Qalamkar Website Header Image

سیاسی پارلرز

میں نے پپو مخولیے سے پوچھا کہ انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے یہ بے یقینی کیوں ہے ؟ وطن عزیز میں یہ بے یقینی بھی جمہوریت کا حسن ہے ۔پپو نے فلسفیانہ انداز سے خلا میں گھورتے ہوئے جواب دیا ۔ بے یقینی اور حسن!بات میرے پلے نہیں پڑی تھی. جو امید سے ہیں وہ بروقت انتخاب چاہتے ہیں اور جنہوں نے انتخاب کروانے ہیں وہ ابھی ہل من مزید سے ہیں۔پپو کے جواب نے میری الجھن کو مزید بڑھا دیا ۔

یہ مسئلہ دانش و بصیرت کی مدد سے حل ہونے کا نہیں نہ ہی کسی تجزیے سے اس کا کوئی سرا ہاتھ نہیں آئے گا ۔پپو قدرے سنجیدہ ہونے کی کوشش کر رہا تھا ۔کرسیوں کے پیچھے کھڑے کھلاڑیوں پر غور کرو اور میوزک کے بٹن پر رکھی انگلی پرٹکٹکی باندھے رکھو تمہیں صورت حال سمجھ آجائے گی ۔ تو کیا پھر میوزیکل چیئرز کا کھیل شروع ہونے جا رہا ہے ؟ شروع ہونے نہیں جارہا میرے عزیز شروع ہو چکا ہے ۔سینٹ کے انتخاب میں اُس کی فل ڈریس ریہرسل بھی ہو چکی ۔اگلا مرحلہ نگرانوں کا انتخاب ہے جس کے طے پانے کے لئے نجانے کتنے مرحلوں میں سے دہول اُڑاتے گذرنا پڑے گا۔اپوزیشن شاہ صاحب نے تو پہلے ہی بتا دیا ہے کہ نگرانوں پر اتفاق رائے کارے دشوار ہے ۔اور اگر گیند بابا رحمتے کے کورٹ میں چلی گئی تو جمہوریت کا حُسن مزید نکھر کر سامنے آجائے گا ۔

پپو آج پہیلیاں بجھوانے کے موڈ میں تھا ۔ لیکن پپو اس میں کہیں سے جمہوریت کا حسن بھی تو نکالو۔ دیکھو میرے بھائی گذشتہ دس سال کی کھینچا تانی میں جمہوریت بے چاری کیا کی کیا ہو کر رہ گئی ہے ۔اس کے رُخ روشن پر بد عنوانی ، عدم برداشت، محاذ آرائیاں، دھرنے اور نجانے کیا کیا کیل مہاسے نکل آئے ہوئے ہیں ۔جبکہ ماننے والوں نے اب مان لیا ہے کہ اصل میں جمہوریت حسین تو ہے لیکن یہ جس کسی کے ساتھ بیاہی گئی اُس نے اپنے داغ دھبے اس کے چہرے پر لگا دیئے ہیں ۔سو ماننے اور کرنے والوں کا کہنا ہے کہ ضروری ہو گیا ہے کہ جمہوریت کو کچھ سیشن بیوٹی پارلر میں لگانے پڑیں ۔جہاں اس کے حُسن کی از سر نو بحالی پر کام کیا جائے گا ۔ اور اس ضمن میں بابا رحمتے نے کام کا آغاز بھی کر دیا ہے ۔

یہ بھی پڑھئے:  ادھوری جنس کے جوان لاشے

یہ جو داغ دھبے ہیں یہ انتخابی عمل ہی میں دُھل نہیں جاتے؟ بظاہر تو یہی نظر آتا ہے کہ شاید دُھل گئے ہیں لیکن جمہوری جلد کی تہوں میں بیٹھ رہتے ہیں اور پھر آہستہ آہستہ سطح پر آنے لگتے ہیں لہذا انتخابی عمل میں جلد کی تہہ بہ تہہ صفائی کا انتظام ضروری ہو جاتا ہے ۔ پپو لیکن یہ صفائی کا عمل تو کئی بار ہو چکا ہے اس پر بھی جمہوریت کا حُسن ہر آئے روز خطرے میں پڑا رہتا ہے . میرے عزیز اگر بچے جمورے آپس کی کھینچا تانی میں احتیاط سے کام لیں اور صرف جمہوریت کا حُسن برقرار رکھنے کے حوالے سے کوئی میثاق جمہوریت جیسی میک اپ کٹ کا ہمہ وقتی بند و بست کر کے رکھیں تو کسی پارلر اور بابا رحمتے کی ضرورت نہ پڑے ۔اگر یہ سب  طے کر لیں کہ انگلی کے بجائے عوام کے ہاتھوں اور بازؤں پر انحصار کیا جائے گا تو بھی میوزیکل چیئرز کی گنجائش نہیں رہتی ۔لیکن یاد رکھو کہ بر صغیر میں یہ جماعت بازی کا آغاز شاہی چھتری کے سائے میں ہوا تھا ۔کئی لوگ تو شاہی تمام ہونے پر اس چھتری کے نیچے سے نکل آئے لیکن ایک طبقہ ہے جو وہی چھتری تھامے شاہی ترانوں کی باز گشت میں تخت کی طرف ڈبل مارچ کے نشے سے نہیں نکل پارہا ۔اور یہی طبقہ ہے جو ہمہ وقت سیاسی پارلرز میں جمہوریت کے حُسن کے نام پر بے یقینیوں پر میک اپ سجاتا رہتاہے ۔ 

حالیہ بلاگ پوسٹس