پپو مخولیا نت نئے سوالات سمیت میری جان کو آیا رہتا ہے ۔کل بھی ہانپتا کانپتا آیا ،سوال داغا اور یہ جا وہ جا ۔اُسے اپنے ہر سوال کا جواب معلوم ہوتا ہے مجھے تو وہ صرف اپنے بیانیوں میں خواہ مخواہ گھسیٹتا ہے۔
پوچھنے لگا
’’بیگانے چوکیدار کے ہاتھ میں اپنی بندوق تھمانی چاہیے‘‘؟
میں کل سے سوچ رہاہوں کہ یہ بیگانہ چوکیدار کون ہے؟ اپنی گلی سے ہوتا ہوا میرا خیال پوری دنیا کا نقشہ گھوم آیا لیکن کہیں بھی کوئی چوکیدار بیگانہ نظر نہ آیا۔چوکیدار تو چوکیدار ہوتا ہے اُس میں اپنے یا بیگانے کا کیا سوال!دماغ جیسے چوکیدار میں اٹک کر رہ گیا تھا۔
میں وقفے وقفے سے پپو مخولیے کو کوستا اور سوچتا جارہا ہوں۔
چوکیدار کے سب سے بنیادی بات چوکی ہوتی ہے ورنہ اکیلی دار سے بہت کچھ ہو سکتا ہے لیکن چوکیداری کے جملہ فرائض ادا نہیں کئے جاسکتے ۔یہ درست ہے کہ جہاں چوکی ہو گی وہاں دار بھی ضرورہوگی لیکن ضروری نہیں کہ چوکی اور دار مل کر چوکیداری کا حق بھی ادا کریں ۔
ہم نے کئی دار پیشہ چوکیاں دیکھی ہیں کہ دار اور اُس پر جھولتے بدن رہ گئے چوکیوں کا نام و نشان تک باقی نہ رہا ۔اس کے بر عکس ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ چوکیاں اُٹھا لی گئیں،دار بڑھا دی گئی لیکن یا تو خود بخود چوکیداری ہوتی رہی یا چوکیداری کی ضرورت ہی نہیں رہی۔
ہماری کیا پوچھتے ہیں ہم تو چوکیداری کی ضرورت میں زور زبردستی مبتلا کئے گئے ہیں۔ہمارے حصے میں بے بنائی چوکیاں اور دار آئے تھے۔لیکن ہمارے حصے میں لکھے گئے دار مضبوط اور چوکیاں کمزور تھیں۔مضبوط داروں لیکن کمزور چوکیوں نے ہمیں چوکیداری کا حق ادا نہیں کرنے دیا ۔چوکیاں مضبوط کرنے کو ہم آئے دن دار پر جھولتے ہیں لیکن ہمارے زندہ جنازے بھی چوکیوں کی مضبوطی کے ضامن نہیں ہوسکے۔
ہم مختلف الاقسام پپو مخولیوں کے ہتھے چڑھے رہتے ہیں ۔جو سوالات کی پٹاریاں اُٹھائے چوکوں چوراہوں میں گھومتے ہمارے خیالات میں الجھنیں بونے کا تماشا کر تے ہیں ۔لفظوں کے ناگ دو گھڑی کا رقص کرتے ہیں اور پھر آگ پھونکنے لگتے ہیں جس میں چوکیاں جلتی ہیں،داریں سلگتی ہیں اور ہمارے حوصلے راکھ ہو کر فضا کے گدلے پن میں مزید اضافے کا سبب بنتے ہیں۔
چوکی چوکی ہوتی ہے اور دار دار۔
یہ علیحدہ علیحدہ ہوں تو دار رہ جاتی ہے چوکی کا نام و نشان بھی نہیں باقی رہتا ۔دار بڑھا دی جائے تو چوکی سلامت اور نہ صرف سلامت رہتی ہے بلکہ اُس کی سلامتی کسی بھی چوکیداری کی محتاج نہیں رہتی ۔داخلہ بہادر سے درخواست ہے کہ پپو مخولیا ایک فرضی کردار ہے اُسے حقیقت کا رنگ دینے سے باز و ممنوع رہیں
مزاج طبیعت سے شاعر،پیشے سے وکیل اور فکرو عمل سے سیاسی کارکن ہیں۔انہوں نے شکستہ جھونپڑوں سے زندان کی کوٹھڑیوں تک ،دلدل کی ماری گلیوں سے اقتدار محل کی راہداریوں تک زندگی کے سارے چہرے دیکھے ہیں ۔وہ جو لکھتے ہیں سنائی اور دکھائی دیتا ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn