پاکستان میں نومبر کی 26 تاریخ کلینڈر پہ ابھر چکی تھی اور جمعہ ہفتے میں بدل گیا تھا اگرچہ پاکستانیوں کی اکثریت ابھی خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہی تھی جبکہ نائٹ شفٹ کرنے والے محنت کش اپنی شفٹ ختم ہونے کا انتظار کررہے تھے اور اخبارات کے دفتر سے سیمی لوکل اور لوکل ایڈیشن نکل چکے تھے تو کیوبا کے سرکاری ٹی وی پہ کیوبن صدر راہول کاسترو نمودار ہوئے اور انہوں نے پوری دنیا کو ایک انتہائی دکھ بھری خبر دی،
” کیوبن انقلاب کے بانی اور کیمونسٹ کیوبا کے پہلے وزیراعظم و پہلے صدر فیدل کاسترو 90 سال کی عمر میں انتقال کرگئے”
میں اس وقت آن لائن اپنے کام میں مصروف تھا جب میرے لیپ ٹاپ کی ونڈو کے انتہائی دائیں جانب روسی ٹی وی آر ٹی کی ہیڈ لائن چمکنے لگی تھی۔میں نے اچٹتی سی نظر ڈالی اور خبر ایسی تھی کہ میں فوری چونک گیا، میں نے سب کام چھوڑے اور اپنے لیپ ٹاپ پہ آر ٹی آن آئر دیکھنے لگ کیا ، جو فیدل کاسترو بارے خصوصی نشریات دے رہا تھا، اب یہ اتفاق تھا کہ آج کے دن ہی میں نے اپنی لائبریری سے فیدل کاسترو کی دو کتابیں ‘ دی ورلڈ اکونامک اینڈ دی سوشل کرائسز’ اور ‘آن دی امپریلسٹ گلوبلائزیشن’ پڑھنے کے لئے نکالی تھیں، اصل میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے دیگر ریاستوں سے آزاد تجارت کے معاہدوں کی تنسیخ کا عندیہ ظاہر کررہا ہے اور دوبارہ سے سٹیٹ کیپٹل ازم کی طرف پلٹ جانے کی بات کرتا ہے اور گلوبلائزیشن کو مشکوک قرار دیتا ہے اور تارکین وطن محنت کش طبقے سے زیادہ امریکہ کے مقامی محنت کشوں کی فلاح بہبود کو مقدم جاننے کی بات کررہا تھا تو مجھے فیدل کاسترو یاد آئے تھے، اب مجھے نہیں پتا تھا کہ یہ ایسا اتفاق ہے کہ میں ان کی موت کی خبر سنوں گا
میں ماضی میں کھوگیا۔فیدل کاسترو کب میرے ہیرو بنے تھے اور کب وہ ان لوگوں کی فہرست میں شامل ہوئے تھے جن سے میں محبت کرتا ہوں اور جن سے کبھی مجھے اجنبیت محسوس نہیں ہوئی تھی۔میں نے اپنی یادداشتوں کو کھنگالا تو مجھے یاد آیا کہ میں صحن میں کھیل رہا تھا ، جب میرے ماموں حمید ، میرے دو ایک اور رشتے دار چارپائیوں پہ بیٹھے ہوئے کسی معاملے پہ بحث و مباحثہ کررہے تھے۔ جب میں نے اپنے ماموں کو کہتے سنا تھا، ” ہمیں فیڈل کاسترو جیسے لیڈر کی ضرورت ہے جو ہمارے معاشرے کو ایک پڑھے لکھے سماج میں بدل سکے، ایسا سماج جہاں کسی کو تعلیم ، رہنے کے لئے گھر، پیٹ بھرنے کے لئے خوراک ، اور بیماری سے نجات پانے کے لئے اپنا آپ نہ بیچنا پڑے”میں اس وقت 12 سال کا تھا اور میرے لئے ان شبدوں کی اس عمر میں کوئی ایسی خاص اہمیت بنتی نہیں تھی کیونکہ روٹی ، کپڑا، رہائش ، علاج سب میسر تھا اور ایک کاروباری گھرانے میں ان سب چیزوں سے آگے کی طلب ہوا کرتی ہے۔مگر جب میں کالج پہنچا اور لیفٹ کی سیاست سے روشناس ہوا اور اس دوران بہت سے المیے زر سے ابھرتے دیکھے تو مجھے احساس ہوتا چلا گیا کہ فیدل کاسترو جیسے لیڈر کیوں کسی بھی سماج کے لئے ضروری ہوجاتے ہیں۔
کیوبا کا فیدل کاسترو مجھے ایک سحر انگیز شخصیت کیوں لگتا تھا؟ اس کی ایک سادہ سی وجہ تو یہ تھی کہ اس نے اپنے ملک کو 1959ء میں امریکی سامراجیت کے چنگل سے آزاد کرایا تھا۔اور اس حوالے سے اس نے ایک مرتبہ کہا تھا،
” میں نے 82 افراد کے ساتھ انقلاب برپا کیا تھا اور میں اگر یہ انقلاب دوبارہ برپا کرنا چاہوں تو دس سے بارہ لوگوں کے ساتھ بھی کرسکتا ہوں جو کہ پرعزم ہوں اور انقلاب پہ مطلق یقین رکھتے ہوں” ۔جب پہلی بار میں نے فیدل کاسترو کا یہ جملہ پڑھا تھا تو مجھے تھوڑی ہنسی آئی تھی لیکن جب میں بی اے میں پہنچا اور میں لاطینی امریکہ کے ” طلسماتی حقیقت پسندانہ ادیبوں” جارج لوئس بورخس اور گبیرئیل کارشیا مارکیز وغیرہ کو پڑھنا شروع کیا تو مجھے سمجھ میں آگیا کہ ایسے جملے لاطینی امریکہ کے انقلابیوں کے منہ سے کیسے نکلتے ہیں۔اور فیدل کاسترو کی گبرئیل کارشیا مارکیز کے ساتھ دوستی بھی انمٹ تھی۔فیدل کاسترو کو امریکی کیمپ کے دانشور اور لکھاری کبھی پسند نہیں کرتے تھے، امریکی کیمپ کے لئے فیدل کاسترو ایک آمر تھا اور شخصی آزادیوں کا سب سے بڑا دشمن۔ایسے ہی ایک شخص نے گارشیا مارکیز سے ملاقات کے دوران پوچھا تھا کہ وہ فیدل کاسترو جیسے آمر سے اس کی دوستی سمجھ نہیں پایا تو گارشیا مارکیز نے بے اختیار کہا تھا کہ ” سامراجی ذہن کبھی بھی انقلاب کی ضرورت اور اہمیت کو سمجھ نہیں سکتا” یہ بظاہر سوال گندم جواب چنا لگتا ہے لیکن دیکھا جائے تو مارکیز نے بتادیا تھا کہ سرمایہ داری کے تعفن میں لتھڑے ذہن کو طبقاتی سوال سے جڑی سیاست سے نفرت کیوں تھی۔کیوبن صدر فیدل کاسترو نے ایک موقعہ پہ دنیا کو بتلایا تھا، ” محنت کشوں کی آمریت دراصل استحصال کرنے والی اقلیت کے خلاف سیاست ہوا کرتی ہے” اور مجھے فیدل کاسترو کے انقلاب کی تفہیم کا ایک نیا زاویہ اس وقت نظر آیا تھا جب فیدل کاسترو نے کہا تھا،” ہمارے انقلاب کے عظیم ترین فائدوں میں سے ایک فائدہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں طوائفیں جسم فروشی ترک کرچکی ہیں اور وہ گریجویٹ ہیں اور برسر روزگار ہیں ” یہی ایک جملہ ہمیں اس انقلاب کی افادیت بتانے کے لئے کافی ہے۔ہم تو اپنے ہاں ایک قندیل بلوچ کو بچا نہ سکے اور جب میں اپنے سرائیکی وسیب میں پریس کلبوں کے سامنے "بچے برائے فروخت ” کے کارڈ لٹکائے والدین کو کھڑے دیکھتا ہوں، اور کبھی کسی”سمیرا” کو اپنے آپ کو آگ لگاتے دیکھتا ہوں تو بے اختیار کیوبا کا یہ فیدل کاسترو یاد آتا ہے، کیا فیدل کاسترو نے لوگوں کو روٹی کی فراہمی کی ضمانت دیکر جناب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اس قول کی عملی تعبیر پیش نہ کرکے دکھائی کہ ” فرات کے کنارے بھی ایک کتا اگر بھوکا مرگیا تو اس کا جواب دے عمر فاروق (رضی اللہ عنہ ) ہوگا” ۔
فیدل کاسترو کی موت کی خبر سے جہاں دنیا بھر میں محنت کشوں، کسانوں کے اندر غم و اندوہ کی لہر دوڑ گئی وہاں سرمایہ داروں کے حامی اور امریکی نیولبرل مارکیٹ کے دلدادہ لبرل بدھی مانوں کے ہاں جشن کا سماں تھا۔امریکہ کے ایک شہر میں اکٹھے ہونے والوں نے شمپئن ( اس سے ان کی امارت کا اندازہ تو ہوتا ہی ہے،ان کی بدمستی کا اندازہ بھی کیا جاسکتا ہے)کی بوتلیں کھولیں، تیز میوزک پہ ڈانس شروع کردیا، یہ وہ کیوبن تھے جن کے باپ دادا پہلے ہسپانوی سامراج کے ساتھ ملکر کیوبن عوام کو لوٹتے کھسوٹتے رہے پھر امریکی سامراج کے گماشتے باٹسٹا کے ساتھ ملکر کیوبن عوام کو غلام بنائے رکھا تھا اور جب کیوبا میں انقلاب آیا تو اس کے خلاف سازش کرتے رہے اور اپنا سرمایہ امریکہ لیکر آگئے، انھوں نے کیوبا کی تعمیر کرنے سے انکار کیا۔ان کو فیدل کاسترو سے سب سے زیادہ نفرت اس بات کی ہے کہ اس نے اپنی عوام کی قیمت پہ چند خاندانوں تک ہی امارت کو محدود کیوں نہیں رکھا؟پاکستان میں بھی ایسے لبرل بدھی مانوں کی کمی نہیں ہے جو فیدل کاسترو کو ایک آمر، جابر اور فرعون بناکر پیش کررہے ہیں اور اس کی وجہ یہی ہے کہ ان کی امریکی آقاؤں کو بھی انہی فقروں کی جگالی اچھی لگتی ہے۔ یہ تو ذوالفقار علی بھٹو کی کچی پکّی نیشنلائزیشن اور زرعی اصلاحات ، لیبر و ايجوکیشنل سوشلسٹ ریفارمز کو آج تک بھول نہیں پائے اور جب بھی ذوالفقار علی بھٹو کا نام آئے تو ان کا منہ گالیوں سے بھر جاتا ہے۔حالانکہ ذوالفقار علی بھٹو اگر دس روپے غریبوں کو دے رہے تھے تو 90 روپے وہ استحصالیوں کی جانب بھی پھینک دیتے تھے تو وہ فیدرل کاسترو جیسے آدمی کو کیسے معاف کرسکتے ہیں جس نے کیوبا کو اٹھانوے اعشاریہ آٹھ فیصد شرح خواندگی رکھنے والے صرف پانچ ملکوں میں شامل کیا،دنیا کی بہترین میڈیکل کئیر سسٹم دیا ، اور سو فیصد روزگار اور رہائش کی ضمانت فراہم کی ۔اس نے کیوبا میں جب حقیقی زرعی اصلاحات کا آغاز کیا تو سب سے پہلے اپنی سینکڑوں ایکٹر اراضی کسانوں میں تقسیم اور پھر باقی زمینوں کو بھی کسانوں میں تقسیم کردیا اور آج کیوبا میں آپ کو ڈھونڈے سے بھی قبائلی ، جاگیرداری ملکیت اور زمیندار اشرافیہ نہیں ملے گی ، کوئی سردار، وڈیرہ ، خان ، ملک نہیں ملے گا اور اس سے بھی آگے کیوبا میں آپ کو پرائیویٹ ہسپتال، نجی اسکول،نجی کالج، نجی یونیورسٹی نہیں ملے گی، تعلیم اور صحت وہاں تجارت نہیں ہے ، ہاؤسنگ کے نام پہ لینڈ مافیا نہیں ملے گا۔تیسری دنیا کے ملک تو ایک طرف رہے یہ سب تو دنیا کے انتہائی ترقی یافتہ سرمایہ دار ملکوں میں بھی ایک خواب ہی ہے اور پاکستان میں تو حالت یہ ہے کہ یہاں پنجاب حکومت سرائیکی خطے میں ملتان کا واحد کڈنی سنٹر بھی سرمایہ داروں کے حوالے کررہی ہے اور ہسپتالوں کی نجکاری کا عمل بھی جاری و ساری ہے
فیدل کاسترو ہمیشہ مظلوموں، استحصال کا شکار لوگوں کے دلوں میں بسا رہے گا اور وہ جسمانی طور پہ موت کا شکار ضرور ہوئے ہیں لیکن ان کے افکار ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔میں اپنے اس کالم کو فیدل کاسترو کے ان جملوں پہ ختم کررہا ہوں
"میں بہت جلد ہی 90 سال کا ہوجاؤں گا،اور جلد ہی میں بھی دوسروں کی طرح (مرجاؤں گا) ہوجاؤں گا،ایسا وقت ہم سب پہ آئے گا، لیکن کیوبا کے اشتراکیوں کے خیالات اس کرہ ارض پہ اس ثبوت کے ساتھ رہیں گے کہ ان کو پورے عزم اور پورے وقار کے ساتھ بروئے کار لایا گیا تھا۔اور وہ ایسی مادی و ثقافتی چیزیں پیدا کرنے میں کام آسکتے ہیں جن کی انسانوں کو ضرورت ہے اور ہم غداری کئے بغیر ان کو حاصل کرنے کے لئے لڑسکتے ہیں "۔ سرخ سلام فیدل کاسترو، ریسٹ ان پیس
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn