مستند اور متواتر روایات کے مطابق میاں نواز شریف اینڈ فیملی کے بزرگوں نے اپنی کاروباری دن دوگنی رات چوگنی ترقی کاآغاز 1936ء میں کیا اس خاندان کے اپنے بیانات کے مطابق1972 ء میں بھٹو صاحب کی نیشنلائزیشن نے اس ترقی کو واپس 1936ء میں پہنچا دیا تھا ۔جس کے بعد اُن کے والد بزرگوار کو ایک دفعہ پھر کاروباری مہم جوئی کا آغاز کرنا پڑا۔اس مسلمہ تاریخ کے مطابق میاں نواز شریف اینڈ فیملی کی کاروباری مہم جوئی کے تین ادوار بنتے ہیں۔پہلا 1936ء سے 1972ء تک ،دوسرا 1972ء سے 1985ء تک جبکہ تیسرا 1985ء سے 2017ء تک ۔اولذکر دو ادوار خالصتاٌ کاروباری ہیں جبکہ آخری دور میں اس خاندان کا کاروبار اور سیاست ہمرکاب ہیں ۔اب ان تینوں ادوار میں اس خاندان کا حاصل وصول دیکھ لیا جائے تو ’’قطر‘‘ صرف اس آخری دور میں آتا ہے اور اس قطر کا قُطر ایسا وسیع و عریض ہے کہ جے آئی ٹی کے روبرو خود میاں خاندان کے ہاتھ سے نکلتا دیکھائی پڑتا ہے ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پانامہ لیکس کے ذریعے منکشف میاں خاندان کا کاروباری قُطر زیر بحث لانے کے لئے عدالت عظمیٰ نے آئین کی دفعہ 184(3)کے تحت غیر معمولی اختیار سماعت اپنایا لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ فریقین نے یہ اختیار سماعت اپنانے پر کوئی اعتراض نہیں اُٹھایا ۔آئین کی مذکورہ دفعہ کے تحت عدالت عظمیٰ کسی بھی ایسے معاملے میں جس میں بنیادی حقوق سے متعلق مفاد عامہ کا کوئی سوال پایا جائے کوئی بھی ایسا حکم جاری کر سکتی ہے جو آئین کی دفعہ 199میں مرقوم ہو۔ دفعہ 199کی ایک ذیلی دفعہ کے تحت عدالت عظمیٰ کسی بھی سرکاری عہدے پر فائز شخص سے اُس کی اہلیت اور استحقاق کے بارے میں سوال کر سکتی ہے اور جواب سے عدم اطمینان کی صورت میں اُس شخص کے خلاف کوئی بھی حکم جاری کر سکتی ہے ۔آئین ہی کی دفعہ 62یہ تقاضا کرتی ہے کہ عوامی نمائندگان صادق اور امین ہوں ۔ان دفعات کی تلخیص سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ہر پاکستانی شہری کا بنیادی حق ہے کہ سرکاری سطح پر اُس کی نمائندگی ایک صادق اور امین منتخب نمائندے کے ذریعے سے یقینی بنائی جائے اور اگراس بنیادی حق کے بارے میں اگر اُس کے پیش نظر کوئی سوال یا اعتراض ہو تو وہ اسے عدالت عظمیٰ کے سامنے رکھ سکتا ہے ۔
میاں نواز شریف کے حوا لے سے یہ سوال عدالت عظمیٰ کے سامنے آیا تو خود میاں صاحب نے عدالت عظمیٰ کے اختیار سماعت پر صاد کیا یعنی چاہا کہ عدالت اس سوال کی سماعت کرے اور اُس پر فیصلہ دے ۔عدالت عظمیٰ نے اس بارے میں جملہ فریقین کو تفصیل سے سنا ۔اُس سماعت کا نتیجہ سب کے سامنے ہے ۔پانچ رکنی بینچ کے دو اراکین کے مطابق پانامہ لیکس کے ذریعے منکشف مواد یہ قرار دینے کے لئے کافی تھا کہ وزیرا عظم آئین کی متعلقہ دفعات کے مطابق حق نمائندگی کے اہل نہیں ۔جبکہ تین اراکین کے مطابق اس مواد کی مزید چھان پھٹک کی ضرورت تھی سو قابل نفاذ فیصلے کے مطابق ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل پائی جس کے سامنے فیصلے میں مندرجہ تیرہ سوال رکھے گئے۔اُن جملہ سوالات کی روح پانامہ لیکس کے تحت منکشف مواد کی مزید چھان پھٹک تھی ۔
یہ وہ فیصلہ تھا جس پر برسراقتدار جماعت نے نہ صرف اعتماد کیا بلکہ بے پناہ خوشی کا اظہار کرتے ہوئے مٹھائیاں بھی تقسیم کیں۔لیکن مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے تشکیل کے عمل کے فوراٌ بعد برسراقتدار جماعت نے سازش کی دہائی دینا شروع کر دی۔سوال یہ ہے کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی تشکیل جو عدالت عظمیٰ کے حکم کے تحت عمل میں آئی اُس میں کیا سازش ممکن تھی اور اسی سوال کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ یہ سازش کو ن کر سکتا تھا ؟یہ بھی ایک اہم سوال ہے کہ برسر اقتدار جماعت کو اس سازش کی خبر کیسے اور کب ہوئی ؟سازش سازش کے بے دریغ شور کے باوجود ابھی تک اس سے متعلق بنیادی سوالات پر ابھی تک برسر اقتدار جماعت معنی خیز خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے ۔اُس کے ترجمان سازش ہونے کے قرائن پر کھل کر گفتگو کرتے ہیں مگر سازش سے متعلق کون اور کیوں جیسے اہم سوالات پر بالکل دم سادھے ہوئے ہیں۔
مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی تشکیل،اس کے دائرہ کار اور اُس کے اختیارات و فرائض سے متعلق جملہ بنیادی موضوعات خود عدالت عظمیٰ کے طے کردہ ہیں چنانچہ ان معاملات میں سازش کا کوئی بھی الزام براہ راست عدالت عظمیٰ پر لگائے بغیر کسی کہانی کا تسلیم کیا جانا نا ممکن ہے۔الزام علیہم کی مجبوری یہ ہے کہ اس ٹیم کے بارے میں حکم لارجربینچ کے اُن اراکین نے دیا جن کے فیصلے پر الزام علیہان اور اُن کے ہمدردوں نے مٹھائیاں تقسیم کیں۔اگر برسر اقتدار جماعت کی سازش تھیوری کو تسلیم کر لیا جائے تو مجبوراٌ یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ فیصلہ جس پر مٹھائیاں تقسیم کی گئیں وہی اس سازش کی بنیاد بنا۔
قرائن سے لگتا ہے کہ میاں اینڈ فیملی کو اپنے کئے دھرے کا بخوبی علم ہے اور وہ یہ بات جانتے ہیں کہ اس دفعہ کھیل ہاتھ سے نکل گیا ہے ۔لیکن اُن کی کاروباری ذہنیت خسارے میں منافع کا پہلو تلاش کرتے ہوئے اپنے خلاف ممکنہ کاروائی کے نتیجے کو سیاسی شہادت میں بدلنا چاہ رہے ہیں۔انہیں ایک زندہ مزار کی ضرورت ہے جہاں ووٹوں کے چڑھاوے ایک لمبے عرصے پر چڑھائے جاتے رہیں۔متولی کا مسئلہ بھی مریم نواز کی پیشی کے موقع پر طے کئے جانے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے خدا معلوم یہ شہادت ممکن ہوگی ،اگر ممکن ہوئی تو کیا خلق خدا میں مقبول ہو گی اور اگر مقبول ہوئی تو کیا پیش کردہ متولی میں یہ دم ہے کہ وہ اس مقبولیت کو منافع بخش بنا سکے ؟ان سارے سوالات کے جوابات کے لئے انتظار فرمائیے ۔
مزاج طبیعت سے شاعر،پیشے سے وکیل اور فکرو عمل سے سیاسی کارکن ہیں۔انہوں نے شکستہ جھونپڑوں سے زندان کی کوٹھڑیوں تک ،دلدل کی ماری گلیوں سے اقتدار محل کی راہداریوں تک زندگی کے سارے چہرے دیکھے ہیں ۔وہ جو لکھتے ہیں سنائی اور دکھائی دیتا ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn