ہمارے بچپن کی فلموں میں اِنٹرول کے بعد کہانی میں ہیرو کو پھانسی کی سزا سُنا دی جاتی تھی۔ ہیرو ظاہر ہے معصوم ہوتا تھا۔ اُس کی جان بخشی کے لیے ہیروئن کِسی ولی کے مزار پر دھمال ڈالتی تھی۔
اِس دھمال کے نتیجے میں ہیرو کی جان تو بچتی تھی اِس کے دو فائدے اور بھی تھے ایک تو فلم کی کہانی آگے بڑھتی تھی اور دوسرا یہ دھمال ایک طرح سے فلم کی کامیابی کے لیے دُعا بھی ہوتی تھی کہ یا اللہ اگر فلم ویسے چلے نہ چلے اِس دھمال کے صدقے ہی ہٹ ہو جائے۔
جان بخشی کروانے والی یہ دھمالیں داتا دربار، بری امام عبداللہ شاہ غازی پر ہوتی تھیں اور جب جان پر زیادہ ہی بنی ہوتی تھی تو پھر یہ فلم بنانے والے سیہون شریف پہنچ جاتے تھے اور حسینی لال قلندر، میرے غم ٹال قلندر کی اپیل کرنی پڑتی تھی۔
جن درگاہوں سے کبھی ہم اپنے پیاروں کی جان بخشی کے لیے دعا کرنے جاتے تھے اب اُن میں سے ہر ایک درگاہ ہماری قتل گاہ بن چکی ہے۔
راقم نے ظاہر ہے ساری پنجابی فلمیں نہیں دیکھی لیکن لت اِتنی بری تھی کہ بنیادی تعلیم کچھ ادھوری سی ہے۔ پھر ایک دِن آٹھویں جماعت میں نالائقیوں سے تنگ آ کر ایک شفیق اُستاد ایک درگاہ لے گئے وہاں وُہ بات سمجھ میں جو کبھی سینما یا کلاس میں سمجھ نہیں آئی تھی۔ وُُہ یہ تھی کہ زندگی کے کچھ کام آدھے ایمان ، بے یقینی کے ساتھ نہیں ہو سکتے۔ کوئی نیم دِلی سے نعرہ قلندر نہیں لگا سکتا، دھمال ڈالنے والوں کے پیر کبھی ہچکچاتے نہیں۔ اور جب ڈھول پر ڈگا پڑتا ہے تو یہ ایک میوزیکل اِنسٹرومنٹ نہیں ہے بلکہ دھرتی کہ دھڑکتے دِل کی آواز ہے۔
تم کہتے ہو یہ بِدعت ہے؟
قلندر کے پاس آنے والے لوگ، اپنا پیٹ کاٹ کر کرایہ اکٹھا کرتے ہیں، محلے والے مِل کر بس ویگن بک کرواتے ہیں۔ جن کو سال میں ایک نیا جوڑا کپڑوں کا نصیب نہیں ہوتا وُہ بھی لال چولا خریدتے ہیں، وُہ اپنے بچوں کے ساتھ، بچوں کے بچوں کے ساتھ، اپنے اصیل مُرغے اور بیمار بکریاں تک ساتھ لے کر آتے ہیں۔ اپنے برتن اور اپنا راشن ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ قلندر اُن کو نوکری نہیں دیتا، نہ پلاٹ پرمٹ، نہ کمیشن کا وعدہ کرتا ہے۔
تم پوچھتے ہو کہ پھر قلندر کے پاس کیوں اِتنا ہجوم ہے، کیوں آتے ہیں پورے ملک سے چل کر لوگ؟
اِس لیے کہ شہباز جب پرواز کرتا ہے تو ہمارے دلوں کے راز جانتا ہے جو ہمارے دِلوں کے راز جانتا ہے وہ ہمارا یار ہے اتنا تو پتہ ہی ہو گا کہ لوگ اپنے یار کے پاس کیوں جاتے ہیں۔
تم کہتے ہو وہاں فحاشی ہوتی ہے!
اگر تمہیں عورت فحش لگتی ہے تو یقینا فحاشی ہوتی ہے۔ اگر عقیدت سے ناچتی عورت فحش لگتی ہے تو یقینا قلندر کا مزار دُنیا کا فحاشی کا سب سے بڑا اڈا ہے۔ لیکن چونکہ تم فحاشی چھ سال کے بچے، بچیوں، پالتو جانوروں، پھلوں اور سبزیوں میں بھی ڈھونڈ لیتے ہو تو فحاشی کی بحث میں نہیں پڑتے۔ صِرف یہ یاد رکھو کہ سیہون کی گلیوں میں جب پنجابی فلموں کی عظیم اداکارہ انجمن اور اُس کی بہن گوری دھمال ڈالتے ہوئے قلندر کی درگاہ کی جانب روانہ ہوتی ہیں تو وُہ اوباش لوگ جو سینما میں اُن کو دیکھ کر سیٹیاں بجاتے تھے اُن کی نظریں بھی عقیدت سے جھُک جاتی تھیں۔
کیونکہ شہباز ہمارے دِلوں کے راز جانتا ہے۔
تم کہتے ہو ہمارے قاتل افغانستان سے آئے تھے۔
تم کہتے جاؤ ہم سُنتے جائیں گے۔ لیکن صِرف اِتنا بتا دو کہ ہمیں بتاتے آئے ہو کہ افغانستان دُنیا کی سُپر پاورز کا قبرستان ہے، یہاں تو سویت یونین کا جنازہ نِکلا۔ یہاں امریکہ کی جگ ہنسائی کا سامان ہوا اور تم نے بھی چھاتی پر ہاتھ مار کر اِس کارِ ثواب میں اپنا حصہ ڈالا۔ پھر ہمارے ساتھ کندھے سے کندھا مِلا کر لڑنے والے ہمارے خون کے پیاسے ہوگئے۔
اور اب تم کیا کرو گے؟ ایک بزرگ بلوچ کے الفاظ میں اگر تاریخ میں افغانستان کو کبھی کوئی فتح نہیں کر سکا تو تم کیسے کرو گے ماما؟
تم کہتے ہو انتقام لو گے۔ ضرور لو۔ ہمارے قاتلوں سے انتقام نہیں لے سکتے تو ہم سے ہی لو۔
لیکن نہ قلندر اِنتقام مانگتا ہے۔ نہ قلندری اِنتقام مانگیں گے کیونکہ وُہ جانتے ہیں اُن کوسزائے موت سُنائی جا چکی ہے اب اُن کے پاس دھمال ڈالنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے سو وُہ دھمال ڈالیں گے اور کہیں گے :
جیوندے رہے تے لال قلندر آن مِلاں گے
بشکریہ بی بی سی اردو
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn