وہ 15جنوری 1996ء کی سرد اور اداس شام جس میں بارش نے وقفہ وقفہ سے برس کر سردی کی شدت میں بہت اضافہ کر دیا تھا۔ دل اس دن کچھ زیادہ ہی اداس تھا۔ طبعیت بہت الجھی ہوئی تھی۔ سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی کہ اس سرد شام میں ایسا کیا ہے جس نے یوں پریشان کیا ہوا ہے۔
اس اداس شام میں اداسی اور پریشان کن سناٹے نے دل کو اتنا مضطرب کیوں کیا، اس کا جواب مون مارکیٹ میں ہونے والی اندھا دھند فائرنگ کی آواز نے دیا جس نے اردو کے ممتاز شاعر، حماد اہل بیت علیہم السلام جناب سید غلام عباس المعروف محسن نقوی کو ہم سے چھین لیا۔
سپاہ صحابہ کے دہشت گردوں نے اپنی مذہبی نفرت کی بھینٹ اس شاعر کو چڑھا دیا جو زندگی کا سبق دیتا تھا۔ اور کتنے ستم کی بات ہے کہ محسن نقوی شہید کا قتل بھی شاعر مشرق کے نام پر آباد ہونے والے علامہ اقبال ٹاؤن میں کیا تھا جہاں مون مارکیٹ واقع ہے۔
ان دہشت گردوں نے پرامن اور غیر مسلح محسن نقوی شہید کو اندھا دھند 65 گولیاں ماری تھیں۔ جن دنوں محسن نقوی شہید ہوئے تب پیپلز پارٹی پنجاب میں شریک حکومت تھی اور اس کے اتحادیوں میں سپاہ صحابہ شامل تھی۔ سپاہ صحابہ کے دو ہی ممبران اسمبلی تھے جن میں شیخ حاکم علی صوبائی وزیر جیل خانہ جات تھے جبکہ ریاض لالی مشیر وزیر اعلیٰ کی ذمہ داری پر تھے۔ سپاہ صحابہ کے ممبر قومی اسمبلی اعظم طارق نے اس واردات کے بعد مسلسل لاہور بیٹھ کر اپنے گروپ کے دہشت گردوں کو بچانے کے لئے مذاکرات کئے۔ ان مذاکرات کا ہی نتیجہ تھا کہ محسن نقوی شہید کے قتل میں ملوث درج ذیل تمام دہشت گرد آج اس کیس میں آزاد پھر رہے ہیں یا اپنی قدرتی موت مر چکے ہیں:
1):۔ اکرم لاہوری (حال مقیم کراچی سنیٹرل جیل بمعہ وی آئی پی پروٹوکول ۔ یہ کم از کم 100 سے زیادہ ہائی پروفائل قتلوں میں ملوث رہا ہے۔ کئی کیسوں میں پھانسی کی سزا پا چکا ہے مگر بوٹوں والوں نے اسے آج تک پھانسی کے تختہ پر نہیں پہنچنے دیا)
2):۔ حافظ غلام فرید (رائیٹ ہینڈ قبضہ گروپ برائے سینئیر وزیر پنجاب علیم خاں اور تمام الزامات سے کلئیر شدہ)
3):۔ رستم خاں سائیکلسٹ (پاگل ہو کر مر چکا، قبر بمقام ایبٹ آباد، نزد گاؤں چمٹی)
4):۔ اصفر معاویہ (اپنے ہی ساتھی کے ہاتھوں قتل ہو کر جہنم زدہ)
5):۔ دو سے 3 اور نا معلوم ۔ جن میں سے ایک شاید عبدالمجید عرف مجیدا کپی ۔ (تمام الزامات سے کلئیر اور چھوٹے موٹے جرائم میں ملوث ہے)
سپاہ صحابہ کے پالتو دہشت گردوں نے محبتوں کا درس دینے والے محسن نقوی کو نفرتوں کی بھینٹ چڑھا دیا اور آج بھی آزاد ہیں۔
محسن نقوی کی زندگی کا سفر 5 مئی 1947ء کو ڈیرہ غازی خان کے بلاک 45 میں سید چراغ حسین کے گھر پیدا ہونے سے شروع ہوا۔ والد نے بچے کا نام غلام عباس رکھا مگر اس بچے نے آٹھویں جماعت میں شاعری کا آغاز کیا تو اپنا قلمی نام محسن نقوی رکھ لیا۔ بی اے تک کی تعلیم ڈیرہ غازی خاں میں حاصل کرنے کے بعد محسن نقوی نے ایم اے گورنمنٹ کالج بوسن روڈ، ملتان سے کیا جہاں نامور شاعر پروفیسر اسلم انصاری ان کے استاد تھے۔ محسن نقوی نے شروعات میں ڈیرہ غازی خان میں شفقت کاظمی اور کیف انصاری جیسے غزل گو شعراء سے رہنمائی حاصل کی تھی۔ شفقت کاظمی صاحب کا شمار مولانا حسرت موہانی کے شاگردوں میں ہوتا تھا۔ محسن نقوی شہید نے کسی سے باقاعدہ اصلاح تو نہ لی مگر وہ علامہ شفقت کاظمی کو اپنا منہ بولا استاد ضرور کہتے تھے۔
محسن نقوی کی شاعری نے ابتدائی زمانہ میں ہی ہم عصروں کو متوجہ کیا۔ ۔ ملتان آنے کے بعد انہیں انوار احمد، فخربلوچ، صلاح الدین حیدر، عبدالرؤف شیخ اور اصغرندیم سید جیسے دوستوں کا حلقہ میسر آیا۔ یہ ان سب کے طالب علمی کازمانہ تھا۔ملتان کی ادبی، ثقافتی و سیاسی زندگی میں بہت تحرک تھا۔ گھنگھریالے بالوں والا قہقہے بکھیرنے والا نوجوان محسن نقوی ملتان کی ادبی محفلوں کی جان بن گیا۔
1968ء سے1970ء تک محسن نقوی گورنمنٹ کالج بوسن روڈ میں ایم اے کے طالب علم رہے۔ یہ ملک میں سیاسی گہما گہمی کا دور تھا۔ ایوب آمریت کے خاتمہ کے بعد ملک ایک نئے جمہوری سفر کا آغاز کرنے والا تھا اور اسی دوران مشرقی پاکستان میں شورشوں کا آغاز ہوگیا تھا۔ ترقی پسند سوچ رکھنے والے دیگر دانشوروں کی طرح محسن نقوی بھی پاکستان پیپلزپارٹی سے وابستہ ہوگئے اور یہ وابستگی آخری سانس تک برقرار رہی۔
اسی زمانے میں انہوں نے ”بندِ قبا“ کے نام سے اپنے شعری سفر کا آغاز کیا۔ ان کے دیگر شعری مجموعوں میں ”برگِ صحرا“، ”ریزہءحرف“، ”موجِ ادراک“، ”ردائے خواب“، ”عذابِ دید“، ”طلوع ِاشک“، ”رختِ شب“ ”خیمہءجاں“، ”فراتِ فکر” اور ”میرا نوحہ انہی گلیوں کی ہوا لکھے گی“ وغیرہ شامل ہیں۔ محسن نقوی محبت کے شاعر تھے۔”ردائے خواب“ کے دیباچے میں انہوں نے اپنی شاعری کا مرکزی نکتہ محبت اور امن کو قرار دیا۔ بقول محسن نقوی ”زندگی اتنی مختصر ہے کہ اس میں جی بھر کے محبت کرنے کی مہلت بھی نہیں ملتی خدا جانے لوگ نفرت کے لئے وقت کہاں سے بچا لیتے ہیں“۔
اپنی ساری زندگی محبت کا درس دینے والے اور پیپلز پارٹی کے لئے آخری سانس تک وابستہ رہنے والے محسن نقوی شہید کا قتل پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں ہوا اور افسوس کی بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی قیادت اس قتل کے بعد بھی سپاہ صحابہ کے دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں سے مذاکرات کرتی رہی جس کے نتیجہ میں آج تک محسن نقوی شہید کے قاتل سزا سے بچے ہوئے ہیں۔
قاتل کو جانتے تو سبھی ھیں مگر اے دوست
کس میں ھے دم کہ نام یہاں اس کا لے سکے
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn