Qalamkar Website Header Image

مراد بلوچ اور وہ چالیس سال کا عرصہ

Sami Khanاور وہ ایک دوپہر دوبئی کی تپتی ہوئی گرمی میں، سر پہ سرخ رنگ کا رومال اور پرانے چمڑے کے بوٹ پہنے ہوئے سڑک کنارے پہ، ایک ہاتھ لفٹ مانگنے کیلئے آگے کئے ہوا تھا۔ اسکی یہ حالت زار دیکھ گاڑی خود بخود اسکے پاس جاکے رُک گئی، یہ سوچتے ہوئے کہ کہیں میری دھیمی میوزک اور ائیر کنڈیشنڈ کی گاڑی میرے لئے باعث زحمت نہ بن جائے۔ گاڑی کا دروازہ کھول کر اندر آنے کی جسارت کی، تو پھر خشک کالے ہونٹوں کو سیرابی کیلئے نیسلے کی پانی کی بوتل بھی ساتھ میں تھما دی۔ اس کی یہ حالت دیکھ کر، دل میں یہ بات آئی کہ غربت نے سکھائی میرے ہم وطن کو تہذیب اور سلیقہ۔ چلے سنتے ہیں کہ اس شاہکاری کے پیچھے کتنے عرصہ کا سفر ہے۔ نام پوچھنے پہ اُس نے بتایا کہ مراد بلوچ اور خضدار بلوچستان کا باشندہ تھا، اور اب؟ تھوڑی خاموشی کے بعد اُس نے مجھے جب اپنی داستان سنانی شروع کی تو میرے ذہن میں جرمنیوں کا یہودیوں کے ساتھ دوسری جنگ عظیم میں بر تاؤ آنکھوں کے سامنے آیا۔ مراد نے اپنی کہانی وہاں سے شروع کی جہاں لمبے صحرا اور اونٹ کے سوا کچھ نہ تھا۔ مراد پاسپورٹ کے بغیر ایک کشتی کے ذریعے براستہ گوادر پورٹ دوبئی پہنچا تھا۔ آتے ہوئے اس کو ایک جگہ نوکری ملی تھی بہ عوض 35 درھمMurad Baloch مہینے کے حساب سے۔ تین سال اس انتظار میں کام کیا کہ کہی اچھی جگہ نوکری ملے اور یہ کام چھوڑ دے۔ تین سال کے بعد وہ ایک کنسٹرکشن کمپنی میں ایک پنجابی کے ساتھ اس شرط پہ کام کرنے لگا، کہ اسے 30 درھم بہ عوض مہینے کا تنخواہ، چھ سال کام کرنے کا معاہدہ اور اسکا پاکستانی پاسپورٹ بنائےگا۔ چھ سال مکمل ہونے پر، اسکو پاسپورٹ تو مل گیا، لیکن ایک بد قسمتی کا لازوال سفر شروع ہوگیا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے، جب نہ برج خلیفہ بنا تھا اور نہ دوبئی مال میں آتش بازی کا تصوّر تھا۔ نہ میکڈونلڈ تھا اور نہ اٹالین پیزہ ھٹس، نہ امارات روڈ پہ آٹھ لائینز تھے اور نہ گلوبل ویلیج کا نقشہ، نہ الفطیم والوں کی کمپنی اور نہ العین کا جبل حفیت، نہ مِشن ایمپاسیبل فلم کا بننا اور نہ میدان میں شیخ کے اونٹوں کے ریس کا انتظام، اور صحرا میں اونٹ ہوا کرتے تھے اور سمندر میں کھانے کیلئے مچھلیاں ہوتی تھی۔ بہر حال اُس نے ایک اماراتی کے ساتھ اسکے فارم ہاوس میں کام شروع کیا۔ اماراتی نے اسکو پندرہ سال کے معاہدے پہ بہ عوض ۱۰۰ درھم مہینے کا تنخواہ اور اس وعدہ کے ساتھ کام دیا کہ پندرہ سال کام کرنے جو بلا ناغہ ہو، تو اسکو امارات کا پاسپورٹ مل جائیگا۔ بیچارے مُراد نے حامی بھر لی، اور فارم ہاوس میں اونٹوں کی دیکھ بال شروع کردی۔ کرتے کراتے بیچارے مُراد، نے پندرہ سال مکمل کئے اور اپنے ارباب کو درخواست کی کہ اسے وہ پاسپورٹ مل جائے، جسکا وعدہ کیا گیا تھا، تاکہ باقی کی زندگی اونٹوں کی دیکھ بال کے علاوہ بھی گزاری جائے۔ اسکے کہنے پر اسکا ارباب طیش میں آگیا اور بولا کہ کہ کوئی پاسپورٹ نہیں ملے گا جاو، مزید 15 سال کام کرو تو تب جاکے اسکو اماراتی پاسپورٹ مل جائیگا۔ کوئی دوسرا آپشن نہ ہونے کی وجہ سے مُراد نے حامی بھر لی، لیکن 600 مہینے کی تنخواہ پر۔ مزید چودہ سال کی نوکری کے بعد، مُراد کا ارباب مرگیا اور اسکے سارے کہ سارے خواب دھرے کہ دھرے رہ گئے۔ دو سال اُس ارباب کے فارم ہاوس میں کام کرنے کے بعد اس ارباب کے بیٹوں نے مُراد کو کام سے نکال دیا۔ اور تب پاسپورٹ ملنے کی پالیسی بھی بدل گئی تھی۔
اس چالیس سال کے عرصہ میں نہ تو مُراد کو اپنی امی کے فوت ہونے کی خبر ملی اور نہ باپ کی۔ نہ بھائی کی شادی اور نہ خود شادی کی۔ ہمیشہ یہ عرصہ اس لالچ میں گُزرا کہ ایک دن وہ اپنے سارے خاندان کو دوبئی لے کے آئیگا، پاسپورٹ ملنے کے بعد۔ انکھوں کا کم نظر، چہرے پہ دھوپ کیوجہ سے لکیریں، کانپتے ہاتھوں اور سر پہ ایک بھی بال نا ہونے والے اس بیچارے لاعلمی کا شکار بلوچ نے مجھے ایک سو سوالات کے ساتھ گاڑی روکنے کا کہا جہاں اس کا فارم ہاوس تھا۔ اس کو اتارتے ہوئے میں نے اسکی اجازت پہ ایک تصویر کا کہا تو بے حد خوش ہوا۔ اور پھر میں نے ایک لمبی سانس لے کر اپنی گاڑی کی طرف بڑھا۔ کبھی کبھار یہ سوچ کے سوجا تا ہوں کہ تعلیم کے نہ ہونے کی وجہ سے کتنے اور مُراد ہمارے معاشرے میں اپنی زندگیاں تباہ کرتے ہونگے۔

حالیہ بلاگ پوسٹس