مجھے لگتا ہے کہ اس معاملے پر ہمیں بھی عالمی عدالت انصاف سے رجوع کرنا ہو گا۔دعویٰ ہمارا یہ ہے کہ ہماری تہذیب میں ہیرو طیاروں سے برآمد نہیں ہوتے بلکہ اب ایک عرصے سے ہمارے ہاں ہیرو بر آمد نہیں در آمد ہو رہے ہیں ۔اسی دراندازی کی وجہ سے اب سین میں ہیرو ، سائڈ ہیرو کے ساتھ لیگ سائڈ ہیرو بھی موجود ہوتے ہیں ۔چنانچہ ہمیں عالمی عدالت انصاف کو ان حقائق سے آگا ہ کرنا ہوگا۔
کلبھوشن یادیو نجانے بھارت کا کتنا بڑا ہیرو ہے کہ جس کے لئے اس عالمی عدالت کا درواز ہ کھٹکھٹایا نہیں بلکہ دھڑدھڑایا ہے ۔مقامی سین میں اُس کا منفی کردار شاید لکھا ہوا تو اچھا تھا لیکن عالمی پردے پر اُس کی فلمبندی میں کوئی سقم رہ گیا کہ پہلے شو ہی میں گھاٹے کا سودا ثابت ہوا۔جدید عہد میں ہی نہیں ماضی قریب میں بھی ہم نے سلطان راہی کو بطور ہیرو مقبول ہوتے دیکھا سو منفی کردار کی لکھائی اور پیشکاری میں مرکزی کردار سے بھی زیادہ محنت درکار ہوتی ہے ورنہ تماشائی منفی کردار ہی کو ہیرو مان لیتے ہیں۔
لیکن میں ابھی تک حیران ہوں کہ ابھی برطانیہ میں ہیروئین برآمدگی کا قضیہ ہی طے نہ پایا تھا کہ عالمی عدالت میں بھی ہماری مرکزی حکومت کلبھوشن کے مقابلے میں ہیرو ئین کے طور پر بر آمد ہو گئی ۔
نجانے اس تازہ فلم کا لکھاری کون تھا ؟میری ادنیٰ درجے کی وکالت کا تجربہ ہے کہ کوئی بھی عدالت اگر کسی معاملے کی شنوائی پر آمادہ دیکھی جائے تو ہم اُس کی اختیارِ سماعت پر سوال اُٹھاتے ہوئے یقین دلاتے ہیں کہ اُس سوال پر سماعت تک ہم امر متنا زعہ میں مزید کوئی قدم نہ اُٹھائیں گے ۔ جس کے نتیجے میں ہم کسی بھی امتناعی حکم سے بچ سکتے تھے ۔اور پھر پوری تیاری کے ساتھ اختیار سماعت کے سوال پر اپنے دلائل پیش کرتے ۔
لیکن کہانی میں مزاحیہ حصہ بھی ضروری خیال کیا جاتا ہے ۔لیکن اس کہانی میں مجھے لگتا ہے کہ مزاح زور زبردستی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے لہذا ہنستے ہنستے آنسو جاری ہو گئے ہیں ۔یاد رہے کہ ہنسنا بھلا دیا جائے گا لیکن آنسو تاریخ کے آسمان پر ایک دیر تک جگمگاتے رہیں گے ۔
المیہ یہ ہے کہ ہمارے راہنمایان کرام نے زمانہ طالب علمی (اگر کوئی ایسا زمانہ درپیش رہا ہو)میں درسی ماڈل ٹیسٹ پیپرز کا مطالعہ تو شاید کیا ہو اس کے علاوہ حلف لیں کہ کوئی کتاب چھو کر بھی دیکھی ہو۔حالانکہ ہم چاروں الہامی کتابوں پر ایمان رکھتے ہیں۔لیکن اذان دے گئے حضرت بلال،نماز پڑھ گئے کربلا والے ،والا معاملہ ہے۔ریشمی غلاف میں احترام سے محفوظ کی گئی ہماری اپنی الہامی کتاب اکثر ہم سے سوال کرتی ہے کہ تم کیا صاحب ایمان ہو کہ بغیر مجھے پڑھے سمجھے بھی مجھے ہر مشکل کا حل مانتے ہو اگرچہ سوائے وضو،جنازہ و نکاح کے کسی مشکل میں میرے کسی کہے کی خبر نہیں رکھتے ۔
کہانی کہانی ہیغی اے۔شٹوری وچ کوئی نئیں۔
مزاج طبیعت سے شاعر،پیشے سے وکیل اور فکرو عمل سے سیاسی کارکن ہیں۔انہوں نے شکستہ جھونپڑوں سے زندان کی کوٹھڑیوں تک ،دلدل کی ماری گلیوں سے اقتدار محل کی راہداریوں تک زندگی کے سارے چہرے دیکھے ہیں ۔وہ جو لکھتے ہیں سنائی اور دکھائی دیتا ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn