عظمیٰ کے بارے میں عام خیال یہ تھا کہ اعظم کے ساتھ اُس کا رشتہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ہر دو فریقین ایک دوسرے سے شیر و شکر تھے بلکہ یہ بھی چاہتے تھے رقیبان بد اندیش اس رشتے سے بے دریغ جلاپے کا شکار بھی رہیں۔اعظم کا عظمیٰ پہ ہاتھ کے اُٹھنے کے بس ایک واقعے کے علاوہ دونوں کی ناچاقی یار لوگوں کے لئے ایک حسرت ہی رہی ۔لیکن بُرا ہو نیاز خان کا کہ نجانے موئے نے کیا چکر چلایا کہ عظمیٰ دونوں ہاتھ دھو کر اعظم کے درپے ہوئی ۔اعظم کے دو تہائی میکے اُس کے مطابق اُس پر جان چھڑکتے ہیں اور عظمیٰ کی کسی نازیبا حرکت پر وہ اُسے چھٹی کا دودھ یاد دلا سکتے ہیں لیکن بگڑی مؤنث ایسی دھمکیوں کو کہاں خاطر میں لاتی ہے
مجھے تو لگتا ہے کہ اعظم کی طبیعت اور نیاز خان کی شرارت سے زیادہ اُس کے حالات میں قسمت کا عمل دخل ہے ۔جب بھی اُسے دولہے کی شاہ تاج قسم کی کُرسی نصیب ہوتی ہے دلہن کے کسی نہ کسی قریبی سے اُس کی ٹھن جاتی ہے ۔اِدھر نکاح پڑھ کے دیا گیا اور اُدھر کوئی نہ کوئی سسرالی بارات کا رستہ روکے آ کھڑا ہوا ۔اب بندہ دولہے کے کاسٹیوم میں خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرے تو جورو کا غلام کہلائے یہ کہاں کا انصاف ہے ؟تازہ واقعے میں نیاز خان تو نکاح میں بھی روڑے اٹکانے پر تُلا تھا وہ تو بھلا ہو عسکری بھائی کا جن سے ایک زمانے کی جان جاتی ہے ۔نجانے کیا سوچ کر انہوں نے عظمیٰ کے ابا کی مدد سے نکاح کے رستے سے سارے روڑے ٹھوکروں سے ہٹا دئیے ۔اِدھر نکاح ہوا اور اُدھر اعظم عسکری بھائی کو بھی آنکھیں دکھانے لگے چنانچہ موقع غنیمت جان کر نیاز خان ایک دفعہ پھر رستے پر دھرنا دے کر بیٹھ گئے ۔
لیکن اب تو سارے عذاب ٹل چکے تھے ۔اعظم اور باراتی ولیمے کی لذتیں اُڑا رہے تھے کہ اُدھر نیاز کی مسلسل کھسر پھسر پر عظمیٰ نے بھی کان دھر ہی لئے ۔کان کیا دھرے اعظم کے ہاتھوں سے دو تہائی کانٹے چمچے زمیں پر آ رہے ۔بے چارہ ایک چمچہ زمین کیا کہیں پاتال میں جا گرا۔گرتے گرتے اعظم کا گریبان کہیں اُس بے چارے کے ہتھے لگ گیا ۔بس پھر کیا تھا عظمیٰ نے جو گریبان کی گت بنتے دیکھی تو بدمعاش،غنڈہ اور جو جو منہ میں آیا سب اعظم کے دامن پر تھوپ دیا ۔ماہرین کاکہنا ہے کہ اب عظمیٰ اور اعظم کی جو ٹھنی ہے اُس پر اعظم کو اپنی بارات سمیت بغیر دلہن کے رخصتی جھیلنا ہو گی ۔
عجیب یہ شادیانہ محل ہے کہ جب بھی رخصتی کا وقت آتا ہے دولہے کو اکیلے ہی جانا پڑتا ہے ۔کبھی عظمیٰ کے ہاتھوں اور کبھی عسکری بھائی کا پارہ چڑھ جاتا ہے ۔کیا کیا دولہے تھے جو دونوں ہاتھوں ولیمے اُڑاتے دلہن کے بغیر رخصتی پر مجبور ہوئے ۔کا ش یہ دولہا لوگ ولیمے سے پہلے دلہن سمیت رخصتی کی فکر کر لیں لیکن رہے نام اللہ کا ۔ہمارے ابا کہتے تھے کہ اقتدار سر سے ڈھلکتا ہوا سیدھا کانوں پر گرتا ہے اور پھر دولہے میاں کی آنکھیں پر پٹی ہوجاتا ہے چنانچہ نہ کچھ سنائی دے رہا ہوتا ہے اور نہ ہی کچھ دیکھنے کا موقع مل پاتا ہے حتیٰ کہ یہی پٹی جب گردن کا پھندہ ہوکر کھنچتی ہے تو سب کچھ سنائی اور دکھائی دینے لگتا ہے لیکن تب بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے ۔
شامیانے کے باہر کھڑے لوگ ایک نئی بارات کی تیاری میں ہیں لیکن انہیں یاد رکھنا ہو گا کہ عظمیٰ اب وہ پہلے کی سی لڑکی بالی نہیں اور ادھر عسکری بھائی نے ہاتھ کے ساتھ دماغ اور زبان بھی چلانا شروع کر دی ہے ۔سو کسی بھی نئے دولہے کے لئے لازم ہے کہ صرف بارات پر توجہ نہ دے وہ کمی کمین جن کا لہو باراتیوں کے ہاتھوں پر مہندی بن کے رچا ہے کچھ اُن کا بھی خیال کریں تاکہ بارات بغیر دلہن کے رخصتی جھیل کر آئے تو دو بول ہمدردی کے بولنے کو کوئی تو ہو۔
مزاج طبیعت سے شاعر،پیشے سے وکیل اور فکرو عمل سے سیاسی کارکن ہیں۔انہوں نے شکستہ جھونپڑوں سے زندان کی کوٹھڑیوں تک ،دلدل کی ماری گلیوں سے اقتدار محل کی راہداریوں تک زندگی کے سارے چہرے دیکھے ہیں ۔وہ جو لکھتے ہیں سنائی اور دکھائی دیتا ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn