دست قاتل سے تقاضائے مسیحائی ہے
شہر میں پھر سے بجوکوں کی پذیرائی ہے
خدا جانے یہ شعر کس کیفیت کے تحت ہوا تھا لیکن وطن عزیز میں بجوکوں کی پذیرائی کا جو منظر آج دہرایا جارہا ہے ہماری یاداشت میں کئی دفعہ کا دیکھا ہوا ہے۔ بجوکا لکڑیوں کے اُس خام سے انسانی پتلے کو کہتے ہیں جو فصل پکنے پر کسان پرندوں سے بچانے کے لئے کھیتوں میں اونچی جگہ پر لگا دیتے ہیں۔ کاشتکاری کا تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے مجھے نہیں معلوم کہ یہ ترکیب کس قدر کامیاب رہتی ہے لیکن میں نے اپنی ہوش میں سیاست کے کھیت میں کئی بجوکے لگے ہوئے دیکھے ہیں اور اس ترکیب کو انتہائی کامیاب بھی ہوتے دیکھا ہے۔
ستر کے انتخابات میں سرحد کے مرد آہن کا بہت شہرہ تھا۔ بڑے بڑے جلوس جلسے، حاضر سروس ذرائع ابلاغ کے صفحے کے صفحے۔ یوں دیکھائی پڑتا تھا کہ انتخابات تو بس ایک رسمی کاروائی ہیں مرد آہن کو اقتدار کے سنگھاسن تک پہنچانے کی۔ مرد آہن کے لہجے میں بھی اقتدار کی گھن گرج رائے دہندگان کے دلوں دماغوں کو چھوتی تھی لیکن انتخابی نتائج نے جو منظر نامہ ترتیب دیا اُس میں مرد آہن ووٹوں کے کھیت پر بجوکا سا لٹکے دیکھائی دیئے۔ سیاست کی چڑیاں سارے کا سارا کھیت چُگ گئیں۔
بعینہ ستر کے بعد ایک دفعہ پھر قرعہ فال سرحد ہی کے ایک مرد ہوا پیما کے نام نکلا۔ آئندہ انتخابات تک پہنچنے میں تحریک استقلال ملک کی اگر پہلی بڑی جماعت نہیں تھی تو اُس کے دوسری بڑی جماعت ہونے پر تو شاید ہی کسی کو شک ہو۔ دھڑا دھڑ شمولیتیں، جلسے جلوس غرض یوں لگتا تھا کہ بھٹو صاحب آج گئے کہ کل گئے۔ انتخابات کا غلغلہ شروع ہوا تو خان صاحب کو باور کرایا گیا کہ بھٹو صاحب کو گرانا ایک آدمی کا کام نہیں سو پہلے مرحلے پر انہیں قومی اتحاد کے سیل رواں میں غرقاب کر دیا گیا۔ وہ لیڈران کرام جنہیں خان صاحب کے خیال میں جھک کر دیکھنے کی ضرورت پڑتی تھی اُن کے شانوں سے شانہ ملا کر کھڑے کر دیئے گئے۔ پھر انتخابات اور اُن کے بعد میں جو بھی ہوا اُس سے یہی کھلا کہ ایک اور بجوکا سیاسی کھیت پر لٹکا رہ گیا ہے۔
بجوکا تو بجوکا ہوتا ہے جس کا مقصد فصل کو اُس کے حقدار کے لئے محفوظ بنانا ہوتا ہے لیکن اگر وہ خود کو فصل کا مالک سمجھنے لگ جائے تو لگانے والے کا کیا قصور؟ جو ہونا تھا وہ ہوا اور جو دیکھایا جارہا تھا وہ نہ ہونا تھا اور نہ ہوا۔
آج بھی مجھے مرشدی حیدر جاوید سید کی طرح یہ خدشہ لاحق ہو گیا ہے کہ اقتدار کی جی ٹی روڈ پر پھر کوئی تودہ آ گرا ہے۔ کوئی روز پہلے تک جو صحن چمن کی شادابی تھی ایک آدھ دن سے اُسی کے ہاتھوں کسی کی امیدیں لٹتی دیکھائی اور سنائی دینے لگی ہیں۔ وہ زبانیں جو مہک آفریں نغمے بکھیر رہی تھیں انگارے اگلنے لگی ہیں۔ ایک کے بعد ایک کہانی آندھی کی طرح خواہشات کے گل و گلزار کے درپے ہے۔ میرا دل کہتا ہے کہ تخت و تاج کی داستان میں کوئی عجیب سا نیا موڑ آنے والا ہے۔ مجھے اس بارے میں کوئی علم نہیں کہ جو نظر آ رہا ہے اُس کے ہو جانے کے بارے میں شدید شبہات پھیل رہے ہیں یا پھیلائے جا رہے ہیں لیکن ایک عمر کے تجربے پر مبنی سیاسی حسیات جو اشارے دے رہی ہیں، وہ ایک یوٹرن کے ہیں۔
مجھے نجانے کیوں محسوس ہو رہا ہے کہ سیاسی کھیت پر ایک اور بجوکا ہمیشہ کی طرح لٹکایا گیا تھا۔ اُسے سارے روایتی داﺅ پیچوں سے اصلی ثابت کرنے کی جملہ کوششیں بروئے کار لائی گئی ہیں۔ یہ اُسی طرح کا منظر نامہ ہے جیسے غلام مصطفی جتوئی، مخدوم امین فہیم ایک فہرست ہے اُن انتہائی قابل احترام راہنماﺅں کی جنہیں بجوکا بنایا گیا یا بنانے کی کوشش کی گئی۔ شیروانیاں الماریوں میں لٹکی رہ گئیں اور ہما ایسے سروں پر زبردستی بٹھا دیئے گئے کہ جن کے بارے میں تجزیہ نگاروں کے دھیان بلیک آﺅٹ کا شکار تھے۔ اب بھی لگتا ہے کہ پرانے شکاریوں کا ہدف شکار اُن کا اپنا ہی شیر تھا۔ ہانکا کرنے کے لئے انہیں ایک گروہ کی ضرورت تھی جس کو پوری احتیاط سے ترتیب دیا گیا۔ وعدہ کیا گیا کہ شکار کی صورت میں انہیں حصہ کثیر دیا جائے گا سو انہوں نے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا۔ تسلی سے شکار کیا گیا اور اب جب حصے بخرے کرنے کی باری آنے کو ہے تو ایک کے بعد ایک کہانی گل و گلزار کے درپے ہے ۔ ۔ ۔اور ختم شد پر پھر ایک بجوکا لٹکا رہ جائے گا۔
مزاج طبیعت سے شاعر،پیشے سے وکیل اور فکرو عمل سے سیاسی کارکن ہیں۔انہوں نے شکستہ جھونپڑوں سے زندان کی کوٹھڑیوں تک ،دلدل کی ماری گلیوں سے اقتدار محل کی راہداریوں تک زندگی کے سارے چہرے دیکھے ہیں ۔وہ جو لکھتے ہیں سنائی اور دکھائی دیتا ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn