Qalamkar Website Header Image
aamir

برگ کاہو کے کھیت

نوٹ : شام کے ادیب خالد خلیفہ کا ایک ناول ‘ اس شہر کے باورچی خانوں میں چھریاں نہیں ہیں’ حلب شہر کے لینڈ اسکیپ کے ساتھ چھپ کر سامنے آیا تھا۔میں نے اس ناول کو پڑھا تو اس کے کردار مجھے اپنے آس پاس ہی گھومتے پھرتے نظر آئے اور اس کے مرکزی خیال کو میں نے باقی رکھتے ہوئے، اس کا بندوبست پاکستان کے شہروں اور قصبوں پہ چسپاں کردیا ہے۔جس کے لئے میں خالد خلیفہ سے معذرت بھی کرچکا ہوں اور اسے لکھنے کا مقصد ادبی داد سمیٹنا نہیں چاہتا۔میں اپنے یہاں موجود آشوب کو بیان کرنے کی تلاش کرتا ہوں۔پاکستان کے ادیبوں کی اکثریت اپنے فن کو مصلحت شناس کرچکی ہے۔اس کی کہانیوں اور ناولوں میں ڈیرہ اسماعیل خان کے لئے کوئی جگہ ہے،نہ بلوچستان کے لئے اور نہ ہی کوئٹہ کی شیعہ ہزارہ آبادی کے لئے۔ان کو اپنے شہر کی گلیوں کی ویرانی پہ موت کے سائے سرے سے نظر ہی نہیں آتے۔اور نہ ان کو نسل کشی کے تعفن سے اپنا سر پھٹتا محسوس ہوتا ہے۔یہ سڑاند ان کے قلم کے ذریعے سفر کرتے ہوئے قاری کے دماغ تک نہیں پہنچتی کہ وہ اس بدبو کو ختم کرنے کی کوشش کریں۔یہاں کے شیعہ، صوفی سنی، احمدی،ہندؤ، کرسچن کس عذاب سے گزر رہے ہیں،اس کہانی کو بیان کرنے کا ان میں حوصلہ نہیں ہے۔یہاں ایسے رسالوں کی بھرمار ہے،جو ادب برائے ادب کے نعروں کی جگالی کرتے ہیں،اور جو مقصدیت کو ادب میں عیب خیال نہیں کرتے،وہ بھی یہاں کے افتادگان خاک کے عذابوں کو ان کا قصور گرداننے میں دیر نہیں لگاتے۔ایسے میں اگر ہم یوں تصرف نہ کریں تو کیا کریں؟امید ہے اس گستاخی کو لوگ معاف کردیں گے۔ع ۔ح

میں گھر کی جانب پلٹ رہا تھا، مجھے یاد آیا کہ میری ماں کی ابھی عمر 65 سال بھی نہیں ہوئی تھی کہ وہ اچانک مرگئی۔میں اندر سے خوش تھا، مجھے لگتا تھا کہ ان کو تو دس سال پہلے ہی مرجانا چاہئیے تھا۔ان کو ان دس سالوں میں مسلسل آکسجین کی کمی ہوجانے کی شکایت رہتی تھی۔
میرے انکل نزار نے مجھے بتایا کہ ایک دن وہ دوپہر کو اپنے سڑے ہوئے بستر سے بیدار ہوئیں اور انہوں نے کسی نامعلوم شخص کو ایک طویل خط لکھنا شروع کردیا۔جس کے بارے میں ہم نے سوچا کہ ہوسکتا ہے وہ ان کا عاشق ہو یا کوئی پرانا دوست اور گھنٹوں انہوں نے اپنے بیتے دنوں کی باتیں کی ہوں گی،جن کی اب یہاں کسی کے ںزدیک کوئی اہمیت نہیں رہی تھی۔لیکن وہ اپنے آخر دنوں میں ان دنوں کو ساتھ لےکر بیٹھی رہی اور ان سے دست بردار ہونے کو تیار نہ تھی۔
اسے یقین ہی نہیں آتا تھا،کسی بھی فانی شخص کی طرح صدر مرچکا تھا۔اس کی تدفین کی رسومات بھی ادا کردی گئیں تھیں اور قومی سطح پہ اس کی مرگ پہ سوگ منایا جاچکا تھا۔ٹیلی ویژن پہ اس کی پرانی تقریں نشر کی گئیں تھیں۔سینکڑوں لوگ ٹی وی ٹاک شوز میں نمودار ہوئے،جنھوں نے مرحوم کی خوبیاں گنوائیں، اس کی تعریف کرتے ہوئے ان کی آنکھیں بھیگ جاتی تھیں،وہ اسے عظیم دانا رہنماء،امن و جنگ کا رہنماء اور بہترین ایتھلیٹ قرار دیتے نہیں تھکتے تھے۔مگر میری ماں کو یقین نہیں آتا تھا۔
میری ماں کہتی تھی،’طاقت اور جبر کبھی مرا نہیں کرتے۔جن مظلوموں کا خون بہایا جاتا ہے،وہ ظالم و خونخوار کو اتنی آسانی سے مرنے نہیں دیتا۔دروازے میں ایک شگاف رہ ہی جاتا ہے،اور یہ اسی وقت بند ہوتا ہے جب قاتلوں سے ان کے ظلم کا بدلہ لے لیا جاتا ہے۔
وہ اپنی پسندیدہ کہانیوں کو اپنے ماضی کے ساتھ اپنے ہی لفظوں میں گھما پھرا کر جوڑ دیا کرتی تھی۔بے خودی میں وہ بڑے ہی دلکش انداز میں وہ اپنی دوستوں کا احوال سنایا کرتی۔ان کی تصویروں کو ہمیں دکھاتی۔وہ اپنے ماضی کو شاندار بناکر دکھاتی اور اتنی مسرت اس پہ دکھاتی،ایسا لگتا تھا جیسے وہ اپنے عام سی ماضی کی زندگی سے انتقام لے رہی ہو۔ وہ ہمیں کہتی کہ ‘سورج ایسا ہوا کرتا تھا، بارش کے بعد کیسے زمین سے سوندھی سوندھی خوشبو اٹھا کرتی تھی۔’ وہ ہمیں یہ یقین دلانے کی کوشش کرتی تھی کہ جتنے خوبصورت زمانے میں اس نے زندگی گزاری،ہم نہیں گزار رہے تھے۔جب برگ کاہو کے کھیتوں پہ پورا جوبن ہوتا تھا اور عورتوں کی نسائیت جمال سے بھری ہوتی تھی۔

اس نے شکستہ خط میں لکھے نوٹس میز پہ پٹک دئے تھے۔جو وہاں کئی دن پڑے رہے تھے۔ہم نے جتنی توجہ ایک دوسرے پہ کی تھی،اتنی بھی ان کاغذات کی طرف نہ کی تھی۔باب نصر پہ انکل عبدالمنعم کی بک شاپ سے اس نے خصوصی چینی روشنائی خریدی تھی اور اس سے ان صفحات کو لکھا تھا۔اب گرد ان لکھی لائنوں پہ پڑی ہوئی تھی۔وہ اکثر اس کی دکان پہ جاتی اور لکیر دار کاغذ مانگتی،جن سے دار چینی کی بو آتی تھی۔وہ اس کے تازہ جنون سے واقف تھا،اس لئے وہ اس سے اسٹریٹ کار ایرا کی یادوں کو تازہ نہیں کرتا تھا۔ان کی وہ یادیں جسے وہ خار دار تاروں کے پیچھے بیتا بچپن اور ایک پیحیدہ قسم کا رشتہ کہا کرتے تھے۔بس وہ اسے چپکے سے سفید کاغذوں کا ایک دستہ تھمادیتا تھا اور اس کی رقم واپس کردیتا تھا۔وہ سنی ان سنی کردیتا تھا،جب وہ اسے بے حس، کٹھور اور رواقی کہتی تھی۔
چچا منعم بھی ایسے ہی تھے، وہ اپنی دکان میں اس کونے میں بیٹھتے جہاں تھوڑا اندھیرا ہوتا اور جہاں ان کے خاندان کا ایک مشترکہ فوٹو ان کے سامنے رہتا تھا۔اس فوٹو میں درمیان میں ان کا مسکراتے چہرے اور چمکدار بالوں کے ساتھ بیٹا یحییٰ کھڑا تھااور اس کے بھائی حسن و حسین کے بازو اس کے گرد لپٹے ہوئے تھے،یہ پوزیشن بھائیوں کے درمیان زبردست ہم آہنگی کو ظاہر کرتی تھی۔
اس تصویر میں چچا منعم کو بس یحییٰ ہی نظر آتا تھا، جس کی آخری بار اس نے یونیورسٹی ہسپتال کے مردہ خانے میں لاش ہی دیکھی تھی۔اس کا جسم جھلسا ہوا تھا، سب انگلیاں غائب تھیں۔اس کے بدن پہ بجلی کے شاک سے نشان پڑے ہوئے تھے،جگہ جگہ سے چاقو سے بدن کاٹا ہوا تھا۔اسے ایک ہی نظر میں پہچانا جاسکتا تھا۔اس شناخت کے بعد فارنزک ڈاکٹر نے اسے لوہے کے تابوت میں بند کردیا اور بیٹے کے چہرے کو چھونے کی باپ کی درخواست ٹھکرا دی تھی۔ڈاکٹر نے سردمہری سے اسے بتایا کہ بیٹے کو بنا رسومات ادا کئے جلدی سے دفنادیں اور وہیں مردہ خانے سے ہی مسلح ریاستی اہلکار کے گھیرے میں اسے یہ کام کرنے کو کہا گیا۔
عبدالمنعم ،حسن و حسین اور اپنے ایک دوست کے ہمراہ ہسپتال پہنچا تھا،اور اسے بے رحمی کے ساتھ اسے مغرب سے پہلے پہلے یہ سب کرنا پڑا تھا۔انھوں نے ایک کھٹارا وولکاس ویگن کو میت گاڑی کے طور پہ استعمال کیا،اسے اندر لٹایا اور وہیں اسے کفن پہنایا۔وہ ایک دوسرے کو تکتے جاتے اور خاموشی سے آنسو بہاتے جاتے تھے۔
موت ڈیرہ اسماعیل خان کی ویران گلیوں میں پھیلی ہوئی تھی۔سب کچھ بہت جابرانہ اور ناقابل برداشت ہوچلا تھا۔
موت کیچ کی ویران گلیوں میں پھیلی ہوئی تھی۔سب کچھ جابرانہ اور ناقابل برداشت ہوچلا تھا۔
موت آواران، مشکے، خضدار، مستونگ، کی گلیوں میں پھیلی ہوئی تھی۔سب کچھ جابرانہ اور ناقابل برداشت ہوچلا تھا
موت مصر کے صحرائے سینا کے اس چھوٹے سے نخلستان میں آباد گاؤں کے ویرانوں میں پھیل چکی تھی اور سب کچھ ناقابل برداشت ہوچلا تھا۔
موت نائیجیریا کے شمال میں ہر ایک صوفی،کرسچن، شیعہ گاؤں میں پھیل چکی تھی، اور سب کچھ بہت جابرانہ اور ناقابل برداشت ہوچلا تھا۔
(مگر جس انسٹی ٹیوٹ نے مجھے یہ ناول لکھنے کا پروجیکٹ دیا تھا،اس کا اصرار تھا کہ میں حلب کی ویران گلیوں میں موت کو پھیلنا دکھاؤں اور وہیں سب کچھ جابرانہ اور ناقابل برداشت ہونا لکھوں،سو میں نے اس ناول کے انگریزی روپ میں ‘حلب ‘ لکھ دیا۔سوچ رہا ہوں اس کے ہندی روپ میں کشمیر،چھتیس گڑھ، ناگا لینڈ میں موت کے پھیل جانے اور سب کچھ بہت جابرانہ و ظالمانہ ہونا لکھوں گا،مگر مجھے لگتا ہے اردو میں اس ناول کے لکھنے کے بعد ،ہندی یا کسی اور زبان میں یہ ناول لکھنے کی نوبت نہیں آئے گی۔اور میری مسخ شدہ لاش،جو میری بیوی میری دائیں ہاتھ کی انگلی میں پہنی انگوٹھی سے شناخت کرے گی اگر میری وہ انگلی میرے بدن کی مسخ شدگی کے عمل کے دوران محفوظ رہی تو،ایسے ہی کسی کھٹارہ گاڑی کو میت گاڑی بناکر اس میں ڈالی جائے گی اور فوری کفن پہناکر دفنانے کی کوشش کی جائے گی اور اس دوران میری موت کے جوازکے بارے میں بہت سے مفروضے گھڑ لئے جائیں گے۔خوردبین لگاکر سوشل میڈیا پہ میرے فیس بک اکاؤنٹ پہ کسی پوسٹ کی کوئی سطر یا میرا کوئی ٹوئٹ ڈھونڈ نکالا جائے گا،اور پھر کہا جائے گا، ایسے آدمی کو مرنا تو ہوتا ہی ہے۔)
موت برما، فلسطین،عراق،شام،لبنان،مصر، صومالیہ،تیونس،لندن، نیویارک،فلوریڈا،بریڈفورڈ،برسلز،پیرس کہاں نہیں پھیلی ہوئی تھی۔ہاں کچھ جگہوں پہ اتنی ویرانی واقعی نہیں تھی،جتنی کوٹلی امام حسین ڈیرہ اسماعیل خان میں پھیلی نظر آتی تھی۔
وہ خاندانی قبرستان آئے۔سپاہیوں نے ان کو جنازہ اندر لے جانے کو کہا،جہاں مولوی پہلے ہی نماز جنازہ پڑھنے کے لئے پہنچ چکا تھا۔منعم نے حواس باختگی کے ساتھ سر ہلایا اور اس نے کچھ بڑبڑاہٹ کی جو سمجھ نہیں آئی۔مولوی نے جلدی سے دعائیں پڑھیں،میرے کزن اس کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے۔جب سپاہیوں نے جنازے پہ ڈالی گئی ایک میلی سی چادر اٹھائی اور لاش اٹھالی تو کسی نے نظر اٹھاکر بھی نہیں دیکھا۔ان کو ایسے آنکھوں کے تاثرات لانے کی اجازت نہ تھی جس سے لگے کہ وہ اپنے کسی پیارے کو دفن کررہے ہوں۔انہوں نے اپنے آنسوؤں کو آنکھوں کے اندر ہی روک لیا،جب کہ انہوں نے اپنے والد کی طرف دیکھا،جو کہ اب تک خاموشی سے چلارہا تھا اور وہ جو بڑبڑا رہا تھا ،اس کی کسی کو سمجھ نہیں آرہی تھی۔
میری ماں طویل مدت کومہ میں رہنے کے بعد جاگ گئی تھی اور وہ نزار کے ساتھ ڈنر ٹیبل پہ بیٹھی،جبکہ نزاز ایک مکھی کی بھن بھن کی طرح خاموشی سے گنگنا رہا تھا۔اس نے اس آدمی کو لکھے خط کی ایک سطر پڑھ کر سنائی،جسے وہ اپنا دوست کہتی تھی: "سب کچھ ختم ہوچکا ہے۔اور میں اب تمہارے ساتھ سمندر میں جہاز کے عرشے پہ رقص کرنے کا وعدہ وفا نہیں کرسکتی۔” اس نے گزشتہ خط جس کپکپاتے لہجے میں پڑھا تھا،اسے اس بار ترک کردیا تھا،اور سپاٹ لہجے میں اس نے پڑھا،کیونکہ وہ ان لوگوں پہ اعتماد نہیں کرسکتی تھی جن کی حس شامہ چوہوں کی سی ہوگئی تھی۔اس سے اس بات کا کوئی خوف نہ تھا کہ اس کا خط سنسر بورڈ کے ہتھے چڑھ سکتا تھا۔اس نے ہمت کو آخری لمحات میں مجتمع کرکے اعلان کیا کہ اس کے لئے یہ سب ایک جیسا تھا اور اسے اب کسی سے منظوری لینے کی پرواہ نہیں رہی تھی۔اسے ایک لمحے کو بھی ایسا نہیں لگا کہ وہ کسی جرم کا ارتکاب کررہی ہو۔اسے لگا کہ موت کا سامنا اس وقت ہوتا ہے جب آپ کوئی شاندار اور عظیم خواب دیکھتے ہوں جب کہ وہ تو بہت پہلے اپنے خوابوں کو دفنا چکی تھی اور اسے اب اپنی شکست کے بارے میں کجھ بھی چھپانے کی ضرورت نہیں رہی تھی۔نزار کو لکڑی کی کرسی پہ اس کے پہلو میں رات بھر خاموش بیٹھ کر اسے سننے کی عادت سی ہوگئی تھی۔جب وہ اچانک کومے سے جاگ جاتی اور اسے بہت کچھ بتانے لگتی تھی۔وہ اسے اپنے فریب خیال اور ہذیان کے بارے میں بتاتی،اور اسے ایسے بتاتی جیسے اس نے کوئی فلم دیکھی ہو جو کسی اور نے نہ دیکھی ہو۔وہ بہت ہی سکون کے ساتھ ان بھوتوں کی نشاندہی کرتی جو اس کے بقول میرے بھائی رشید کو نشانہ بناگئے تھے۔بات کرتے کرتے اچانک وہ نزار سے ملک کے حالات پوچھنے لگتی تھی۔
(ویسے یہ بھوت ہر جگہ تھے،کافر کافر کا نعرہ لگاتے،موٹر سائیکل پہ سوار، 30 بور پستول کے فائر کسی شبیر حسین بلوچ پہ کرتے،تو کہیں یہ کسی صبا دشتیاری پروفیسر کو قتل کردیتے تھے،کسی خرم ذکی کو، کسی استاد سبط جعفر کو اور تو اور کسی ڈاکٹر کو اس کے بیٹے مرتضی حیدر کے ساتھ ماردیتے تھے۔اور اگر کوئی ان بھوتوں کے چہروں سے نقاب نوچنے کی کوشش کرتا یا ان کو روشنی میں لانے کی کوشش کرتا تو اسے ایک دم سے فرقہ پرست یا غدار وطن قرار دے دیا جاتا۔اس کے خلاف نیشنل ایکشن پلان، سائبر کرائم ایکٹ،پاکستان پروٹیکشن ایکٹ کو حرکت میں لے آتا، پیمرا، پی ٹی اے، ایف آئی اے، ایم آئی، آئی بی ، سی ٹی ڈی سب حرکت میں آجاتے)
دوبارہ اپنی خاموشی کے ساگر میں ڈوب جانے سے پہلے گھنٹوں اس سے باتیں کرتیں، اس دوران اس کی باتیں بہت صاف ہوتیں، اس کے ہاں روانی بہت ہوتی اور اس قوت کے ساتھ وہ اپنے خیالات پیش کرتی کہ اسے بہت حیرانی ہوتی تھی۔وہ سبزیوں کی قیمت کےبارے میں پوچھتی اور اس نے میرے والد کے ساتھ میدان عکباس میں جو راتیں گزاریں تھیں،ہنس کر ان کی یاد تازہ کرتی تھی۔وہ ایسے ہنستی جیسے کوئی ہنس سکتا تھا اور ٹھنڈی آہیں بھرتے ہوئے وہ یاد کرتی کیسے ایلنا کے لئے کافی بنایا کرتی تھی اور اسے سکھاتی کہ خوبانی کا جام کیسے بنایا جاتا ہے۔جو ان سے واقف نہیں تھا، اس کے لئے یہ ایک نارمل،مکمل قسم کا سین ہوتا: بہن اور بھائی، عمر کے آخری حصّے میں، باہم بیٹھ کر ،فرائی تلوں کے ساتھ شغل کرتے ہوئے اپنے خاندان کی سرگزشت بیان کررہے ہیں،جس کا ان کو پہلے کبھی موقعہ میسر آیا ہو۔اور کئے دنوں کے کرداروں کا دوبارہ سے جائزہ لے رہے ہوں۔اور پھر جیسے ہی ان کو احساس ہوتا ہے، جن کے بارے میں وہ بات کررہے ہیں،وہ یا تو مرچکے ،یا وہ فرار ہوچکےہی ہوچکے ہیں ہے،وہ ایک دم سے خاموش ہوجاتے ہیں۔اور جس تاریخ کے ساتھ وہ جھول رہے ہیں، وہ اپنی تمام خوبصورتی کے باوجود ان کو سوائے دکھوں کے کچھ بھی تو نہیں دے سکی۔

حالیہ بلاگ پوسٹس

کنفیشن باکس

سرد ہوا جیسے رگوں میں خون جمانے پر تلی تھی ۔ رات بھر پہاڑوں پہ برف باری کے بعد اب وادی میں یخ بستہ ہوائیں تھیں ۔ خزاں گزیدہ درختوں

مزید پڑھیں »

کتبہ (افسانہ) غلام عباس

شہر سے کوئی ڈیڑھ دو میل کے فاصلے پر پُر فضا باغوں اور پھلواریوں میں گھر ی ہوئی قریب قریب ایک ہی وضع کی بنی ہوئی عمارتوں کا ایک سلسلہ

مزید پڑھیں »

داعی (افسانچہ) – ابوعلیحہ

مولانا کمال کے آدمی تھے۔ ستر برس کے پیٹے میں بھی ان کے ضخیم بدن کا ہر ایک رونگٹا، ان کی مطمئن صحت کی چغلی کھاتا تھا۔ ملیح چہرے پر

مزید پڑھیں »