بھائی فتویٰ مزاج کا کہنا ہے کہ رمضان کے نام پرنجی ٹیلی ویژن پر چل رہے پروگرامز مذہبی روایات اور تمدن کے مذاق کے مترادف ہیں جبکہ باجی غرب المثال کا ارشاد ہے کہ فتووں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا ۔ہماری مصیبت یہ ہے کہ ان پروگرامز میں جی لگتا ہے ،روزہ بہل جاتا ہے اور محدود ہی سہی باجی غرب المثال کی صحبتِ لطف نواز بھی میسر آتی ہے ۔لیکن سارے دن کی بھوک پیاس کو اجر عظیم تسلیاں دیتا ہوا دماغ سہما جاتا ہے اور بعض مقامات پر آنکھوں پرضمیر کی لاٹھی لئے پل پڑتا ہے ۔
دیس آزاد ہونے سے آج تک ہماری تہذیب، بے چاری دو انتہاؤں میں جیسے کھینچی جا رہی ہے ممکن نہیں کہ اس نام کی کوئی چڑیا زندہ بچی ہو۔باجی غرب المثال اور اُن کے ساتھی اُسے انتہائی مغرب کی طرف کھینچتے ہیں اور دوسری طرف مشرق سے بھی زمانوں اُدھر بیٹھے بھائی فتویٰ مزاج اپنے بھائی بندوں سمیت اسے حوروں کی گودی میں ڈالنے پر مصر ہیں۔اور عوام ہیں کہ خطبے فتویٰ مزاجوں کے بلا چوں و چراں سنتے اور سر دھنتے ہیں اور روزہ باجی غرب المثال کے ساتھ بہلاتے ہیں
کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا!
اس موضوع پر غور کرنے کی بھی کوشش میں ایمان مسلسل خطرے میں پڑا رہتا ہے۔خدا اور خلق خدا کے درمیان کئی لٹھ بردار پڑنے لگتے ہیں۔میں سوچتا ہوں کہ خدا کی طرف بارود کی لاٹھی سے ہانکنے والے درست ہیں یا خدا پر خود کش حملے کی کوششِ ناکام کرنے والے صحیح کہتے ہیں۔
خدا کا فرمان ہے کہ وہ حُسن ہے اور حُسن سے محبت کرتا ہے۔اب کوئی فتویٰ مزاج بات کرنے کی نیّت سے ہو تو پوچھیں کہ حسن کی تعریف کیا ہے؟حسن کہتے کسے ہیں؟کیونکہ تہذیب حسن بود و باش ہی کو تو کہتے ہیں۔حسن سے نفرت کرتے ہوئے حسن بودوباش کا دامن کیسے تھا ما جاسکتا ہے؟رجز،دف،قرات سب کیا ہے ؟کیا حسن کے بخئے ادھیڑے جاسکتے ہیں؟کسی ایک مظہرِ حسن کو کسی دوسرے مظہرِ حسن سے جدا کیا جاسکتا ہے؟
ہم کیوں بات پر لات کو ترجیح دینے لگے ہیں۔بات بات ہوتی ہے اور فتویٰ فتویٰ ہوتا ہے۔اگر خدا کے ہاں رائے کی کوئی اہمیت نہیں تو اُس قادر مطلق نے ایمان کو بندے کی صوابدید پر کیوں چھوڑا ہے؟مسلط کیوں نہیں کیا؟جب وہ اپنے وجود پر ایمان کے بارے میں صرف ہدایت کرتا ہے تو وہ کیسے بندوں کو بارود کے زور پر باقی بندوں پر اپنا وجود اور اُس کے نام پر اُن کے اپنی مرضی مسلط کرنے کی اجازت دے سکتا ہے؟
مزاج طبیعت سے شاعر،پیشے سے وکیل اور فکرو عمل سے سیاسی کارکن ہیں۔انہوں نے شکستہ جھونپڑوں سے زندان کی کوٹھڑیوں تک ،دلدل کی ماری گلیوں سے اقتدار محل کی راہداریوں تک زندگی کے سارے چہرے دیکھے ہیں ۔وہ جو لکھتے ہیں سنائی اور دکھائی دیتا ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn