ہم بھارت سے ہار گئے کا براہ راست مطلب ہے کہ ہم بھارت سے کھیلے۔اور بھارت سے کھیلے کے معنی ہیں کہ ہم بھارت کے ہم پلہ ہیں۔سو اس واقعے میں سب سے اہم بات ،کھیلے ، ہے۔ہار اور جیت کھیل کا لازمی حصہ ہوتی ہیں۔لیکن اس حصے کے باوجود کھیل کھیل ہی ہوتا ہے۔ساری اہمیت کھیل کی ہوتی ہے ہار جیت کی نہیں۔ہماری ٹیم چیمپینز ٹرافی کھیل رہی ہے کا مطلب یہ ہے یہ ٹیم چیمپینز میں سے ہے اس کی شکست و فتح بھی چپمپینز میں سے ایک کی شکست و فتح ہو گی ۔
ہماری ٹیم دنیا بھر کی ٹیموں سے کھیلی ہوئی ہے جن میں سے سب کو ہم نے ہرایا ہوا ہے اور جن میں سے سب سے ہم ہارے بھی ہوئے ہیں۔بھارت کی ٹیم بھی اُن ٹیموں میں سے ایک ہے۔لیکن نجانے کیوں ہر میدان اور ہر کھیل میں ہمیں بھارت بخار میں مبتلا رکھا جاتا ہے۔ہر دو اطراف ذرائع ابلاغ اور رائے عامہ تشکیل دینے والے دیگر ادارے اور افراد ایک ہیجان برپاکرتے ہیں جس کی رو میں دونوں اطراف کی خلق خدا بہہ نکلتی ہے۔سوال یہ نہیں کہ ہمارے مقابل کون تھا ؟ سوال یہ ہے کہ ہم کیوں بُرا کھیلے۔بُرا کھیل بُرا کھیل ہے خواہ بھارت کے خلاف کھیلا جائے یا کسی دوسرے مقابل کے خلاف۔
لیکن ایک ایسا حشر برپا کیا جاتا ہے کہ شاید ہمارے کھلاڑی بھی اُس کا شکار ہو جاتے ہیں۔اُن کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں۔تماشائیوں کی نفرت و محبت کی شدت کھلاڑیوں کے ہاتھوں کے طوطے اُڑا دیتی ہے اور پھر نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔اُدھر ہمارے نام نہاد دانشور اس شدت کو غم و غصہ کا تڑکا لگاتے ہیں۔جلوس نکلتے ہیں،کھلاڑیوں کے گھروں پر حملے ہوتے ہیں،ٹی وی ٹوٹتے ہیں غرض وہ سب کچھ ہوتا ہے جو کہیں اور ہو تو ہم اُسے انتہا پسندی قرار دیتے ہیں۔
تو کیا بھارت اور پاکستان دشمنی کے نام پر ذمہ دار حلقے سرحد کے دونوں طرف انتہا پسندی کے بخار میں روز افزوں اضافے کے خواہاں ہیں۔یہی ذمہ دار حلقے ہیں جو سرحد کے دونوں طرف کے عوام کوغربت،بھوک،افلاس اور جہالت میں مبتلا رکھے ہوئے ہیں۔اور ان ابتلاؤں پر پردہ پوشی کے لئے اس نام نہاد دشمنی کو ہوا دیتے ہیں۔بھارتی اور پاکستانی دونوں جانب کی آبادیاں کیا واقعی ایک دوسرے سے نفرت کے رشتے میں منسلک ہیں اس کا اندازہ پاکستان میں بھارتی فلموں میں دلچسپی اور بھارت میں پاکستانی گائیکوں کی مقبولیت سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے مابین کشمیر ایک وجہ نزع ہے۔اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ بھارت کشمیر کے حوالے سے ہٹ دھرمی کا شکار ہے لیکن ہماری مسلمہ ریاستی پالیسی ہے کہ کشمیر کا تنازعہ بات چیت سے حل کیا جائے ۔تو کیا ہمارا ہر عمل اور ہر اقدام اسی مسلمہ پالیسی کے مطابق نہیں ہونا چاہیے۔اگر بھارت جارحیت پسند ہے تو کیا ہمیں اپنے اقدام اور کردار سے اپنی اور اُس کی پالیسیوں میں فرق ظاہر نہیں کرنا چاہیے۔بھارتی معاشرہ ہندو انتہاپسندی کے ہاتھوں یرغمال ہے تو ہمارا معاشرہ بھی عقیدے کے فرق کے ساتھ اسی قسم کی صورتحال کا شکار نہیں؟پھر فرق کہاں ہے ؟ہم کس طور بین الاقوامی برادری میں یہ فرق واضح کر سکتے ہیں۔اور یہ فرق صرف دو مختلف شہریتوں کا نہیں ،دو مختلف ریاستوں کا نہیں ۔ہم نے برصغیر کی تقسیم کا مطالبہ اس بنیاد پر کیا تھا کہ اس جغرافیہ میں دو الگ الگ تہذبیں اور دو الگ الگ قومیں بستی ہیں جو ایک ہی ریاستی انتظام کے تحت اپنی اپنی تہذیب کے مطابق نہیں رہ سکتیں۔سو اب یہ سوال بنتا ہے کہ وہ الگ تہذیب کیا ہوئی ۔ہندو عقیدہ تو ذات پات پر مشتمل ہے وہاں انسانی استحصال کی ہر شکل نہ صرف موجود ہے بلکہ جائز بھی ہے لیکن ہم جو ایک خالق کی ایک جیسی مخلوق ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ہم جو نبی رحمت صل اللہ و علیہ و آلہ وسلم کے پیروکار ہیں ۔ہم جو عقل کو عینِ دین اور دین کو عینِ عقل مانتے ہیں ہم کب دین اور عقیدہ کی دنیاؤں کا یہ فرق واضح کریں گے۔
مزاج طبیعت سے شاعر،پیشے سے وکیل اور فکرو عمل سے سیاسی کارکن ہیں۔انہوں نے شکستہ جھونپڑوں سے زندان کی کوٹھڑیوں تک ،دلدل کی ماری گلیوں سے اقتدار محل کی راہداریوں تک زندگی کے سارے چہرے دیکھے ہیں ۔وہ جو لکھتے ہیں سنائی اور دکھائی دیتا ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn