میرا خیال ہے کہ صحافی حضرات خواہ مخواہ مائنڈ کر گئے ہیں اگر گورنر پنجاب نے انہیں ڈڈو کہہ دیا ہے تو بھلا اس میں برا ماننے کی کون سی بات ہے میں بھی پچھلے پچیس تیس برس سے باقاعدگی سے اخباروں میں کالم لکھ رہا ہوں اورکسی حد تک صحافی کہلا سکتا ہوں تو میں نے تو ہرگز مائنڈ نہیں کیا صرف ان لوگوں نے مائنڈ کیا ہے جو ڈڈوں کی تاریخی اور معاشرتی حیثیت سے آگاہ نہیں ہیں علاوہ ازیں نوٹ کیجئے کہ انہوں نے صحافیوں کو مینڈک نہیں کہا ڈڈو کہا ہے اور ان دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے مینڈک عام طور نہایت شریف النفس ہوتے ہیں کسی حد تک صوفی سے ہوتے ہیں ایک مقام پر بیٹھے آنکھیں جھپکاتے رہتے ہیں جبکہ ڈڈو ان سے حجم میں چھوٹے اور نہایت کیوٹ ہوتے ہیں اور ہمہ وقت اچھلتے رہتے ہیں۔
صحافی حضرات دراصل کم علم ہیں یہ نہیں جانتے کہ گورنر صاحب نے تو دراصل انہیں فرانسیسیوں کے برابر کا رتبہ دیا ہے آپ آگاہ ہوں گے کہ انگریز حضرات برسرعام فرانسیسیوں کو فراگ کہتے ہیں اور وہ زیادہ مائنڈ نہیں کرتے۔ یہاں تک کہ عراق پر حملے کے موقع پر جب فرانس نے امریکہ کاساتھ نہیں دیا تھا تو نہ صرف امریکیوں نے فرنچ فرائز کا نام بدل کر انہیں فریڈم فرائز کہنا شروع کر دیا تھا بلکہ انہیں مینڈک کہنے سے بھی گریز نہیں کیا تھا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ صحافیوں کی عزت افزائی ہوئی ہے انہیں فرانسیسیوں جتنا رتبہ مل گیا ہے۔
یہ صحافی حضرات سیاستدانوں کو جانے کیا کیا کچھ کہتے ہیں موقع پرست لوٹے وغیرہ کہتے ہیں ٹیلی ویژن پر انہیں پاؤں میں گھنگھرو باندھ کر اقتدار کی تھاپ پر تاتھی تاتھی کرتے دکھاتے ہیں لیکن انہوں نے تو کبھی مائنڈ نہیں کیا بلکہ اکثر شکر گزار ہوتے ہیں کہ اس بہانے مشہوری ہو رہی ہے۔ ہمارے ہاں تو بے چارے مینڈک کی کچھ قدر نہیں لیکن دنیا کے اکثر ممالک میں انہیں نہایت رغبت سے کھایا جاتا ہے فرانسیسیوں کا تو نام ہی اس لیے فراگ پڑ گیا کہ وہ مینڈکوں کے بے حد شوقین ہیں لیکن ذرا کوریا چین اور ویت نام وغیرہ جا کر دیکھئے جہاں مینڈک کڑاہی،مینڈک فرائی اور مینڈک پلاؤ وغیرہ نہایت پسندیدہ ڈشیں ہیں پاکستانی ادیبوں کے وفد کے ہمراہ چین جانے کا اتفاق ہوا تو ایک صبح ہوٹل کے ڈائننگ روم میں ناشتے کے لئے اترے تو وہاں ایک جانب مغربی ناشتے کا اہتمام تھا اور برابر میں چینی ناشتہ سجاہوا تھا میں نے سوچا کہ انڈہ ٹوسٹ وغیرہ تو کھاتے ہی رہتے ہیں کیوں نہ چینی ناشتہ نوش کیا جائے۔
اب وہاں پہنچے تو کوئی شے ایسی نہ تھی جس سے کچھ واقفیت ہو۔ ایک طشتری میں سفید رنگ کے نہایت خوش نظر قتلے سجے تھے جو نہایت ذائقہ دار لگ رہے تھے ذرا قریب ہو کر ملاحظہ کیا تو ہر قتلے کے سرے پر دو آنکھیں نظر آئیں جوشناسا سی لگتی تھیں پھر یاد آگیا کہ انہیں کہاں دیکھا ہے اپنے گاؤں کے جوہڑ کی سطح پر دیکھا تھا یعنی مینڈک تھے جی تو چاہا کہ ذرا ٹرائی کر لیے جائیں لیکن آس پاس اپنی ادیب برادری تھی جس نے پاکستان واپسی پر مشہور کر دینا تھا کہ جی یہ تارڑ تو وہاں دن رات مینڈک کھاتا رہتا تھا یہ بھی شنید ہے کہ آپ جس جانور کا گوشت کھائیں آپ میں اس کی خصلتیں پیدا ہو جاتی ہیں تو کہیں ایسا نہ ہو کہ وطن واپسی پر گھر میں اچھلتے پھریں اور بچہ لوگ کو بھی پتہ چل جائے کہ والد صاحب تو ڈڈو کھاتے ہیں ویسے اس کا امکان تو نہ تھا کیونکہ یہ مفروضہ درست نہیں کہ انسان جس جانور کا گوشت کھائے اس میں اسی جانور کی خصلتیں نمودار ہو جاتی ہیں ہم سب مرغی اور بکرے کا گوشت بکثرت استعمال کرتے ہیں تو کیا ہم ان کی طرح ککڑوں ککڑوں کرتے ہیں یاکسی حسین چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے با آ با آ کرنے لگتے ہیں جن دنوں مرحومہ کرکٹ زندہ تھی تو پاکستان کرکٹ ٹیم ویسٹ انڈیز کے دورے پر گئی ایک شام کھانے کیلئے کسی مقامی ریستوران میں گئی اور ممبران نے پوچھا کہ آپ کی سپیشلٹی کیا ہے تو انہوں نے بتایا کہ ماؤنٹین چکن ہمارے ہاں بہت پسند کیا جاتا ہے اور واقعی ماؤنٹین چکن ایسا ذائقے دار تھا کہ بار بار منگوایا گیا اور کھایا گیا اس دوران ایک سینئر کھلاڑی بھی اسی ریستوران میں آ گئے اور پوچھا کہ آپ لوگ کیا کھا رہے ہیں انہوں نے چٹخارے لیتے ہوئے ماؤنٹین چکن کا نام لیا تو سینئر کھلاڑی جو پہلے بھی ویسٹ انڈیز آ چکے تھے کہنے لگے آپ جانتے ہیں کہ یہاں بڑے سائز کے مینڈک کو ماؤنٹین چکن کہا جاتا ہے چنانچہ پوری ٹیم ابکائیاں لیتی ہوئی غسل خانے کی جانب لپکی۔ ویسے میرے جن واقف کاروں نے مینڈک کھائے ہیں ان کا کہنا ہے کہ یہ ذائقے میں بالکل چکن کی طرح ہوتے ہیں۔
وہ جو کہتے ہیں کہ مینڈکی کو زکام ہونا تو اس کے علاوہ ایک اور محاورہ ہے جس سے آپ واقف نہیں ہوں گے کہ مینڈک چلا مینڈک کی چال اپنی چال بھی بھول گیا یہ اس لیے معرض وجود میں آیا کہ دنیا بھر میں ہر مینڈک کی چال الگ الگ ہوتی ہے چال سے مراد ان کا اچھل اچھل کرسفر کرنا ہے ہر مینڈک کے اچھل کر آگے جانے کا فاصلہ کسی اور مینڈک سے مختلف ہوتا ہے کئی بار کوئی مینڈک کسی خوش رفتار مینڈک کی اچھل کود کی کاپی کرنے کی کوشش کرتا ہے تو بری طرح ناکام رہتا ہے اگر آپ کو یقین نہیں آتا تو کہیں سے دو مینڈک حاصل کیجئے اور پھر جب وہ اچھلنے لگیں تو ان کی چھلانگوں کا فاصلہ ناپئے آپ دیکھیں گے کہ دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے البتہ وہ مینڈک جو حزب اختلاف چھوڑ کر حزب اقتدار کی ٹوکری میں چھلانگ لگاتے ہیں ایک ہی جست میں یہ فاصلہ طے کر لیتے ہیں اور پھر نہایت ڈھٹائی سے کہتے ہیں کہ جی میں نے یہ چھلانگ ضمیر کی آواز پرکان دھرتے ہوئے لگائی ہے اور وہ نوٹ جو میری جیب میں ڈالے گئے ہیں ان کی گرمی سے لگائی ہے اقتدار حاصل کرنے کیلئے تو نہیں لگائی۔
اب آخر میں میں آپ کو ایک مینڈک کہانی سناتاہوں ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک جنگل میں نہایت صاف ستھرا اور خوبصورت،نیلے پانیوں سے لبریز ایک تالاب ہوا کرتا تھا اوراس میں بہت سے مینڈک نہایت خوش و خرم خوشحال زندگی بسر کرتے تھے ان کے بچے بھی دن رات اچھلتے زندگی سے لطف اندوز ہوتے تھے پھر کرنا خدا کا کیا ہوا تالاب کے کناروں پر کچھ مگرمچھ آ گئے اور وہ اپنے جبڑے کھول کر تالاب کا سارا پانی پی گئے مینڈک بے چارے بھوکوں مرنے لگے آہستہ آہستہ تالاب بالکل خشک ہو گیا مگرمچھ خوب خوش حال ہو گئے بلکہ انہوں نے غیرملکی بینکوں میں بھی دولت جمع کروا دی اب یہ ہے کہ وہ مگرمچھ بھوک سے نڈھال مینڈکوں سے مذاق کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم تو ڈڈو ہو۔ ایک ہمیں ڈڈو کہنا کوئی بڑا الزام نہیں، دنیا والے دل والوں کو اور بہت کچھ کہتے ہیں.


دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn