ریاضی اگرچہ زندگی کے نصاب کا لازمی مضمون ہے لیکن مجھے تو جمع تفریق میں بھی سُر چاہیے۔جمع نغمہ وصال اور تفریق نوحہ ہجر۔جس گھر میں میرے جنم کا سانحہ سر زد ہوا تھا وہاں ہر ماہ پہلی تاریخ کو ابا کی تنخواہ جمع تھی اور پھر سارا مہینہ تفریق ہی تفریق کا سامنا رہتا تھا ۔ہمارے ہاں رونے کے دیگر معقول اسباب موجود تھے لیکن ہر اشک فشانی کا آخری راگ جمع تفریق ہی ہوا کرتا تھا ۔
گلوسٹر روڈ ٹیوب اسٹیشن پر اُس کھوکھے والی ایشیائی عورت کو بملا کا نام میں نے خود ہی دے لیا تھا ۔وہ ہر دفعہ مجھے دیکھ کر جس خوشگوار مسکراہٹ سے نوازتی تھی اُس کے عوض کم سے کم اُسے یاد رکھنا تو بنتا تھا اور یاد رکھنے کو ایک نام ہی تو چاہیے تھا۔زیریں متوسط طبقے سے مخصوص کم ہمتی اس قسم کی خفیہ جگر آزمائی کی عادی ہوتی ہے سو بملا کی مسکراہٹ کے دل ہی دل میں کئی ترجمے اب کوئی سنجیدہ مسئلہ نہیں تھے۔
میں لندن بھی ریاضی کی ایک انتہائی میٹھے سُر میں بہتا چلا آیا تھالیکن اصل وجہ جمع تفریق کے سچے سُر کی تلاش تھی ۔ارادہ لندن کا پہلا مرحلہ انتہائی دل سوز تھا ۔قطار اندر قطار ایک ہجوم سے گذرتا جب ویزا افسر کے روبرو پیشی مقبول ہوئی تو بینک اسٹیٹمنٹ کی فراہمی تکرار کا سبب بن گئی ۔اُس عاقبت نا اندیش نے جیسے خوش نما صدری اور کلف مزاج قمیض کے نیچے میری بنیان دیکھنے پر اصرار کیا ہو۔دل چاہ رہا تھا کوئی بارودی قسم کی بنیان صدری کے اوپر پہن کر کسی ورلڈ ٹریڈ سنٹر سے جا ٹکراؤں۔
یہ اگست کا واقعہ تھا اور ستمبر میں اسامہ بن لادن امریکہ سے جا بھڑا۔تبدیلی کی بے پناہ خواہش کے باوجود انتہاپسندی مجھے کبھی نہیں بھائی تھی لیکن گورے افسروں کے انتقامی جذبات کی وجہ سے میں گھنٹوں جذباتی طور پر اسامہ کا حامی رہا۔خوف کے سبب سفارت خانوں کی بندش اور دُبکے ہوئے گورے صاحب سوچ کر میری انانیت کو اچھی خاصی تقویت پہنچی۔ایک عرصہ میں بین الاقوامی سامراجیت کے خلاف محاذ آرائی کا حصہ بنا رہا ۔
لیکن اکتوبر میں ساری بندشوں اور پابندیوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے مجھے ملکہ معظمہ نے ویزا دے کر خود کو ایک شدید قسم کے انتہاپسند کے شر سے محفوظ کر لیا بہت دنوں تک میں اقتدار سے محروم ترقی پذیر معیشتوں کی قیادت کی طرح اپنے وجود میں گوروں سے دودو ہاتھ کرنے کی صلاحیت ڈھونڈھتا رہا لیکن مجبوری یہ درپیش تھی کہ میرے پاس بچوں کو انہیں گوروں کے ملکوں میں اعلیٰ تعلیم دلوانے کے وسائل تاحال موجود نہ تھے ورنہ ویزا ملنے کے باوجود میں سامراجیت کو للکارنے سے نہ چوکتا۔اسی مرحلے پر مجھے بے دریغ سیاست کے باوجود اپنا نام نامی اعلیٰ قیادت کی فہرست سے شامل نہ ہونے کی وجوہات بھی سمجھ آ گئیں۔
اسلام آباد ایئرپورٹ پر جملہ سرکاری تکلفات کے ساتھ جملہ کاروائیوں سے فارغ ہوا کہ طاہر عار ف وفاقی تحقیقاتی ادارے المعروف ایف آئی اے میں ڈائر یکٹر امیگریشن ہے ۔بین الاقوامی آمد و رفت کی دنیا میں اُس کا عہدہ کسی طور بھی وزیر اعظم سے کم نہیں لیکن جس طرح قادر مطلق پاکستان کی وزارت عظمیٰ کو اوقات یاد دلانے کے لئے ملک معراج خالد کے متھے لگا دیا تھا اُسی طرح امیگریشن کی ڈائر یکٹری طاہر عارف کا الزام سسک سسک کر جھیلتی ہے۔میرے ذاتی ریکارڈ کے مطابق وہ بذریعہ محبوب قادر شاہ میرا دوست ہے لیکن اُس کے ریکارڈ کے مطابق اپنی حیثیت دریافت کرنا میرے زیریں متوسط طبقے سے تعلق کو گوارا نہیں سو آپ اُسے بھی ایک اور بملا سمجھ سکتے ہیں ۔
سفر کے بارے میں میرے نظریات کبھی بھی خوشگوار نہیں رہے لیکن نظریات سے بدلاؤ ممکن ہوتا تو روس کے حصے کبھی بھی بخرے نہ ہوتے۔ مجھے اپنی ساری ترقی پسندی کے باوجود روس کبھی اچھا نہیں لگا یا شاید میرے ریاستی بیانئے میں روس اچھا لگنے کی کوئی گنجائش ہی نہیں چھوڑی گئی۔ہمارے ترقی اور پسند ہمیشہ سے دو باہم متضاد حقائق ہیں۔کہیں پسندترقی کا راستہ روکے کھڑی ہے اور کہیں ترقی پسند کو چھوڑ کر اپنے آشنا کے ساتھ بھاگ نکلتی ہے۔
خیر میں بھاگتے بھاگتے اب کہیں جا کے اُڑنے کے قابل ہوا ہوں سو سفر کی کوفت پر اُڑان کے قابل ہوپانے کی لذت ڈیپارچر لاؤنج تک حاوی تھی ۔اگرچہ اس سے قبل بھی ایک آدھ بین الاقوامی پرواز میرے نامہ اعمال میں درج تھی لیکن وہ ساری پروازیں کہیں باہر پہنچنے کے لئے تھیں یہاں تو اندر ہی اندر کوئی سفر آغاز ہو رہا تھا ۔
لاؤنج کے داخلے پرنصب آئینے میں خود کا اچھا خاصامعزز آدمی محسوس ہوا ۔آنکھوں کی بخیلی نجات حاصل ہو تو پورے وجود میں اعتماد کی بجلی ایک ایک حس کو روشن کر دیتی ہے۔اناؤنسر اور مجھ میں اُڑنے پر تیار ہونے پر اتفاق ہوا تو میں طیارے کے اندر آ موجود ہوا ۔جہاز کے اوپری ڈیک میں چشم براہ مسافروں کے طبقاتی تشخص سے یہ پرواز کسی طور بھی بین الاقوامی نہ لگ پا رہی تھی ۔یوں بھی آنکھوں اور آئینوں کی ملی بھگت ابھی تک حواس میں چنگھاڑ رہی تھی سو اپنے مقابل کچھ بھی جچ کے نہ دے رہا تھا ۔انسان خود اپنا شکار ہو کر بھی دوسروں کی آنکھوں میں بونا سا رہ جاتا ہے۔مجھے عوامی سطح پر کئی شکستوں کے بعد یہ بات سمجھ آئی تھی کہ خدا کی عبادت انسان کو خود اپنی پوجا سے بھی بچاتی ہے ورنہ خود اپنے حضور سجدہ ریز انسان خدا تو کیا بنتا ہوگا شاید انسان بھی نہیں رہ پاتا
پی آئی اے والے بھی کمال کے لوگ ہیں ۔کچھ ہی دیر میں جہاز کسی اومنی بس کا منظر پیش کر رہا تھا ۔فضائی میزبانوں کے ایک ایک خد و خال کی بیزاری قطرہ قطرہ میرے اندر اُتر رہی تھی ۔اُن کے لہجوں میں اپنے فرائض کی نوعیت کے خلاف شدید غم و غصہ کسی غور و فکر کا محتاج نہ تھا ۔اور مجھ پر خصوصی ستم اوپری ڈیک میں تمباکو نوشی پر ممانعت تھی سو ہر سیکنڈ میری برہمی کو ضرب دے رہی تھی ۔رجائیت پسندی کا موڈ مزاج سوا ستیاناس کے عروج پر تھا لیکن سوائے کڑھنے کے کچھ بھی بس میں نہ تھا ۔
یوں تو زندگی ایک عمر اندھی سرنگوں کے سفر میں رہی ہے لیکن ایک ذرا خوش حالی نے میرے حواس میں عجیب سی کڑواہٹ گھول رکھی ہے ۔اپنے طبقاتی کوفے سے ہجرت کئے برسوں ہوئے لیکن لگتا ہے کہ دمشق کے خوشحال ماحول میں ابھی تک کوئی اجنبی سیاح ہوں۔محرومیوں سے گھمسان کی نبرد آزمائی میں روح پر کوئی ایسا زخم آ گیا ہے کہ ہر فصل گل میں تازہ ہو کر رسنے لگتا ہے
مزاج طبیعت سے شاعر،پیشے سے وکیل اور فکرو عمل سے سیاسی کارکن ہیں۔انہوں نے شکستہ جھونپڑوں سے زندان کی کوٹھڑیوں تک ،دلدل کی ماری گلیوں سے اقتدار محل کی راہداریوں تک زندگی کے سارے چہرے دیکھے ہیں ۔وہ جو لکھتے ہیں سنائی اور دکھائی دیتا ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn