سال 2015 کے آخر میں میں ایک امریکی انیس سالہ طالب علم T.J. Evarts ) (نے سمارٹ ویل(Smart Wheel) ایجاد کیا ہے جو آ پ کی توجہ صرف گاڑی چلانے پر ہی مرکوز رکھتا ہے۔ جونہی آپ ونڈ سکرین سے کسی دوسری طرف دیکھتے ہیں یا فون کا ستعمال کرتے ہیں تو آپ کے سٹیرنگ ویل ( Steering Wheel)پر لگی سرخ لائٹ جلتی ہے اور الارم بجتا ہے جو آپ کو خبردار کرتا ہے کہ آپ ڈرئیونگ کر رہے ہیں اور آپ کاکسی دوسری طرف متوجہ ہونا خطرناک ہوسکتا ہے۔ امریکی صدر باراک اوباما اس طالب علم سے خود ملنے اس کے گھر آئے اور اسے اس کی اس ایجاد پر انعام بھی دیا گیا اور یہ امریکا کی تاریخ میں سب سے پہلا پیٹنٹ( امریکا میں جب بھی کو ئی نئی چیز ایجاد ہوتی ہے تو قانونی طور پر ایجاد کرنے والے کو اس کے مالکاناحقوق دیے جاتے ہیں اور کوئی بھی شخص اس کے مالک کی ایجازت کے بغیر وہ چیز نہیں بنا سکتا اسے پیٹنٹ PATENT کہتے ہیں) ہے جو کسی سب سے کم عمر شخص کے نام پر ہے ۔ امریکا میں روزانہ بد حواس ڈرائیونگ کی وجہ سے نو لوگ مارے جاتے ہیں اس لیے اس ایجاد کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ امریکا ، یورپی اور دوسرے ترقی پزید ممالک کی ترقی کا راز صرف ایک لفظ میں چھپا ہے اور وہ ہے تحقیق(Research)۔
نت نئی ایجادات کر کے انہوں نے پوری دنیا کے لوگوں کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ ان کی بنائی ہوئی چیزیں خریدیں جس سے ان ممالک کی معیشت اتنی مضبوط ہوگئی ہے کہ وہ ایک کثیر رقم اپنے تعلیمی اداروں پر خرچ(Invest)کر سکیں۔ ان ممالک کے تعلیمی اداروں اور انویسٹرز (Investors) کے درمیان ایک ایسا رشتہ(link)ہے جس سے دونوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ تحقیقی ادارہ(Research Centre) کوئی نئی چیز بناتا ہے اور اس کے مالکانا حقوق کسی انڈسٹری کو دیتا ہے۔ انڈسٹری اس سے منافع (Profit)حاصل کرکے تحقیق ادارے کو اور مالی معاونت (Funds) فراہم کرتی ہے۔ اس طرح انڈسٹری اور تحقیقی اداروں نے ایک دوسرے کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ یہاں قابلِ غور بات یہ ہے کہ تعلیمی و تحقیقی ادارے ہمارے ملک میں بھی تو موجو د ہیں لیکن وہ کیوں ایسی کوئی چیز بنانے میں ناکام ہیں جس سے انڈسٹری کو فائدہ ہو، دوسرے ممالک کے لوگ اس چیز کی طرف کھینچے چلے جائیں اور باہر کے ممالک سے زرِ مبادلہ ہمارے ملک میں آئے اور ملک ترقی کرے؟ اس کا جواب بہت ہی سادہ ہے اگر آپ صحیح ، سنجیدہ اور تحقیق کے قابل لوگوں کو اوپر لے آئیں گے تو ملک کی تقدیر سنور جائے گی۔ہم اور ہماری ناکامی کی دوسری وجہ ہمارا تعلیمی نظام ہے۔اس نظام میں موجود ناقابل تلافی نقصان پہنچانے والی کی نشاندہی کرنا ضروری سمجھا جاتا ہے۔
ہمارے ملک میں میٹرک درجے میں چار اہم مضامین پڑھا ئے جاتے ہیں جو کہ فزکس کیمسٹری بائیولو جی اور ریاضی ہیں۔میٹرک لیول بچوں کی زندگی کا وہ دور ہو تا ہے جس میں ان کی تعلیمی بنیادبنتی ہے۔اگر اسی عمر میں ہم ان کے ذہنو ں میں تحقیق کا جذبہ اجاگر کر دیں تو ان کے لیئے تعلیم کے دوران کچھ نیا کر دکھانے کی یہ ایک اچھی ٹرینگ ہوگی ۔لیکن اس کو شش میں ہم اس نظا م تعلیم کے ساتھ کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکیں گے ۔باقی تمام مما لک میں سائنسی کتابیں یا درسی کتابیں (back ground information) کے طور پر استعمال ہوتی ہیں اور ان معلومات کو ذہن میں رکھتے ہوئے طالب علم کو سوالات کاجواب دینا ہوتا ہے۔لیکن اگر ہم سرزمین پاک کے نظام پر غور کریں تو اس میں آپ کی قا بلیت صرف یا داشت ہے ۔اتناہی اچھے آپ کے مارکس ہونگے کیو نکہ ہمارے ہاں امتحانات میں سیدھا ہی پوچھا جاتا ہے کہ فزکس کی تعریف کریں ۔ جو کہ درسی کتاب میں درج ہوتا ہے۔اس طرح بچوں کی تخلیقی صلاحتیں ماند پڑجاتی ہیں۔اگر آپ کیمیرج Cambridge Exams))کے امتحانا ت اور میٹرک کے امتحانات کا جائزہ لیں تو اپکو ایک واضح فرق نظر آئے گا۔کچھ مثالیں میں یہاں پیش کرنا چاہو گا کیمرج (O level) کے امتحانات میں بچوں سے اسے پوچھے جا تے ہیں جو کہ عملی زندگی کے امتحانات کے متعلق ہو تے ہیں۔حد تو یہ ہے کہ ہمارے میٹرک کے امتحانات میں میتھ کے پیپرمیں بھی(definitions) دی جاتی ہیں جو کہ سراسر بچوں کو رٹالگانے پر مجبور کرتی ہیں۔اگر آپ پنجاب بورڈکے گزشتہ سالوں کے امتحانی سوالی پر چہ جات پر نظر ڈالیں تو آپکو تقریبا 95% تک اس طرح کے سوالات ملیں گے کہ بائیولوجی کی تعریف کریں،نیوٹن کا تیسرا قانو ن کیا ہے؟فوٹوسنتھیسز(Photosynthesis) تعریف کریں وغیرہ ۔جبکہ کیمرج کے امتحانا ت میں فوٹوسنتھیسزکے حوالے سے یہ پوچھا جائے گا کہ کس طرح کاربن (Carbon)ایٹم انسانی جسم کا حصہ بنتا ہے؟)نوٹ : فوٹوسنتھیسز کا عمل پودے میں ہوتا ہے اور کاربن ایٹم ماحول سے فوٹوسنتھیسز کے عمل سے پودے کا حصہ بنتا ہے پودے کی بنائی ہوئی خوراک کو کھانے سے یہ انسانی جسم میں داخل ہو جاتا ہ) وہ کہا ں آتا ہے وغیرہ ۔آپ کسی دن ایک چھوٹا سا سروے کریں جماعت نہم ، دہم کے طالب علموں سے صرف یہ پوچھ لیں کہ یہ پائی ( جس کی قیمت 22/7ہے ) کہاں سے آیا ہے اور یہ ہے کیا اس کو دائرہ کا رقبہ معلوم کرنے کے لیئے کیوں استعمال کیا جاتا ہے تو آپ کو جواب no میں ملے گا ۔ان سب باتوں کے پیچھے ان اساتذہ محترم ہیں جو صرف بچے کو پاس کرانا ہی تعلیم سمجھتے ہیں ۔ان کے نزدیک ان کا سب سے بڑامقصد بچے کو 40% نمبر دلوا کے پاس کروانا تاکہ والدین مطمئن رہیں اور اس اساتذہ کی اس کوشش میں ہمارا امتحانی نظام ان کی پوری مدد کر رہا ہے۔
ہماری گورنمنٹ ابھی تک یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ دوسرے ممالک جو تعلیم پرپاکستان سے بھی کم GDPکا حصہ خرچ کرتے ہیں(مثلا تعلیم چینی )ان کا تعلیمی معیار کیسے اتنا بلند ہے؟اس کی وجہ ان کا نظام تعلیم ،امتحانی نظام اور دوسری وجہ قابل اورتربیت یافتہ اساتذہ ہیں۔قومی اسمبلی کو ایک بل پاس کر نا چاہیے جس کے تحت ایک قو می ٹیچر بورڈ (National Teacher Board) تشکیل دیا جائے ۔اس بورڈ کا کام ٹیچرز کو تر بیت دینا اور ان کو ایک ٹیچرسر ٹیفکٹ جاری کرنا ہو۔ ملک میں ایک قانون ہونا چاہیے کہ بغیر ٹیچر سرٹیفکٹ کوئی بھی ٹیچر نجی یا سرکاری سکول میں پڑھانے کا اہل نہیں ہوگا
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn