Qalamkar Website Header Image

کل الخیر المحتجب ۔۔۔ہر خیر محجوب ہوئی ہے – مستجاب حیدر

ولادت کے دن پہ ایسے عنوان سے لکھنا کچھ عجیب سا لگتا ہے لیکن میں خود کو تھوڑا معذور پاتا ہوں اور اس لئے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ایک شعر کا مصرعہ ثانی میں نے اپنی تحریر کا عنوان بنا ڈالا ہے۔میرے پاس کہنے کو کچھ زیادہ نہیں ہے۔کچھ یادیں ہیں جن کے سہارے یہ تحریر میں نے ترتیب دے ڈالی ہے۔ان سے میرا تعلق اور نسبت بچپن میں کہانیوں کے ذریعے سے بنا تھا اور تب سے اب تک یہ تعلق و ربط ٹوٹا نہیں ہے۔
میں نے اپنی دادی کی گود میں کئی راتیں ان کی کہانیاں سنتے گزاریں اور نیند کی وادیوں میں کھویا تو وہاں بھی ان کہانیوں کو خواب میں زندہ ہوتے دیکھا۔اب مجھے خواب بہت کم آتے ہیں کیونکہ بے خوابی بہت زیادہ ہے اور برباد رتجگے میری قسمت بن چکے ہیں۔میری دادی کہا کرتی تھیں کہ وہ ہستی اپنے بچپن سے ہی ” تنہائی پسند” تھیں ، استغنا اور سادگی ان کا شعار تھا۔میرے کانوں میں اب بھی وہ الفاظ گونجتے ہیں
"پانچ سال ابھی باقی تھے مکّہ کی گلیوں اور کوچوں میں "ہدایت کا اعلان "ہونے میں جب خود ہادی برحق کی عمر 35 سال کی ہوچکی تھی اور وہ جو قرآن کے بقول "عائل” تھے حضرت خدیجہ بنت خویلد سے شادی فرماکر "غنی” ہوچکے تھے۔خوشحالی اور مرفہ الحالی کا دور تھا جب ان کے آنگن میں زہرا کلی بنکر آئی تھی۔اور بہت چھوٹی سی عمر تھی جب حضرت خدیجہ نے اپنی اس پیاری بیٹی کو نئے کپڑے پہنائے اور جب زیور پہنانے لگیں تو آپ نے منع کردیا۔اور یوں انتہائی سادگی کے ساتھ شادی کی تقریب میں شریک ہوئیں۔شاید ان کو یہ خیال ہوگا کہ وہاں ایسی ہم عمر لڑکیاں بھی ہوں گی جن کے پاس زیور پہننے کے لئے نہیں ہوگا”۔
ایک رات دادی کو میں نے بڑی معصومیت سے پوچھا کہ "اماں ! آپ کہتی ہیں کہ یہ چاند ، ستارے، زمین ،آسمان اور خود ہم انسان رب کی نشانیاں ہیں ، وہ ہماارے اندر بستا ہے تو نظر کیوں نہیں آتا ؟ دادی سنکر ہنسنے لگیں اور پھر کہا کہ "جد الام نے بھی اپنی اماں خدیجہ سے یہی سوال کیا تھا ۔ پوچھا "اماں جان اللہ تعالیٰ کی قدرتیں تو ہم ہر وقت دیکھتے رہتے ہیں کیا اللہ تعالیٰ خود نظر نہیں آ سکتا؟ تو انہوں نے کہا کہ "رب کی دید کے لئے انسانوں کے خیر کا طالب ہونا پڑتا ہے”
دادی نے کہا، بیٹا! سراپا خیر ہوجاؤ انسانوں کے لئے تو اللہ میاں سے ملاقات بھی ہوجائے گی ۔
انتہائی خوشحالی کے دن دیکھے ،اور ابتدائی چند سالوں میں مکّہ کے اندر ہر طرف ان کے ابّا جان کی صداقت و امانت کی تعریف کی جاتی تھی ،پھر جب انہوں نے اعلان نبوت فرمایا اور مکّہ کے اشرافی ، سرداری اور فخر و مباہات پہ مبنی معاشرتی ،مابعد الطبعیاتی ،عمرانی، معاشی اسٹرکچر کو چیلنچ کردیا تو چیزیں بدلنا شروع ہوگئیں۔ایک طرف تو جتنا مال و اسباب تھا وہ سب نئی ذمہ داریوں پہ خرچ ہوگیا اور کافی تنگ دستی کے دن آگئے۔حالات بدل گئے اور پھر چند سالوں میں ہی مکّہ کی گلیوں میں اور بازاروں میں ان کے والد محترم کا گزرنا محال ہوگیا۔کعبہ کے سامنے جب وہ سجدہ میں پڑے تھے ایک شخص نے اوجھڑی ان کی گردن پہ رکھ دی جس سے سانس رکنے لگا ، اور چشم فلک نے دیکھا کہ یہ فاطمہ کی ذات تھی جو اپنے ننھے منّے ہاتھوں سے اپنے بابا کے گردن پہ دھری اوجھڑی کو ہٹانے کی کوشش کرتی تھیں۔ وہ بہت چھوٹی سی عمر تھی جب قریش نے بنو ہاشم کا مقاطعہ کیا اور سارا بنوہاشم اور مسلمان ہونے والے چند افراد شعب ابی طالب کی گھاٹی میں آگئے۔اور یہاں آکر مصائب کی انتہا دیکھی ۔انتہائی سختی میں انہوں نے اپنی انتہائی شفیق والدہ حضرت خدیجہ اور اپنے دادا حضرت ابو طالب کی وفات دیکھی اور یہ شاید پہلی دو سنگین اور انتہائی صدمہ پہنچانے والی اموات تھیں جن کا ان کو سامنا ہوا۔پھر ان کی پرورش اور تربیت کی ذمہ داری حضرت علی رضی اللہ عنہ کی والدہ محترمہ حضرت فاطمہ بنت اسد نے اٹھائی ،یہ وہی خاتون ہیں جوحضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تربیت پہ مامور ہوئی تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ان کو اپنی ماں کا درجہ دیتے اور ان سے انتہائی شدید محبت کرتے تھے۔ یہ جب فوت ہوئیں تو آپ نے ان کی قبر بنانے میں خود حصّہ لیا اور قبر میں لیٹ کر اس کی کشادگی کا جائزہ بھی لیا اور ان کی وفات پہ خوب آنسو بھی بہائے۔اور جب یہ فوت ہوگئیں تو ان کی تربیت کا ذمہ ام سلمیٰ رضی اللہ عنہا نے اٹھایا ، آپ کی تربیت میں ام الفضل آپ کے چچا عباس کی زوجہ نے بھی حصّہ لیا ، ام ہانی حضرت ابو طالب کی ہمیشرہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی پھوپھی نے بھی آپ کی تربیت اور پرورش میں حصّہ لیا۔ایسے ہی حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہا کی اہلیہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا نے بھی آپ کی تربیت کا فریضہ ادا کیا۔
میں کسی جگہ پڑھ رہا تھا کہ ام سلمیٰ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو ادب سکھانے کا ارادہ کیا تو مجھ پہ یہ عقدہ کھلا کہ آپ تو مجھ سے بھی کہیں زیادہ مودب تھیں۔کتب سیرت کا جائزہ لیں تو آپ کے القاب میں ہمیں "الطاہرہ، المزکیہ ،المرضیہ، سیدۃ النساء "جیسے القاب ملتے ہیں جو آپ کی شخصیت کی عکاسی کرتے ہیں۔اور آپ نے اوائل عمری سے صبر ورضا اور برداشت ،تحمل سیکھ لیا تھا اور تنہائی و خلوت پسندی نے آپ کو آنے والے ادوار میں غم و مصیبت سے معاملہ کرنا سکھادیا تھا۔کبھی کبھی مجھے ایسا لگتا ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے بھی عزلت نشینی،خاموشی اور تنہائی کو احتجاج کے طاقتور استعارے اور علامت بنانے کا فن حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے ہی سیکھا تھا۔
میری دادی کہا کرتی تھیں۔
"غم کو طاقت بنانا ،اسے سماجی تبدیلی کے استعارے میں بدلنے کا کارنامہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے سرانجام دیا اور اسی سے یہ روایت آگے چل کر جناب زینب بنت فاطمہ میں اپنے کمال پہ نظر آتی ہے”
تاریخ میں یہ ذکر موجود ہے کہ وفات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد آپ کو تنہائی کا شدت سے احساس ہوتا اور جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فراق آپ سے برداشت نہ ہوتا تھا۔آپ نے معمول بنالیا تھا کہ ہر روز قبر رسول پہ حاضری دیا کرتی تھیں اور بہت گریہ کرتی تھیں۔ایک حجرہ بھی جنت البقیع میں آپ کے لئے بنایا گیا تھا جسے بیت الحزن کا نام دے دیا گیا جہاں اکثر آپ گریہ فرماتی تھیں اور کئی رثائی اشعار آپ نے کہے ،میری یاد داشت پہ ایک مصرعہ تو پتھر کی طرح نقش ہے۔
فغبت عنا فكل الخير محتجــب
آپ کیا ہماری نظروں سے اوجھل ہوئے جیسے ہر خیر ہم سے حجاب کربیٹھی ہو
میری دادی اکثر و بیشتر یہ مصرعہ اس وقت دوہراتی تھیں جب ان کو شدید غم و دکھ لاحق ہوتا تھا۔اور سینہ پھٹنے کو لگتا ہے جب ان کے مرثیہ سے یہ شعر ذہن میں آتے ہیں
لـو ترى المنبر الذي كنت تعلوه *عــلاه الظـلام بعد الضيــاء
يــا إلهي عجل وفاتـي سريعاً *قد بغضت الحياة يـا مولائـي
اگر میں اس منبر کی طرف دیکھوں جہاں آپ جلوہ افروز ہوا کرتے تھے ،آپ کے بعد وہاں روشنی نہیں ظلام نظر آتا ہے
اے اللہ بہت تیزی سے ،جلدی کے ساتھ مجھے موت دے دے، میں تو اے میرے مولا ،اب جینے سے نفرت کرتی ہوں
ان کا ایک اور مرثیہ ہے جس میں انہوں نے کمال کی بات کہی ہے دردناک انداز میں
إن الحيــاة سبيلنـا * ومن لم يمت في يومه مات في غد
بے شک ہماری زندگی دراصل ہماری گزرگاہ ہے اور جو آج نہیں مرے گا تو وہ آنے والے کل میں مر جائے گا
آپ فرماتی تھیں
اذا اشتد شوقي زرت قبرك باكيــاً * أنــوح وأشكـوا لا أراك مجــاوبي
جب میرا شوق دید شدت پکڑ جاتا ہے تو میں آپ کی قبر کی اشکبار ہوکر زیارت کرنے چلی آتی ہوں
میں نوحہ گر ہو شکوہ گر ہوتی ہوں مگر میں کوئی جواب نہیں پاتی
اور ایک اس سے بھی زیادہ دردناک بات کہنے کو آج دل کررہا ہے۔ایک جگہ لکھا ہے کہ آپ کے قبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہ مسلسل گریہ کناں ہونے پہ اعتراض کیا گیا، اب اعتراض کن لوگوں نے کیا روایت کرنے والے نے ان کی نشاندہی نہیں کی "صرف من اہل المدینۃ النبی” لکھا ہے،یہ اہل مدینہ میں سے کون تھے لیکن اس اعتراض کی وجہ سے آپ کو ایک حجرے میں بند ہونا پڑا جسے” بیت الحزن "کہا جاتا تھا۔
سوچ رہا تھا کہ کہاں پہ اس تحریر کو ختم کروں تو علامہ اقبال کا قصیدہ یاد آگیا اس کے چند اشعار پہ اس تحریر کو ختم کرنا ہی بہتر ہوگا :
مریم از یک نسبت عیسی عزیز
از سه نسبت حضرت زہرا عزیز
مریم عیسی علیہ السلام کے حوالے سے ایک ہی نسبت سے بزرگ و عزیز ہیں؛ جبکہ حضرت زہراء تین نسبتوں سے بزرگ و عزیز ہیں
نور چشم رحمة للعالمین
آن امام اولین و آخرین
سیدہ رحمةللعالمین صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نورچشم ہیں ،جو اولین و آخرینِ عالَم کے امام و رہبر ہیں
آن که جان در پیکر گیتی رسید
روزگار تازه آیین آفرید
وہی جنہوں نے گیتی (کائنات) کے پیکر میں روح پھونک دی، اور ایک تازہ دین سے معمور زمانے کی تخلیق فرمائی
بانوی آن تاجدار ہل اتی
مرتضی مشکل کشا شیر خدا
وہ "ہل اتی” کے تاجدار، مرتضی مشکل کشا، شیرخدا علیہ السلام کی زوجۂ مکرمہ اور بانوئے معظمہ ہیں
پادشاہ و کلبہ ای ایوان او
یک حسام و یک زرہ سامان او
علی علیہ السلام بادشاہ ہیں جن کا ایوان ایک جھونپڑی ہے اور ان کا پورا سامان ایک شمشیر اور ایک زرہ ہے
مادر آن مرکز پرگار عشق
مادر آن کاروان سالار عشق
ماں ہیں ان کے جو عشق کا مرکزی نقطہ اور پرگار عشق ہیں اور وہ کاروان عشق کی سالار
آن یکی شمع شبستان حرم
حافظ جمعیت خیر الأُمَم
وہ دوسرے (امام حسن مجتبی علیہ السلام) شبستان حرم کی شمع اور بہترین امت (امت مسلمہ) کے اجتماع و اتحاد کے حافظ
تا نشینند آتش پیکار و کین
پشت پا زد بر سر تاج و نگین
اس لئے کہ جنگ اور دشمنی کی آگ بجھ جائے آپ (امام حسن) (ع) نے حکومت کو لات مار کر ترک کردیا۔
و آن دگر مولای ابرار جہان
قوّت بازوی احرار جہان
اور وہ دوسرے (امام حسین علیہ السلام)، دنیا کے نیک سیرت لوگوں کے مولا، اور دنیا کے حریت پسندوں کی قوت بازو
در نوائے زندگی سوز از حسین
اہل حق حریت آموز از حسین
زندگی کی نوا میں سوز ہے تو حسین (ع) سے ہے اور اہل حق نے اگر حریت سیکھی ہے تو حسین (ع) سے سیکھی ہے
سیرت فرزندها از اُمّہات
جوهر صدق و صفا از اُمّہات
فرزندوں کی سیرت اور روش زندگی ماؤں سے ورثے میں ملتی ہے؛ صدق و خلوص کا جوہر ماؤں سے ملتا ہے
بهر محتاجی دلش آن گونه سوخت
با یہودی چادر خود را فروخت
ایک محتاج و مسکین کی حالت پر ان کو اس قدر ترس آیا کہ اپنی چادر یہودی کو بیچ ڈالی
مزرع تسلیم را حاصل بتول
مادران را اسوه کامل بتول
تسلیم اور عبودیت کی کھیتی کا حاصل حضرت بتول سلام اللہ ہیں اور ماؤں کے لئے نمونۂ کاملہ حضرت بتول ہیں

حالیہ بلاگ پوسٹس

رسول رحمتﷺ کی رحیم چچی

نبی اکرمﷺ کا دل اتنا وسیع اور حوصلہ اتنا بلند تھاکہ سمندروں اور ریگزاروں کی مثا لیں اور تشبیہات اس کے مقابلے انتہائی ہیچ معلوم ہوتی ہیں۔ آپﷺ نے سب

مزید پڑھیں »

خدا پرست سوشلسٹ

قبیلہ غفار کے ایک رکن جندب کے خمیر میں  خود ساختاؤں کے خلاف بغاوت  اسلام قبول کرنے سے پہلے ہی بھری ہوئی تھی۔ جب قحط سالی کا خطرہ سر پر

مزید پڑھیں »

زید ؒ شہید بن امام زین العابدین ؑ

امام زین العابدین علیہ السلام کے فرزندوں میں امام محمد باقرؑ کے بعد سب سے زیادہ نمایاں حیثیت جناب زیدؒ شہید کی تھی ۔آپ بلند قامت، حسین اور پروقار شخصیت

مزید پڑھیں »