اقتدار کی جی ٹی روڈ پر سمت کا نشان لگا دیا گیا ہے ۔عمومی ٹریفک اس نشان کی راہنمائی میں مقررہ منزل کی طرف رواں دواں ہو چکی ہے ۔ہزاروں ساتھیوں کے ساتھ شمولیتوں کا سلسلہ جاری ہوچکا ہے کل جو اِدھر شامل ہوئے تھے وہ آج اُدھر کا رُخ کر رہے ہیں ۔حیران تو خیبر پختونخواہ سے تحریک انصاف کی ایک خاتون رکن قومی اسمبلی نے کیا ہے جو ٹریفک کے مخالف سمت چلتی ہوئیں نون لیگ میں شامل ہو گئی ہیں.
کہنا اُن کا یہ ہے کہ وہ ضمیر کے اشارے پر اُدھر سے اِدھر آگئی ہیں ۔ ضمیر نامی اشارہ سیاست میں شاید کبھی سنابھی ہوگا تو اب یاد نہیں ۔اُن کی شمولیت کے فیصلے پر کوئی بھی تبصرہ کیا جاسکتا ہے لیکن اس بات کی داد بنتی ہے کہ وہ بہاؤ کے مخالف سمت تیرنے کو نکلی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ہمارے ہاں سیاسی بہاؤ قدرتی نہیں بلکہ مصنوعی طریقے سے بنا یا جاتا ہے ۔ اور یہ بہاؤ بنانے کے لئے چھوٹے چھوٹے ڈیم ہر وقت لبالب رکھے جاتے ہیں۔ اور پھر بوقت ضرورت ان کے مطلوبہ سمت والے گیٹ کھول دیئے جاتے ہیں۔کوئی دیر میں بہاؤ کی سمت اقتدار کی سڑک کے مطابق طے پاجاتی ہے ۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ عموماٌ بہاؤ کا رُخ اوپر سے نیچے کی طرف ہوتا ہے لیکن سیاسی بہاؤ ہمیشہ نیچے سے اوپر کی طرف جاتا ہے ۔اوپر نیچے کون ہے اس کا فیصلہ بھی کم سے کم ہم ایسے کم فہم عوام پر نہیں چھوڑا جاتا ۔
انتخابات قریب آئیں تو سب کچھ ایک ذرا سے غور پر دیکھائی دینے لگ جاتاہے ۔غور ٹریفک کے بہاؤ اور سمت کا لگائے گئے نشان پر بس یہ عقدہ کھل جاتا ہے کہ اوپر کون ہے اور نیچے کون؟ سیانے ایک اور بھی پہچان بتاتے ہیں ۔کہتے ہیں کہ طاقت کا سرچشمہ اگرچہ عوام ہیں لیکن طاقت کا ق، ابھی تک عوام کے قابو میں آکر نہیں دیا ۔بس اس قاف پر دھیان رکھنا چاہیے ۔سیاسی قاف کے بہنے کی سمت سے بھی سیاسی بہاؤ کی خبر لی جا سکتی ہے ۔یہی قاف جب تک کسی قابو میں رہتاہے اس کا اوپر ہونا مسّلم ہوتا ہے لیکن جونہی یہ قاف آپ کے مٹکے سے بہہ نکلے سمجھ لیں کہ آپ کی طاقت نیچے کی طرف روانہ ہو چکی ہے۔
نظریے اور پروگرام کے نعرے لگانے والوں کو سمجھنا ہوگا کہ سیاسی قاف کی بنیادوں پر کھڑا سیاسی محل اس قسم کے روگوں کا متحمل نہیں ہوسکتا ۔یا آپ نظریاتی سیاست کریں یا سیاسی قاف پالنے کا شغل اختیار کریں ۔یہ دونوں کا بیک وقت ہونافی الحال ممکن نہیں ۔یہ طاقت کا قاف ہے اور طاقت کے ساتھ ہی جائے گا ۔اگرچہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں لیکن عوام نظریاتی سے زیادہ جذباتی ہوتے ہیں ۔لہذا طاقت کا قاف اُن کے ہاتھوں سے نکل نکل جاتا ہے ۔اسی لئے ریاستی سطح پر ایسے انتظامات کئے گئے ہیں کہ ایسے افراد ہمہ وقتی حاضر سروس رکھے جائیں جو طاقت کا قاف عوام کے ہاتھوں سے نکل جانے کی صورت میں قابو میں رکھ سکیں تاکہ حسب ضرورت و بمطابق حال اسے عوام کے ہاتھوں میں دوبارہ دیا جاسکے ۔
آج کل طاقت کے قاف کا رُخ کس طرف کو ہے کون نہیں جانتا ؟ لیکن بعض سیانوں کا کہنا ہے کہ طاقت کے چاروں حروف ہی واضح آوازیں رکھتے ہیں ۔اُن کا ماننا ہے کہ شاید اب صرف ایک قاف سے کام نہ چلایا جاسکے کیونکہ سارا گراؤنڈ اپنی جگہ گیند اور بلے کا اصل مقابلہ تو پچ پر ہوتا ہے ۔گیند بھی پچ پر پڑتا ہے اور بلا بھی پچ پر ہی اپنے جوہر دیکھاتا ہے ۔ ایمپائر کا ہاتھ یا انگلی پچ پر ہی کارکردگی کی بنا پر چلتی ہے ۔اورپچ کی حالیہ تاریخ بتاتی ہے کہ طاقت کا قاف ابھی تک عوام کے ہاتھوں سے نکل کر نہیں دیا ۔ پچ پر اقتدار کی جی ٹی روڈ پر سمت کا نشان لگنے کے بعد بھی کئی گذشتہ مقابلوں میں بہاؤ کے مخالف سمت بلے بازوں نے کئی چوکے چھکے لگا رکھے ہیں ۔
مزاج طبیعت سے شاعر،پیشے سے وکیل اور فکرو عمل سے سیاسی کارکن ہیں۔انہوں نے شکستہ جھونپڑوں سے زندان کی کوٹھڑیوں تک ،دلدل کی ماری گلیوں سے اقتدار محل کی راہداریوں تک زندگی کے سارے چہرے دیکھے ہیں ۔وہ جو لکھتے ہیں سنائی اور دکھائی دیتا ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn