جے آئی ٹی رپورٹ،میاں اینڈ کو کا واویلہ اور اس رپورٹ کے اثرات اور نتائج ،کون پاکستانی ہے جو ان موضوعات سے لاتعلق ہو۔جے آئی رپورٹ نے اس پوری داستان کو اپنے منطقی انجام کے دروازے پر لا کھڑا کیا ہے اور عدالت عظمیٰ ۱۷ جولائی سے اس انجام سے پردہ اُٹھانے کی طرف بڑھے گی ۔ہر دو فریقین سپریم کورٹ رولز کے مطابق اس رپورٹ پر اپنے اپنے اعتراضات داخل کر یں گے ۔یہ اعتراضات تحریری بھی ہو سکتے ہیں اور تقریری بھی لیکن عدالت عظمیٰ نے واضح کر دیا ہے کہ معروضات کا موضوع صرف اور صرف جے آئی ٹی رپورٹ ہو گی اور جو ما قبل کہا جاچکا ہے اُسے دہرانے کی اجازت نہیں ہو گی یعنی سیدے سبھاؤ داستان سنائی جائے گی زیب داستاں نہیں ۔
میرے خیال اب آئندہ ہونے والے ساری کاروائی تکنیکی ہو گی اور اس کے حوالے سے نونی بھڑکیں ویسے ہی غیر متعلق اور بے بنیاد ہوں گی جیسے میاں صاحب اینڈ فیملی کی تقاریر اور بیانات جو موجود کاروائی سے قبل جاری کئے گئے جس میں ہر معاملے کے بارے میں ریکارڈ اور ثبوت ہونے کے دعوے کئے گئے تھے لیکن جب کاروائی شروع ہوئی تو وہ تمام دعوے نقش بر آب ثابت ہوئے اورقطری خطوط جیسی نت نئی کہانیاں اختراع کر کے پیش کرنا پڑیں۔جے آئی ٹی رپورٹ کے جو مندرجات عام ہوئے ہیں اُن کے مطابق یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس رپورٹ کا اہم ترین موضوع وہ شہادتیں ہیں جن کے ذریعے میاں اینڈ کو کے ہر گاہ بدلتے دفاعی موقفوں کو جھٹلایا گیا ہے ۔اور ان موقفوں کے جھٹلائے جانے کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ لندن کے فلیٹس جن آف شور کمپنیوں کی ملکیت ہیں اُن کی اپنی ملکیت کے حوالے سے پانامہ لیکس میں کئے گئے انکشافات کی صحت بلا تردید ثابت ہوگئی ہے ۔
بنیادی طور پر اس مقدمے میں استغاثہ کے ذمے کچھ بھی ثابت نہیں کرنا تھا ۔کیونکہ یہ امر مسلمہ تھا کہ لندن کی جائیدادوں کی ملکیت میاں اینڈ فیملی کے نام سے موسوم آف شور کمپنیوں کی تھی ۔سوال صرف یہ تھا کہ یہ کمپنیاں جن کے ناموں پر تھی کیا اُن کی ہی تھیں یا صرف اُن کے نام استعمال کئے گئے تھے ۔اس بارے میں ایک موقف پانامہ لیکس کے ذریعے سامنے آیا تھا جبکہ ایک سے زیادہ موقف وقتاٌ فوقتاٌ میاں اینڈ فیملی نے اپنائے تھے ۔پانامہ لیکس کے انکشافات سے قبل بھی ان جائیدادوں کے حوالے سے سوالات اُٹھتے رہے میاں اینڈ فیملی اس کے بارے میں حسب الوقت جوابات دیتے رہے ۔ان جوابات دینے والوں میں سارا خاندان ہی شامل تھا ۔آخری جوابات وہ تھے جو میاں صاحب نے بذات خود مختلف مواقع پر دیئے اور وہ مواقع اپنے مقامات اور میاں صاحب کے سرکاری مرتبے اور خاندان کے سربراہ ہونے کے حوالے سے اگرچہ بہت اہمیت کے حامل تھے لیکن مرتبہ اور مقام برطرف وہ جملہ جوابات نہ صرف یہ کہ خاندان کے باقی افراد کی جانب سے دیئے گئے جوابات سے مختلف تھے بلکہ ہر جواب خود اپنی طرف سے دیئے گئے دوسرے جواب سے مختلف تھا۔
کمال کی بات یہ ہے کہ عدالتی کاروائی کے دوران جملہ جوابوں سے مختلف موقف قطری خط کے حوالے سے اپنایا گیا ۔عدالتی بینچ کے دو اراکین نے اس تضاد بیانی کا نوٹس لیا میاں اہل و عیال کے جملہ جوابات کو مسترد کرتے ہوئے یہ قرار دیا کہ اس مقدمے کا جملہ مواد یہ ثابت کرتا ہے کہ میاں صاحب اور کچھ ہوں تو ہوں صادق اور امین نہیں لہذا آئین پاکستان کی دفعہ ۶۳ کے تحت وہ عوامی نمائندگی کے اہل نہیں ہیں ۔لیکن عدالتی بینچ کے باقی تین اراکین جے آئی ٹی کا فیصلہ کیا ۔
اب جے آئی ٹی کا کام صرف اتنا تھا کہ وہ دیکھے کہ اس قضیے کے حوالے سے میاں اینڈ فیملی ہی کا کون سا موقف درست ہے لہذا اُن کی تحقیقات کا زور اُن جملہ بیانات کی صحت اور عدم صحت کا تجزیہ تھا جو خود یہ خاندان اور اُس کے افراد مختلف مواقع اور مقامات پر اس حوالے سے دیتے رہے ۔یہ کوئی ایسا مشکل کام نہیں تھا ۔ان جملہ بیانات کے باہمی تضاد خود دلالت کرتا تھا کہ جھوٹ بولا جا رہا ہے بس یہ دیکھنا تھا کہ جھوٹ کون بول رہا ہے اور اُس جھوٹ کو ثابت کرنے والا مواد اکٹھا کرنا تھا ۔جے آئی ٹی اس خاندان کے ایک ایک موقف کی تفتیش کی تو نتیجہ یہ نکلا کہ یہ سب جھوٹ بول رہے تھے ۔مثلاٌجے آئی ٹی نے جب متحدہ عرب امارات کی حکومت سے رابطہ کیا تو پتہ چلا کہ وہاں گلف اسٹیل کے دبئی سے جدہ منتقلی کا کوئی ریکار ڈ نہیں ۔یہ خود میاں صاحب کی جانب سے قومی اسمبلی کے فلور سے قوم سے خطاب کے ذریعے پیش کئے گئے موقف کا اہم ترین نکتہ تھا جس کے بارے میں میاں صاحب کا دعویٰ تھا کہ 249249یہ ہیں وہ ذرائع جن سے لندن میں جائیدادیں خریدی گئیں اور اس بارے میں سارا ریکارڈ ہمارے پاس موجود ہے۔
جے آئی ٹی رپورٹ پر اعتراضات اور ہر قسم کی تبصرہ آرائی ممکن ہے اُسے ردی قرار دے کر مسترد بھی کیا جاسکتا ہے ۔جے آئی ٹی پر بھی ہر قسم کے الزامات روا ہیں ۔لیکن ’’عمران نامے‘‘میں درج میاں صاحب کے اس جھوٹ اور اس کو ثابت کرنے والے امارات حکومت کے اس خط جیسے ثبوتوں کے بارے میں کیا کہتے ہیں شرفاء اور اُن کے وکلاء۔
مزاج طبیعت سے شاعر،پیشے سے وکیل اور فکرو عمل سے سیاسی کارکن ہیں۔انہوں نے شکستہ جھونپڑوں سے زندان کی کوٹھڑیوں تک ،دلدل کی ماری گلیوں سے اقتدار محل کی راہداریوں تک زندگی کے سارے چہرے دیکھے ہیں ۔وہ جو لکھتے ہیں سنائی اور دکھائی دیتا ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn