پھپھو بصیرت کا کہنا ہے کہ باسٹھ خان تریسٹھوی کے خلاف حالیہ گُلالئی گیٹ سکینڈل زمین نہیں پکڑ سکا اور اس کی وجہ مرکزی خیال میں موجود کئی تباہ کُن جھول ہیں۔اُن کا ماننا ہے کہ باسٹھ خان تریسٹھوی کے پاس شارٹ میسجز سے کہیں بڑھکر مواقع دستیاب ہیں لہذا ایسی بے ضرر نوعیت کی بد کرداری کا الزام اُن کے شان شایان نہیں ۔پھپھو کا خیال ہے کہ یہ درحقیقت کوئی سازش نہیں لیکن کسی بڑے کی جانب سے کسی بڑی سازش کی طرف واضح اشارہ ضرور ہو سکتا ہے۔پھپھو کہتی ہیں کہ ملک کے بڑے اکثر بڑائی کے شوقین امیدواروں کو اس قسم کے اشارے دیتے رہتے ہیں اور ان اشاروں کا مقصد امیدواروں کو بڑائی کی دوڑ میں شاہراہ اقتدار پر بڑوں کی جانب سے نصب اشاروں کی یاد دہانی ہوتا ہے ۔
ہمارے ہاں اقتدار عموماٌ دو چہرے پہنے رکھتا ہے اور دوسرا چہرہ ہمیشہ اصلی چہرے کو عام نگاہوں کی تاڑا تاڑی سے بچانے کے لئے ہوتا ہے۔دوسرا چہرہ اگرچہ ایک محنت شاقہ سے تصویر کیا جاتا ہے لیکن اُس چہرے کی حقیقت تصویر سے کبھی بڑھ کر نہیں دیتی ۔لیکن بعض اوقات کسی اتفاقی واقعے یا کسی غیر مقامی مغالطے کی وجہ سے دوسرا چہرہ سانس لینے لگ جاتا ہے ۔یہی سانس لینا اُس دوسرے چہرے کے لئے مصیبت کا باعث بن جاتا ہے۔پہلے مرحلے میں دوسرے چہرے کے رنگ اکھڑنے لگتے ہیں ، پہچان دھندلی پڑنے لگتی ہے اور پھر کوئی تیسرا دوسرے کی جگہ لینے لگ جاتا ہے ۔چچا دانش کے خیال میں میاں نا اہل شریف سے بھی سانس لینے کی غلطی ہوئی تھی ۔اور میاں صاحب تو سانس بھی غیر ملکی کرنسی میں لیتے ہیں لہذا اُن کے رنگ دیکھنے میں کتنے ہی پکے کیوں نہ ہوں مقامی سکرین پر جم کے نہیں دیتے سو جلدی اکھڑ جاتے ہیں۔
یہ تیسرا بھی ہمارے ہاں اقتدار کے کھیل میں بہت عجیب چہرہ ہوتا ہے ۔دوسرے کی موجودگی میں اس کے خد و خال اور رنگوں پر بڑی محنت ہوتی دیکھائی پڑتی ہے۔اسے سو سو طرح سے سنوارا جاتا ہے ۔جہاں کہیں دوسرے کا رنگ بگڑتا ہے تیسرے کا رنگ وہیں سے نمایاں ہونے لگتا ہے لیکن اس کھیل میں اقتدار کی راہداریوں میں پہلے اور دوسرے کی آنکھ مچولی جاری رہتی ہے ۔دوسرا عموماٌ جان بوجھ کے پکڑا جاتا ہے سو تیسرا کھیل میں داخل ہونے سے محروم رہتا ہے لیکن اس محرومی کے باوجود اُس کی ہمت بندھی رہتی ہے کہ ادھر کہیں دوسرے نے پکڑائی دینے سے انکار کیا اور ادھر وہ کھیل میں داخل ہوا ۔بعض اوقات خود تیسرے چہرے کے بھی کئی امیدوار ہوتے ہیں اور اُن بے چاروں کو دوسرا ہونے سے پہلے تیسرا رہنے کے لئے اچھی خاصی جد و جہد کرنا پڑتی ہے ۔
چچا دانش کا خیال ہے کہ ابھی تک ہمارے ہاں تیسرے کا انتخاب مکمل نہیں ہوا لیکن باسٹھ خان تریسٹھوی کو یقین ہے کہ اس سارے کھیل میں اُس کے علاوہ تیسرا ہونے کا کوئی بھی اہل نہیں ۔بس اقتدار کی سانپ سیڑھی میں اپنے حصے اور کردار کے حوالے سے یقین بذات خود بہت بڑی کمزوری ہے ۔چچا دانش پھپھو بصیرت کے ساتھ متفق ہیں کہ گُلالئی گیٹ سیکینڈل باسٹھ خاں تریسٹھوی کو تیسرا ہونے کے یقین سے ہمیشہ کے لئے باز و ممنوع رہنے کا اشارہ ہے ۔
لیکن پپو مخولیا چچا دانش اور پھپھو بصیرت کے ساتھ متفق نہیں ۔اُس کا ماننا ہے کہ گُلالئی گیٹ جیسے سکینڈل ہمارے ملک میں منفی کے بجائے مثبت اثرات کے حامل ہوتے ہیں۔اُس کا کہنا ہے کہ جیسے کسی شخص کا بدعنوان ہونا اس بات کا ثبوت ہوتا ہے کہ وہ امیر اور دولت مند ہے اسی طرح کسی پر بد کرداری کا الزام یہ دلالت کرتا ہے کہ وہ شخص بڑا آدمی ہے کیونکہ چھوٹے لوگوں پر الزام نہیں لگتے بلکہ انہیں حوالۂ پویس کیا جاتا ہے ۔خالی خولی الزام ہمیشہ بڑے لوگوں پر لگتے ہیں۔کسی ضرورت مند کی ضرورت بڑا یا دولت مند شخص ہی پوری کر سکتا ہے شریف آدمی بے چارہ تو نصیحت کر سکتا ہے یا مشورہ ہی دے سکتا ہے ۔
مزاج طبیعت سے شاعر،پیشے سے وکیل اور فکرو عمل سے سیاسی کارکن ہیں۔انہوں نے شکستہ جھونپڑوں سے زندان کی کوٹھڑیوں تک ،دلدل کی ماری گلیوں سے اقتدار محل کی راہداریوں تک زندگی کے سارے چہرے دیکھے ہیں ۔وہ جو لکھتے ہیں سنائی اور دکھائی دیتا ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn