پپو مخولئے کو زار و قطار روتے دیکھ کر جیسے ہنسنے مسکرانے پر سے ایمان ہی اُٹھ گیا ۔وہ اس قدر مسلسل روئے جارہا تھا کہ رونے کی وجہ پوچھنے کا موقع ہی نہیں بن پا رہا تھا ۔یہاں تک کہ میری اپنی آنکھوں میں نمی اُتر آئی۔مجھے پاس کھڑا دیکھ کر شاید اُسے خود ہی کوئی خیال آیا ۔کہنے لگا کہ جس سماج میں پھولوں سے معصوم بچوں کی زندگیاں اور حرمتیں محفوظ نہ ہوں وہاں ہنسنے مسکرانے پر پابندی عائد ہونی چاہیے۔مجھے اُس سے اختلاف کرنے کا کوئی جواز نہ مل پا رہا تھا ۔
پپو ہم کیوں حد سے زیادہ گرِگئے ہیں؟
صرف پپو کو نہیں میں بات بڑھا کر خود کو بھی تسلی دینا چاہ رہا تھا ۔
کوئی دیر کو پپو نمناک آنکھوں سے خلا میں گھورتا رہا اور پھر بولا کہ ہم گرِے نہیں بلکہ ہم کبھی اُٹھے ہی نہیں تھے ۔اور ہم کیا اُٹھتے ہمیں اُٹھنے ہی نہیں دیا گیا ۔
کیا مطلب؟ میں نے پوچھا
دیکھو ! کبھی کسی اختیار یا اقتدار والے نے ہم سے کبھی انسانوں والا سلوک نہیں کیا ۔جس ہاتھ میں جب بھی جس طرح بھی کوئی ڈنڈا آیا اُس نے ہمیں بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکنا شروع کر دیا ۔ہم کبھی مشرق،کبھی مغرب ،کبھی شمال اور کبھی جنوب کی طرف ہانکے گئے ۔اور اس ہانکا ہانکی دوران جس کسی نے سوال جواب کی جرات کی اُسے کبھی سولی پہ کھینچا گیا اور کبھی ٹکٹکی پر سجایا گیا ۔ہمیں یہ باور کرایا گیا کہ ہم سب گنہ گار ہیں جب تک اپنی بے گناہی ثابت نہ کر دیں ۔کہیں ناکے ہیں اورکہیں تلاشیاں ،کہیں گمشدگیاں ہیں اورکہیں پولیس مقابلے ۔نہ زندگی پر ہمارا ایمان سلامت رہنے دیا گیا ہے اور نہ ہی غیرت و حمیت پر ۔
پپو ہمارے ساتھ یہ کیوں کیا جاتا رہا ہے بلکہ کیا جا رہا ہے ؟ میں نے ایک اور سوال داغا۔
اس دھرتی کا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں صدیوں بدیسی شاہوں کی حکومتیں قائم رہی ہیں جن کا واحد ہدف حکمرانی اور صرف حکمرانی تھا ۔ہم کبھی مذہب اور کبھی قومیت کے نام پر ان شاہیوں کی تابعداری پر آمادہ رکھے گئے ۔جبکہ اُن شاہیوں کے نزدیک ہم انسان نہیں رعایا تھے رعایا جس کا ایک ہی فرض ہوتا ہے اندھی اطاعت ، غیر مشروط تابعداری ۔جو اطاعت اور تابعداری سے گریز پا ہوتا ہے وہ گنہ گار ہوتا ہے غدار ہوتا ہے ۔انسان اپنے خمیر میں آزادی پسند ہے ،وہ کیوں ،کیا اور کیسے کے ساتھ جنم لیتا ہے ۔غلامی اور سوال جواب پر پابندی کو برداشت کرنے کے لئے اُسے انسانیت سے دستبرداری اختیار کرنا پڑتی ہے ۔اور جبر شاہیوں میں آزادی اور سوال جواب سے دستبرداری اختیار نہ ہو سکے تو زندہ رہنا مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہوتا ہے ۔ہم جو زمانوں جبر شاہیاں سہتے زندہ رہے نسل در نسل انسانیت سے دستبرداری اختیار کئے رہے ۔ہم سیاسی طور پر آزاد بھی ہوگئے لیکن انسانیت سے دستبرداری ہماری گھٹیوں میں راسخ ہو چکی ہے ۔ریاست انسانی حقوق کے لفافے میں ہمیں جو کچھ بھی دیتی ہے ہم اُسے کھول کے بھی نہیں دیکھتے ۔ریاست چھوڑتی ہے تو ملاں اور پیر ہم میں عقیدہ اور ایمان ڈالنے کے چکر میں ہمارے احساس عدم انسانیت پر مزید کوڑے برساتے ہیں ۔کوئی بھی ہمیں انسان بنانے کی کوشش نہیں کرتا ۔کوئی بھی انسانیت سے دستبرداری کا رویہ ترک کرنے میں ہماری مدد نہیں کرتا ۔ضروری ہے کہ ہمیں انسان مانا جائے اور یہ تسلیم کیا جائے کہ انسان خطا کا پتلا ہے گناہوں اور جرائم کی سزا دی جائے ہمیں بھیڑ بکریوں کی مانند ہانکے جانے سے انکار کی سزا نہ دی جائے ۔
اب زار و قطار رونے کی میری باری تھی ۔
مزاج طبیعت سے شاعر،پیشے سے وکیل اور فکرو عمل سے سیاسی کارکن ہیں۔انہوں نے شکستہ جھونپڑوں سے زندان کی کوٹھڑیوں تک ،دلدل کی ماری گلیوں سے اقتدار محل کی راہداریوں تک زندگی کے سارے چہرے دیکھے ہیں ۔وہ جو لکھتے ہیں سنائی اور دکھائی دیتا ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn