Qalamkar Website Header Image

مابعد الشریفیات | مجتبیٰ شیرازی

خواب دیکھنے اور خواب جینے میں بہت فرق ہوتا ہے لیکن وطن عزیز کی اکثریت تو خواب دیکھنا شروع ہی کرتی ہے تو بجلی داغ مفارقت دے جاتی ہے سو بینائی کی اسکرین پر امید و بیم کا جھٹپٹا رہ جاتا ہے اور دوسری طرف چند سینکڑوں کی اقلیت ہے کہ تعبیریں جیتی ہے اپنی بھی اور محلے والوں کی تعبیریں بھی اپنے وجودوں کے مقدر میں خود ہی لکھ لیتی ہے۔عجیب واردات ہے کہ آج کل اُسی سینکڑہ اقلیت کی تعبیروں کے کچے چٹھے کھل رہے ہیں۔اور المیہ یہ ہے کہ تخت کے نیچے جاروب کشی کی جارہی ہے جبکہ دولت پناہ تخت پر موجود ہیں۔رہے نام اللہ کا!

اس ملک کے عام آدمی کو شاید یہ بھی خبر نہ ہو کہ دنیا کے نقشے پر پاناما کہاں اور کتنا واقع ہے لیکن اس ملک کے ہر آدمی کو یقین ہے کہ پاناما اقتدار پر موجود خداوندانِ نخوت و جبر کے حساب کتاب کا نام ہے۔اگر شریفانہ تعبیر و تشریح کے مطابق اس ایک بین الاقوامی سازش بھی مان لیا جائے تو عوام ان جملہ سازشی عناصر کے شکر گذار ہیں کہ جن کی کوشش سے انہیں احوال واقعی سے آگاہی کی سبیل ہوئی ہے ۔کیوں؟کیسے اور کہاں سے ؟جیسے سوالات برطرف لیکن ہمیں یہ تو پتہ چلا کہ ہمارے حکمران ہمارے خوابوں کی حد سے زیادہ امیر ہیں ۔ہمیں یہ بھی علم ہوا کہ ہمارے درد میں شرکت کے ڈھنڈورے پیٹتے ان حکمرانوں کاتاج و تخت کے سوا اپنے جغرافیے میں کچھ بھی نہیں رکھا ہوا ۔اُن کے بال بچے اور مال و دولت سب اس ملک کے بھوکے ننگے عوام کی دسترس سے ہزاروں میل دور محفوظ ہاتھوں میں ہیں۔کسی بھی مقامی سانحے کی صورت میں اُن کے جہاز ائیرپورٹس پر تیار کھڑے ہیں جو انہیں آن واحد میں جملہ مضر اثرات سے محفوظ فضاؤں کی جانب لے اُڑیں گے

ہر حکمران اپنے اپنے وقت میں اس ملک کی معاشی صورت حال کے دگرگوں ہونے کا رونا روتا ہے۔متمول افراد پر ٹیکس ادا نہ کرنے کا گلہ کرتا ہے۔غیر ملکی سرمایہ کاری کے سکڑتے ہوئے حجم کی خبر دیتا ہے اور یہ دعویٰ کرتا ہے کہ ان جملہ مسائل کا حل اُس کے پاس موجود ہے اور اس حل کے نفاذ کے لئے بہترین انسانی وسائل بھی اُسے دستیاب ہیں لیکن جب ڈبہ کھُلتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ موصوف خود ٹیکس چوری کے مرتکب رہے ہیں،کہ موصوف خود اس ملک کا سرمایہ بیرون ملک اسمگل کرنے میں مبتلا ہیں اور خود موصوف اور اُن کے خاندان کا سارا سرمایہ دیگر ممالک میں لگا ہوا ہے۔اور پکڑے جانے پر ہر کسی کا یہی دفاع ہوتا ہے کہ یہ ہمارے ابا کے خون پسینے کی کمائی ہے ۔ بھائی ابا کے خون پسینے کی کمائی خود اپنے ملک میں کیوں نہیں پھلتی پھولتی اور مہربانی فرما کر ابا کے خون پسینے کا برانڈ اور میک تو بتائیں کہ یہاں تو خون کی قیمت میں چار سانسیں اور پسینے کے مول ادھورے خواب بھی میسر نہیں آتے۔

یہ بھی پڑھئے:  ہم محنت کش عورتیں | شاہانہ جاوید

عدالت عظمیٰ کے سامنے معلوم ذرائع سے زیادہ شریف خاندان کی دولت کا سوال زیر سماعت ہے لیکن میرے سامنے اور ہر پاکستانی کے سامنے یہ سوال زیر غور ہے کہ ہم عوام اور ہمارے حکمرانوں کے درمیان سانجھا کیا ہے؟ان کا نفع نقصان،دُکھ درد، بال بچے سب خوش حال ملکوں میں محفوظ اور متمول زندگیاں بسر کرتے ہیں یہ معمولی سے معمولی بیماری کی صورت میں علاج کروانے اُن ممالک کی جانب اُڑ جاتے ہیں۔ان کی زندگیوں کے دُکھ سُکھ، عیدیں شب براتیں، بیاہ شادیاں سب کچھ اس ملک سے تعلق نہیں رکھتے ۔نہ انہیں اس ملک کے تعلیمی اداروں سے کوئی غرض ہے اور نہ ہی ہسپتالوں اور دواخانوں سے کوئی مطلب۔انہیں تو شاندار گاڑیوں کے بہترین شاک آبزرور اس ملک کی سڑکوں کا حال بھی پتہ نہیں چلنے دیتے اور جہاں شاک ہارتے ہوں یہ ہیلی کاپٹروں اور جہازوں میں پُھر سے اُڑتے پہنچ جاتے ہیں تو ان حالات میں انہیں ہماری لوڈ شیڈنگوں،بیماریوں میں ہسپتالوں کی حالت اور تعلیمی اداروں کی پسماندگی کی خبر کیوں کر ہوگی؟اتنی ڈھیر ساری دولت کے بعد انہیں ہمیں درپیش آٹے دال کے بھاؤ کی خبر کیوں کر ہو گی؟

کیا حکمرانوں اور محکوموں کے حالات میں زمین آسمان سے بھی کشادہ فرق خود ایک بد عنوانی نہیں۔کیا ایک غریب ملک میں اتنی وسیع و عریض خوشحالی کا مالک ہونا بذات خود ایک بہتبڑا سوال نہیں اور پھر اُس ملک پر حکمرانی کا شوق خود وضاحت طلب نہیں۔ستر برس ہونے کو آتے ہیں پانی اور بجلی جیسے بنیادی مسائل ابھی تک بحرانی کیفیت کا شکار ہیں تو ان حکمرانوں نے اس ملک کے ساتھ کیا کیا ہے؟ملک کا غریب ہوتے جانا اور حکمرانوں کا دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کرتے جانا بذات خود ایک بہت بڑا سوال نہیں۔اب ہمیں سازش سنائی جارہی ہے۔اور مابعد الشریفیات زمانے سے ڈرایا جا رہا ہے لیکن ہم جانتے ہیں کہ زمانہ ما قبل الشریفیات ہو یا ما بعد الشریفیات ہمارے حالات جب ہی بدلیں گے جب حکمرانی آداب میں سے اس چوری چکاری کا خاتمہ ہوگا۔اور ہمیں امید کرنے دو کہ پاناما اس خاتمے کی طرف پہلا قدم ہے ۔

حالیہ بلاگ پوسٹس