاٹنے والے لوگ ہو…’ اور دوسرا عمل دو گھنٹے جیل کی ہوا ہے۔

حالیہ بلاگ پوسٹس