Qalamkar Website Header Image

کچھ تصویریں۔۔۔

اوپر جو آپ تصویر میں دیکھ رہیں کہ پاکستان کا وزیراعظم خاقان عباسی گوادر میں ترقیاتی منصوبے کا افتتاح کرنے آرہا ہے۔نیچے سرخ قالین بچھائے گئے ہیں۔کیمروں کی چکاچوند روشنیاں ہیں۔پاکستان کے ہر ایک نیوز ٹی وی چینل نے اس خبر کو بریکنگ نیوز کے طور پہ چلایا۔گھنٹے بعد آنے والے ہر نیوز بلیٹن میں یہ خبر موجود تھی۔

دوسری تصویر جو آپ دیکھ رہےہیں،یہ گوادر کے اندر پانی کی عدم دستیابی پہ احتجاج کرنے والی خواتین کی تصویر ہے۔یہ اسی دن مظاہرہ ہوا۔یہ خبر کسی ایک ٹی وی چینل پہ نشر نہیں ہوئی،کراچی،لاہور،ملتان،پشاور سے شایع ہونے والے کسی اردو اخبار میں شایع نہیں ہوئی۔نہ ہی انگریزی پریس نے اس خبر کو شایع کیا

تیسری تصویر ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک ہفتے میں ہونے والی چھے شیعہ کمیونٹی کے افراد کی ٹارگٹ کلنگ کے خلاف ہوئے خواتین کے احتجاج کی تصویر ہے۔

چوتھی تصویر کراچی پریس کلب کے باہر بیٹھی بلوچ لڑکیوں کی ہے،ان میں سے ایک صغیر احمد بلوچ کی بہن ہے،جو کراچی یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کا طالب علم ہے،اسے کراچی یونیورسٹی کی کینٹین پہ سادہ لباس میں ملبوس مبینہ طور پہ خفیہ ایجنسی کے ادارے اٹھاکر لے گئے اور اب یہ جبری لاپتا ہے۔صغیر کی بہنوں نے کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس کرنے کے لئے وقت لیا۔پانچ بجے پریس کانفرنس ہونا تھی،لیکن نامعلوم دباؤ کے سبب کراچی پریس کلب کی انتظامیہ نے پریس کانفرنس کرانے سے معذوری ظاہر کردی۔اور ان کو پریس کلب کے احاطے سے روک دیا۔مجبور ہوکر یہ پریس کانفرنس فٹ پاتھ پہ کی گئی۔

یہ بھی پڑھئے:  اپنے دیس میں اجنبی - حصہ دوم

پاکستان میں ایک بڑی حقیقت یہ ہے کہ مظلوم و محکوم نسلی و مذہبی گروہوں کے مردوں کے لئے احتجاج کرنے، آزادی اظہار کا حق استعمال کرنے پہ غیر اعلانیہ پابندیاں قائم کردی گئیں،اور اکثر گھرانوں کے مرد جبری لاپتا،یا ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن گئے ہیں۔ایسے میں عورتیں،نوجوان لڑکیاں میدان عمل میں اتریں۔

بلوچ ، شیعہ ہزارہ، ڈیرہ اسماعیل خان کی شیعہ سرائیکی و پشتون برادری کی عورتیں سڑکوں پہ بار بار آتی ہیں،لانگ مارچ،دھرنے،احتجاج سب کرکے دیکھ رہی ہیں۔ریاستی ایجنسیاں اور تکفیری دہشت گرد ان عورتوں کو بھی نشانہ بنانے کے راستے پر ہیں۔

اس حقیقت کا ایک اور پہلو بھی ہے۔اور وہ یہ ہے کہ پاکستان کی سول سوسائٹی اور مین سٹریم میڈیا کا غالب حصّہ غائب کردینے والوں، اغواء کرنے والوں، ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنانے والوں کے دباؤ،دھونس، لالچ،یا شعوری بے ایمانی کے سبب اس ایشو پہ ریاست اور حکومت پہ دباؤ ڈالنے کو تیار نہیں ہے۔اور دن بدن مظلوموں اور محکوموں میں غصّہ،بے گانگی،علیحدگی کے جذبات ترقی کرتے جارہے ہیں۔

پاکستان کی کوئی بڑی سیاسی پارٹی اور اس کی قیادت ان ایشوز کو اپنی مرکزی پالیسی میں شامل نہیں کئے ہوئے ہے۔پارلیمنٹ جبری گمشدگیوں کا اقدام کرنے والوں کو نکیل ڈالنے میں ناکام ہوئی ہے۔جبکہ ذمہ دار ادارے اس ملک کے اندر دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کی نرسریوں کو مین سٹریم کرنے کا پروجیکٹ چلارہے ہیں۔

حالیہ بلاگ پوسٹس