میں ایک اور اندھی سرنگ سے گذرنے لگا۔برطانیہ کیا جانئے میرے ساتھ کیا سلوک کرے؟سائرہ احمد علی کو ڈیپارچر لاؤنج سے فون کیا تو اس کا میسج ریکارڈر بجنے لگا تھا ۔اپنی آمد کا پیغام تو چھوڑ دیا تھا مگروہی اندھی سرنگ کے ہر پل باہم ہوتے کنارے،چھت اور دیواروں سے سر ٹکراتا شور۔یہ معاشی اعتبار سے نہ اِدھرکے اور نہ ہی اُدھر کے ہم لوگ احساسات کے پلِ صراط پر ڈگمگاتے تعلقات کی جنتیں تلاش کرتے رہتے ہیں اوراگر کسی ایسی جنت تک آ پہنچے تو بھی دوزخ کی لپٹیں لپک لپک کر ہمارے ایمان کے درپے رہتی ہیں۔مصطفی زیدی ہم ایسوں کو خوب خوب ننگا کرتے رہتے ہیں۔اُنہی کے بقول میں تو سائرہ احمد علی کے ساتھ دل کے پاس خود سے ملاقات ہوجانے کے بعد خود کو ڈھونڈنے نکلا ہوا ہوں۔
کہیں تمباکو نوشی کا گوشہ تلاش کرنے اُتراتو نچلے ڈیک میں ایک ہجوم بے دریغ نیند کے نشے اُٹھاتا پایا۔یہ اندھی سرنگیں ہماری حساسیت کا شاخسانہ ہیں ورنہ نیچے اور اوپر تو بے دریغ نیند ہے یا اذیت و لذت سے بھرپور رتجگے۔ہم ہی سالے بے کیف خدشوں اور بے مراد امکانوں کے دُکھ جھیلنے والے ہیں۔سفر میرے حواس پر سواری کرنے لگا ہے۔ایک ذرا بیزاری لاحق ہوئی تو وجود میں جیسے نمکین سی نمی گھلنے لگی۔ہستی کے سارے پروگرام ہی پانی پر لکھے ہوئے ہیں۔کیسا کیسا خوش جہاز پر سوار ہوا تھا کیا ایسا ہوا کہ جس پر یوں ملول اور رنجیدہ ہو گیا ہوں۔ہستی اور نیستی کے منصوبہ ساز سے پوچھتا ہوں۔
پاک ہے وہ ذات جو لے گئی اپنے بندے کو۔۔
پندرھویں سپارے کی پہلی آیت نے مجھے معراج سنائی۔بے وجہ دُکھ جانے پر میں عرصے سے اللہ جی ویب سائٹ پر سرفنگ شروع کر دیتا ہوں۔ہستی کے سارے پروگرام اس سائٹ پر موجود ہیں۔شرط یہ ہے کہ کھولنے کا ڈھنگ آتا ہو۔میں تو ایک ایک لفظ کی منت سماجت کے لئے شعور کو کاسہ بناتا ہوں کبھی کبھی معنوں کی خیرات عطا ہوتی ہے اور کبھی مفاہیم و مضامین براہ راست احساس پر اُترتے محسوس ہوتے ہیں۔خدا کے ساتھ میرا تعلق ایسے ہی ہے بکھرا بکھرا۔بہت دل چاہتا ہے اس تعلق کو قلب و نظر میں سمیٹ لینے کو لیکن کبھی جغرافیہ اور کبھی ریاضی آڑے آجاتی ہے۔
لیکن ادھر اللہ سے براہ راست ہونے کا ارادہ کوشش ہوا اُدھر کوئی نہ کوئی دلفریب اناؤنسمنٹ نے کھینچ کر دوبارہ رزقِ طلب کر دیا ۔
ہم کوئی دیر میں ہیتھرو ائیرپورٹ پر اُترنے والے ہیں ،فضائی میزبان کی آواز سماعت میں گد گدی کرتی محسوس ہوئی کہ آٹھ گھنٹے بحالت سفر اور وہ بھی سگریٹ کے بغیر اب تو جیسے حواس پر ریگ مال چل رہا تھا ۔میں نے کھڑکی سے باہر جھانک کر منظروں سے آشنائی کی کوشش شروع کر دی۔دھوپ چھاؤں کی آنکھ مچولی میں ہم رو بہ زمین تھے۔
یہ شاید کسی مسجد کے مینارے ہیں سو اللہ جی بھی لندن میں میرے منتظر ہیں۔
جہاز ایک سرنگ نما داخلے سے جڑ کر کھڑا ہوا تو دروازے کھول دیئے گئے ۔بسم اللہ الرحمٰن الرحیم میں لندن میں داخل ہوتا ہوں۔جہاز سے اُترنے والے سینکڑوں مسافروں کے باوجود یہ کیا ویران سا سکوت میرے سواگت کو منجمد کھڑا ہے۔آٹھ نو گھنٹے کی مسلسل نشست کے بعد امیگریشن کاؤنٹر تک کا فاصلہ بھی پہاڑ لگتا ہے۔انجانے کا خوف اور نئی زمین سے تعارف کا شوق احساس میں سب کچھ گڈمڈہو رہا تھا۔
آپ کتنے روز قیام کریں گے؟
گوری امیگریشن افسر نے میرے جواب کا انتظار کئے بغیر لند ن میں میری آمد کی باقاعدگی پاسپورٹ پر ثبت کردی۔مجھے کیا خبر تھی کہ سامان کی وصولی کے بعد باہر ایک اور سفر درپیش ہے۔ہر جگہ راہنما بورڈ نصب تھے سو میں چل دیا ۔یہاں راہنمائی کو وجہ تعارف بنانے کی ایک ذرا بھی گنجائش نہیں ۔آپ کسی سے کچھ بھی پوچھیں وہ آپ کو کسی بورڈ کی طرف متوجہ کرتا ہوا اپنی راہ لے گا۔گوروں کی ساری خوش اخلاقی گڈ مارننگ یا ایوننگ کے حدود پار نہیں کر پاتی۔اِدھر تو چلتے چلتےکوئی مل بھی جاتا ہے اور اگلے اسٹاپ سے پہلے پہلے ساری کہانی بھی طے پا جاتی ہے
میرے اور سائرہ احمد علی کے مابین اسے آخری مرحلہ سفر ہونا چاہیے شاید یہ سوچ کر میں خود کو تسلی دے رہا تھا ۔
سائرہ کا مختصر تعارف یہ ہے کہ وہ میری ہستی کا نسوانی جزو ہے ۔کہیں بہت پہلے مجھے خبر ہو گئی تھی کہ میری ذات کی ٹکڑیوں میں سے بہت سی غائب ہیں اور اگر مجھے اپنی آنکھوں سے خود کو دیکھنا ہے تو ایک لمبی جمع تفریق ضروری ہو گی ۔تفریق پر بے پناہ قدرت مجھے حاصل تھی لیکن جمع ایک عرصے تک ایک مشق سے آگے نہ بڑھ پائی۔اور جمع ممکن ہی کب تھی کہ آئینے اور پتلیاں عکس کرتے بھی تو حاصل وصول ایک زرد سی مردنی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آتا۔خدو خال اور قامت وقد کی مساوات کے دوسری طرف بے تاّثر آنکھیں ہوتیں۔سارا جغرافیہ کسی صحرائی معاشرے کی طرح غیر استوار تو تھا ہی تاریخ بھی کسی غیر تحریری دستور کی طرح زیر دستوں کی لونڈیا جیسی تھی۔معیشت دس تک پہاڑہ گنتے ہانپنے والی سو محرومی سے سمجھوتے کی بھی حیثیت نہ تھی ۔اپنے ساتھ تعلق میں بھی ہزار سخت مقام پڑتے تھے۔
شوق خود آزمائی اگر کسبی ہوتا تو اس کا کوئی تریا ق ڈھونڈتا۔ یہ تو روئیں روئیں پر لکھا نصیب تھا اور اس شوق کوئی زاد رہ میسر تھا تو دلِ کج فہم ۔نیند میری شہریت تھی اور خواب میرا مسکن ۔خواب گھروندوں میں خواہشوں کی آرائش کرتا اور پھر پورے وجود کو دست دعا بنا کرتعبیر مانگتا۔میرے خواب کی ہر کہانی کا مرکزی کردار کوئی اور نہیں میں خود تھا لیکن کہانی اور مرکزی کردار کے درمیان تعلق ہمیشہ سے مبہم اور بے ربط تھا۔میری کہانی کا ہر منظر ہر دوسرے منظر سے لا تعلق اور غیر ملحق تھا۔عمر اسی تعلق اور الحاق کی تلاش میں کٹ رہی تھی کہ خوابوں اور خواہشوں میں بھٹکتے میں کسی جلسہ گاہ میں دریافت ہوا۔
مزاج طبیعت سے شاعر،پیشے سے وکیل اور فکرو عمل سے سیاسی کارکن ہیں۔انہوں نے شکستہ جھونپڑوں سے زندان کی کوٹھڑیوں تک ،دلدل کی ماری گلیوں سے اقتدار محل کی راہداریوں تک زندگی کے سارے چہرے دیکھے ہیں ۔وہ جو لکھتے ہیں سنائی اور دکھائی دیتا ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn