نو منتخب ایوانوں میں تحریک انصاف کی عددی صورتحال کی وجہ سے یہ نظام کپتان خان کی پشت پر سوار ہو گیا ہے یا خان بازو مروڑ کر اسے قابو کرنے کی کوشش میں ہے یہ امر تاحال متنازعہ ہے لیکن یہ بات طے ہے کہ اقتدار کے اس کھیل میں وہی پرانے ضابطے اور دھندے بے دریغ آزمائے جارہے ہیں ۔تبدیلی کے سفر نے کئی موڑ لئے ہیں لیکن اس وقت ایک موڑ پر ہے جہاں خود اس کا وجود شدید خطرے میں ہے۔ صورتحال اگرچہ دوسری طرف بھی جوں کی توں ہے۔ نظریات ، اعتقادات اور دساتیر ایک شخص کا راستہ روکنے کے لئے تہہ کرکے پارینہ کے دراز میں رکھ دیئے گئے ہیں۔محمود و ایاز ہی نہیں ہر قسم کے بڑے چھوٹے ایک ہی صف میں کھڑے ہیں۔حزب سیاست میں تقسیم کی آئے روز بڑھتی یہ خلیج کسی منصوبے کا حصہ ہے یا ہمارے سیاست کا یہی دیرینہ رواج ہے اس امر کا فیصلہ بھی شاید کل کا مورخ کرے گا۔
اس رواج کو مستحکم کنرے کی ہر کوشش کے ساتھ ہی جملہ سیاست کار غیر سیاسی اداروں کی قومی امور پر بالا دستی کے لئے چھینا جھپٹی کے الزامات بھی پوری شد ومد سے جاری رکھتے ہیں۔اگر کوئی سمجھے تو سیاست بھی ایک قومی ادارہ ہے جس میں دھنک کی طرح کئی رنگ شامل ہیں اگر یہ رنگ باہم متمسک رہیں تو ذوق نظارہ سے داد پاتے ہیں ورنہ کوئی رنگ کیسا بھی گہرا کیوں نہ ہو کوئی دیر کا مہمان ہوتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ملک کے غیر سیاسی اداروں کی سیاسی معاملات میں مداخلت کے ذمہ دار بھی خود ارباب سیاست ہیں جو ایک دوسرے سے اختلاف اور اتفاق کے بجائے عداوت اور مخاصمت کو رواج دیتے ہیں ۔ جب آپ ایک دوسرے کو گرانے اُٹھانے کے لئے ہر جائز ناجائز کا اختیار کریں گے تو در حقیقت آپ اپنی اجتماعی وقت کی شاخ کاٹ رہے ہوں گے ۔
کپتان خان کل دیگر سیاسی جماعتوں پر اقتدار کے حصول کے لئے جن ہتھکنڈوں کے الزامات لگا رہا تھا آج وہی ہتھکنڈے اُسے استعمال کرنے پڑ رہے ہیں۔ اس حقیقت کا عام آدمی ایک ہی نتیجہ نکال سکتا ہے کہ یہ کار سیاست نام ہی انہیں ہتھکنڈوں کا ہے ۔ یہ کسی ایک سیاسی جماعت کا ایجنڈہ نہیں بلکہ کوئی کیسا بھی پاک اور پوتر کیوں نہ ہو جب اقتدار کے کھیل میں شریک ہوگا انہیں قوانین و ضوابط پر عمل پیرا ہوگا ۔یعنی سیاست اس ملک میں منفی ہتھکنڈوں کا کھیل ہے ۔عام آدمی کے ذہن میں اس نتیجے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کروڑوں ووٹ لے کر بھی حق حکومت کے اخلاقی جواز سے عوام کی نظر میں محروم ہی رہتے ہیں اور اخلاقی جواز سے محروم آپ کی حکومت بھلے لوہے کی ستونوں پر کھڑی ہو باد مخالف کا ایک موہوم جھونکا بھی برداشت نہیں کر سکتی ۔نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آپ کو غیرسیاسی اداروں کے سہارے لینے پڑتے ہیں اور یہ سہارے مفت میں کہیں بھی میسر نہیں آتے ۔
اپنی گذشتہ تحریر میں عرض کی تھی اگر ارباب سیاست قومی معاملات پر اپنی گرفت چاہتے ہیں تو یہ انتہائی سنہرا موقع ہے کہ عوام نے حالیہ انتخابات میں جس طرح اپنے مینڈیٹ کو سب میں بانٹ دیا ہے اُسے ایک پیغام سمجھیں۔اور وہ پیغام یہ ہے کہ آپ سب لوگ واقعی عوام اور ملک سے مخلص ہیں تو سب سے پہلے آپس میں خلوص اور نیک نیتی کا مظاہرہ کرکے دیکھائیں۔جنہیں چور ڈاکو اور نجانے کیا کچھ نہیں کہا گیا عوام نے انہیں بھی کروڑ سے اوپر ووٹ دئیے ہیں اسی طرح تبدیلی والوں کو بھی تبدیلی کے ساتھ اپنی وابستگی کی سچائی ظاہر کرنے کا بھی موقع دیا ہے ۔لیکن اگر آپ نظام پر قابو پانے کے نام پر چند چوروں اور ڈاکوؤں کو ساتھ لے لیں اور باقیوں کے بارے میں توقع رکھیں کہ عوام اُن کے حوالے سے آپ کے ارشادات من و عن تسلیم کرتے رہیں تو میرے خیال میں یہ نظام پر قابو پانا نہیں بلکہ خود نظام کا شکار ہو جانا ہے۔
آج بھی کپتان خان کے پاس موقع ہے کہ وہ قومی مکالمے کا آغاز کریں ۔پارلیمان تک پہنچ آنے والی ساری جماعتوں کے ساتھ گفت و شنید کا سلسلہ جوڑیں ۔قومی اور عوامی مسائل کے علاوہ سیاسی اخلاقیات کے ضوابط پر باہم میل جول کو رواج دیں ۔سیاست میں بڑھتی تقسیم کی بنیاد پر کسی بھی نوعیت کے تصادم اور محاذآرائی سے پہلے قومی سیاست کی بطور ادارہ تشکیل کی بنیاد رکھیں کہ ہر تبدیلی کا آغاز اپنے اندر تبدیلی کی گنجائش پیدا کرنے سے ہوتا ہے ۔


دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn