Qalamkar Website Header Image

پاکستان میں دو نہیں کئی پاکستان بستے ہیں

ہو سکتا ہے کہ میری یہ رائے مبنی بر حقیقت نہ ہو کہ عمران خان امید سے زیادہ پُر امید ہیں لیکن یہ بات حقیقت ہے کہ پاکستان میں دو نہیں کئی پاکستان بستے ہیں ۔اور ضیا آمریت کے بعد سے ان پاکستانوں میں آئے روز اضافہ بھی ہورہا ہے ۔اس حقیقت کا اطلاق صرف قانون کی عملداری پر ہی نہیں بلکہ ہر اُس میدان پر ہوتا ہے جس میں ریاست ، معیشت یا سماج کا عمل دخل ہے۔وہ یک جہت پاکستانیت جو کھیل کے میدانوں میں یا کسی بھی ہنگامی صورتحال میں ایک مختصر وقفے کے لئے دیکھائی پڑتی ہے وہ اُس مختصر وقفے تک محدود کیوں رہ جاتی ہے ؟ یہ ایک بہت بڑا سوال ہے ۔

یہ سچ ہے کہ ریاست اپنی عمل داری میں آج تک ریاست سے زیادہ ایک قوتِ مقتدرہ کی طرح کا رویہ رکھے ہوئے ہے اور اسی رویے کے نتیجے میں ریاست کی قوت مقتدرہ افراد، اداروں اور گروہوں کے ہاتھوں چیلنج ہوتی آرہی ہے ۔ کسی بھی نوعیت کی طاقت یا قوت جس کسی کے ہاتھ لگی اُس نے ریاست کے اندر اپنی ریاست قائم کرنے کی کوشش کی ۔ان میں سے کئی گروہ اور ادارے کئی مواقع پر ریاستی قوت کو زیر کرنے میں بھی کامیاب ہوئے ۔اور جہاں ریاست زیر ہوتی ہے وہیں ایک اور پاکستان کی بنیاد رکھ دی جاتی ہے ۔

اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ ریاستی قوت مقتدرہ کے حوالے سے خود ریاست کے انتظام وانصرام کے ذمہ داروں کے درمیان ایک کھینچا تانی کی کیفیت روز اول سے جاری ہے ۔اس کھینچا تانی میں کبھی ایک جیتتا ہے اور کبھی دوسرے کو فتح نصیب ہوتی ہے ۔فتح و شکست برطرف لیکن اس کھینچا تانی میں بھی کئی پاکستان خود ریاست کی ناک نیچے تشکیل پاجاتے ہیں ۔یہی پاکستان سیاسی و سماجی سطح پر تقسیم در تقسیم کے عمل کا بھی مزید بڑہاوا دیتے ہیں ۔مجھے کیوں نکالا؟ اور اُسے کیوں نہیں نکالا جیسے بٹوارے آئے دن ہماری سیاست کا حصہ ہیں ۔
دو نہیں ایک پاکستان!

اس بیانیے کی کشش اپنی جگہ لیکن عمران خان کو سمجھنا ہوگا کہ وہ زمانہ گذر گیا جب پاکستان میں دو پاکستان ہوا کرتے تھے ۔اس نئے بیانیے سے شاید عمران خان شہید بھٹو کے مساوات کے نعرے کو نئے پیرہن میں ریمپ پر اتارنا چاہ رہے ہیں ۔لیکن مساوات کا نعرہ جس عہد میں گلی گلی گونجا اور خوب گونجا اُس عہد میں ملک کو معاشی بنیادوں پر ظالمانہ طبقاتی تقسیم کا سامنا تھا اور واقعی وطن عزیز محروم اور مراعات یافتہ طبقات میں بٹا ہوا تھا ۔قومی معیشت کی ترقی کے نام پر گنے چنے بائیس خاندان ملکی وسائل پر قابض تھے ۔صنعتی ترقی کی نئی لہر نے جہاں وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کی بنیاد رکھی تھی وہیں محنت کش طبقات میں بھی صف بندی اپنے عروج پر تھی ۔طبقاتی تقسیم نے شعور کو بھی جلا بخشی تھی ۔ایسے میں بھٹو شہید نے معاشی سائنس سوشلزم کا نعرہ بلند کیا جو اس عہد کی طبقاتی لہر کے عین مطابق تھا ۔اسی لہر نے سال بھر کے اندر پاکستان پیپلز پارٹی کو مغربی پاکستان کی سب سے مقبول اور عوامی جماعت کا مقام دلایا ۔یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی مقبولیت کی بنیاد یقیناًنظریاتی تھی ۔

یہ بھی پڑھئے:  میلے لگیں گے ٹھیلے اُلٹیں گے اور پھر....؟ | حیدر جاوید سید

نظریاتی طور پر اُس عہد کا پاکستان مذہبی اور سیاسی خانوں میں بٹا ہوا تھا ۔سیاست بھی سیدھی سیدھی دائیں اور بائیں بازؤں میں تقسیم تھی ۔کہیں ایشیا سُرخ ہے کے نعرے تھے اورکہیں ایشا کے سبز ہونے پر اصرار تھا ۔بھٹو شہید نے سیاست کو روایتی نعروں سے نکال کر ایک جامع معاشی پروگرام پر مبنی ایک سیاسی منشور اور سماجی نظریے پر اپنی سیاست کی بنیادیں استوار کیں ۔یہ تبدیلی قومی سیاست میں ایک خوش آئندپیش رفت کے طور پر قبول عامہ کے درجے پر فائز ہوئی ۔بھٹو شہید در حقیقت قومی وسائل کی منصفانہ تقسیم پر طبقاتی مصالحت چاہتے تھے ۔اُنہوں نے اس سیاسی فلسفے پر کتنا عمل کیا اور کس حد تک ناکام ہوئے یہ الگ بحث ہے لیکن اس امر سے انکار آج بھی ممکن نہیں انہوں نے سماج میں سیاسی شعور کے پھیلاؤ میں اہم ترین کردار ادا کیا ۔

آج عمران خان کو جو پاکستان درپیش ہے وہ سماجی ، سیاسی اور معاشی اعتبار سے کئی پاکستانوں میں تقسیم ہے ۔وفاق میں نئی اکائیوں کی آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔مذہبی طبقہ انتہا پسندی اور معتدل مزاجی سمیت کئی فرقوں اور ذیلی فرقوں میں تقسیم ہے ۔ایک پاکستان ریاستی اداروں پر مشتمل ہے اور اُس کے مقابلے میں کئی پاکستان مافیازاور مختلف البنیاد متشدد تنظیموں کی صورت میں موجود ہیں ۔ایک پاکستان نمائندہ جمہوریت کی شکل میں ایوانوں میں نشستن، گفتن اور برخاستن میں محو ہے اور وہ بھی پاکستان ہے جو شاہراہوں اور چوکوں پر دھرنے دے کر بیٹھا ہوا ہے۔ ایک پاکستان جاتی امروں، بنی گالوں اور کلفٹنوں میں رہائش پذیر ہے جبکہ اُس پاکستان کی طاقت کا سرچشمہ شکستہ جھونپڑوں اور بدبو دار بستیوں میں بس رہا ہے ۔ان دو پاکستانوں کے درمیان درجنوں چھوٹے چھوٹے پاکستان اپنی اپنی سیڑھی اُٹھائے ایک ذرا اور اوپر کے چکر میں دھکم پیل میں مبتلا ہیں ۔

یہ بھی پڑھئے:  سوشل میڈیا اور سیاست

خان صاحب کو کوئی تو بتائے کہ سماجی یکجہتی کے بغیر کسی بھی سیاسی وحدت کا تصور نا ممکن ہے ۔ اور سماجی یکجہتی کسی متفقہ عمرانی تصور کی بنیاد پر ہی ممکن ہوتی ہے ۔ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ جس نظریہ پاکستان کو ریاست کا بنیادی عمرانی نکتہ قرار دیا جاتا ہے اُس کے بارے میں آج تک جتنے منہ ہیں اتنی ہی تشریحات اور توجیحات ہیں ۔ابھی تک یہ بحث کسی نتیجے پر نہیں پہنچی کہ یہ ریاست اسلام کے لئے قائم کی گئی تھی یا بر صغیر کے مسلمانوں کے لئے ۔قرارداد مقاصد سے لے کر جسٹس منیر کی رپورٹ تک ، نظام مصطفی کی تحریک سے لے کر ۷۳ کے آئین تک پاکستان کے نظریاتی وجود میں تقسیم در تقسیم کا عمل جاری و ساری ہے ۔خان صاحب بتانا پسند فرمائیں گے کہ وہ جس ایک پاکستان کا بیڑہ اُٹھانے جار ہے ہیں ریاست کے بنیادی نظریے کے خد و خال کیا ہوں گے ؟سینکڑوں ہزاروں حصوں میں بٹے پاکستانی سماج کی یکجہتی کا نظریہ کیا ہوگا ۔ غیرسیاسی ریاستی اداروں اور سیاست کی تقسیم کو ترتیب میں لانے کے لئے اُن کا لائحہ عمل کیا ہوگا ۔ سماجی ، سیاسی اور معاشی انصاف کے اہداف کے حصول کے لئے وہ کس فلسفے اور سائنس سے استفادہ کریں گے ۔

حالیہ بلاگ پوسٹس

بدبو دار نظام اور ہم عوام

پچھلے کُچھ دنوں سے احتساب عدالت کے جج ازشد ملک کے حوالے سے جو باتیں سُننے کو مل رہی ہیں س انصاف سے اعتبار ہی اُٹھ گیا ہے مُنہ کھُلے

مزید پڑھیں »
فائل فوٹو - حیدر جاوید سید

آصف علی زرداری کی گرفتاری

جناب آصف علی زرداری جعلی اکاؤنٹس کے مقدمہ میں اسلام آباد ہائیکورٹ سے عبوری ضمانت خارج کئے جانے اور عدالت کے ہی حکم پر گرفتار کر لئے گئے۔قومی اسمبلی میں

مزید پڑھیں »