جولائی ،اگست میں ویسے ہی حبس باہر بہت ہوتا ہے اور پھر اندر بھی حبس ہو تو گھٹن آپ کو مار ڈالے دے رہی ہوتی ہے۔اور ایسے میں لوگ اگر بے کار لفظوں کی جگالی کررہے ہوں اور سب نے اپنے آپ کو پنڈت، مولوی اور فادر سمجھ لیا اور بہت ہی گٹھیا باتوں پہ بے تکان بولے اور مسلسل لکھے جارہے ہوں تو ایسے میں آپ کا دماغ سانس لینے میں مشکل محسوس کرتا ہے اور کھلی ہوا کے لئے بے چین ہوجاتا ہے۔اور ایسے میں اگر کہیں کوئی غضب کی المیاتی کہانی جو وفور تخلیق سے سرشار ہو پڑھنے کو مل جائے تو اس ٹریجڈی میں بھی آپ کا دماغ آکسجین لیتا محسوس ہوتا ہے۔مجھے اس نے بتایا کہ کل جس عورت سے وہ محبت کرتا ہے اس کی منگنی ہوگئی ہے اور اس کا دل بوجھ تلے دبا جارہا ہے اور اسے کوئی چیز اچھی نہیں لگ رہی ہے۔مجھے بہت عجیب لگا کہ یہ اسے بھی پتا تھا کہ جس عورت سے وہ محبت کئے جاتا ہے، جسے اس نے کبھی دیکھا تک نہیں اور یہاں تک کہ اس کی آواز بھی نہیں سنی اس سے کبھی ‘وصل’ نہیں ہوگا اور وہ اور وہ عورت ایک دریا کے دو کنارے ہیں بلکہ مجھے تو یوں لگتا ہے کہ دو الگ الگ دریاؤں کے کنارے ہیں تو پھر اسے یہ بوجھ کیوں مارے ڈالے جاتا ہے۔اس نے مجھے کہا کہ تم ‘ ایک مردہ ہوگئی ‘ عورت کو ‘ اجنتا کی مورتی ‘ بناکر ابتک پوجے جاتے ہو ،میں تو پھر ایک جیتی جاگتی عورت سے محبت کررہا ہوں،تمہیں اگر یہ سب سمجھ نہ آئے تو پھر کس کے آگے جاکے سر پھوڑوں میں، کہنے لگا کہ تم اس ‘مرگئی ‘ عورت کو زندہ جان کر اس کے نام خطوط لکھے جاتے ہو، کہانیاں بنتے رہتے ہو اور ایک ایسے جہان میں رہتے ہو جو تمہارے ماضی اور تمہاری فکشن کی اپج سے ملکر بنا ہے جس میں ‘حال ‘ جو بھی ہے ایک ‘افسانہ ‘ ہے اور ‘ ایک ‘اسطور ‘ ہے۔میں نے سوچا کہ میں اب اسے بتا ہی دوں اور اس سے چھپانا مجھے اب پاپ لگنے لگا تھا ۔
‘میں ایک اور عورت کے عشق میں مبتلا ہوچکا ہوں ‘۔
‘وہ تو تمہارا کوئی ‘کانٹی جینٹ لو’ ہوگا ، اس نے فوری کہا
‘نہیں ، میں عشق میں کانٹی جینسی کا قائل نہیں ہوں ‘۔
‘تم نے ایک خط میں لکھا تھا ‘ ۔۔
‘وہ تو سیمون دی بووار اور سارتر کے حوالے سے تھا ‘۔۔۔۔۔۔
‘تم بڑے فنکار ہو، چھپا جاتے ہو اپنے اصلی جذبات ، اور کبھی اپنے اندر جھانکنے نہیں دیتے، تمہاری کرمنالوجی میں ڈگری تمہارے بڑے کام آتی ہے۔تم مجرموں کی نفسیات کے اصولوں کی مدد سے ‘عام لوگوں ‘ کو پڑھتے ہو ‘
مجھے لگا کہ اس کی محبت نے اسے باطن میں جھانکنے کی صلاحیت عطا کردی ہے۔میں اس سے ڈرنے لگا ۔۔۔۔۔۔
‘نہیں، ایسی کوئی بات نہیں ہے، مجھے ایک عورت سے واقعی ویسا عشق ہوگیا ہے جیسا ‘ اجنتا جیسی اس مورت ‘ سے ہوا تھا اور میں آج کل اس کی ‘خیالات کی نراجیت ‘ میں بھی ‘ لطف ‘ پاتا ہوں’۔
‘تو کیا اب ‘اجنتا جیسی مورت ‘ سے عشق نہیں رہا؟’
‘نہیں، وہ بھی ہے ، یہ بھی ہے’
‘تو کیا بیک وقت دو عورتیں ابدی عشق کا مرکز ہوسکتی ہیں چاہے ان میں سے ایک مر ہی کیوں نا گئی ہو؟’
اس نے یک دم سے سوال کیا ،جیسے میرے سر پہ کسی نے بم پھوڑ دیا ہو، میں نے ایک لمحے کو دل کے اندر جھانک کر دیکھا اور وہ دونوں مجھے وہاں برابر برابر بیٹھے نظر آئیں اور دونوں کی نظریں مجھ پہ ٹکی ہوئی تھیں ۔اور مجھے لگا کہ وہ دونوں ایک دوسرے حال احوال کرچکی ہیں۔اور میں نے اس سے کہا
‘ ہاں،دونوں ہی ہیں اور ایک دوسرے سے واقف بھی ہوگئی ہیں’۔
‘اس دوسرے عشق کو کب اپناؤگے ؟’
‘ظاہری اپنانے کا سوال خارج از امکان ہے۔ہوسکتا ہے کہ ہم کبھی نہ ملیں اور معاملہ یونہی چلتا رہے۔میں نے خود سے اس کی آواز تخلیق کی ہے اور خود ہی اس سے ملتی جلتی آواز بنالی ہے جو میرے کانوں میں گونجتی رہتی ہے، اس کے لکھے لفظ میرے پاس پہنچتے ہیں اور میں ان سے تصویر اور آواز بناتا ہوں’
‘تم تو مائیکل اینجلو سے بھی دو ہاتھ آگے چلے گئے، وہ آوازوں سے تصویر بنالیتا تھا اور تم لفظوں سے پہلے آواز بناتے ہو اور پھر شکل بنالیتے ہو،کیا کہنے تمہارے’
اس نے جب کہا تو مجھے لگا کہ وہ غلط تو کچھ بھی نہیں کہہ رہا،میں یہی کچھ تو کررہا تھا۔
‘تم نے آج تک ‘کانٹی جینٹ لو ‘ نہیں کیا ؟ دیکھو جھوٹ مت بولنا ، میں تنگ آگیا ہوں ، تمہاری جھوٹی پرہیزگاری بارے باتیں سنکر اور یہ خدوخال سے ماورا جاکر محبت کرنے کے قصّے ‘۔۔۔۔۔
اس نے ایک اور بم پھوڑ دیا ۔میں ہل کر رہ گیا۔میں نے سوچا کہ اسے بتا ہی دوں۔
‘ اسے میں نے ایک مشاعرے کی کمپئرنگ کرتے دیکھا تھا اور اس کے بولنے کے انداز ، اس کے ہاتھ کے اشاروں، آنکھوں کی حرکت پہ مرمٹا تھا اور شاید دوسری طرف بھی یہی کیفیت تھی۔کلکتہ شہر اس دن مجھے اپنے پوری حبس زدگی اور جلد کو کالا کرنے کی صلاحیت بد کے باوجود اچھا لگنے لگا تھا۔مشاعرہ ختم ہوگیا اور میں اس کی جانب بڑھتا چلا گیا۔اس دن کوئی تمہید میں نہیں باندھی تھی اور ابتدائی تعارف کے بعد ہی اسے کہہ دیا تھا کہ میں اس پہ مرمٹا ہوں اور اس کے خدوخال قیامت ہیں۔وہ ہنسی اور اس نے اپنا لینڈ لائن فون نمبر مجھے دے دیا۔میں کلکتہ ایک ماہ رہا اور اس ایک ماہ میں اس سے میں روز گھنٹوں گھنٹوں فون پہ بات کرتا تھا۔وہ گھر ہوتی تب اور آفس ہوتی تب بھی ۔اور اس نے مجھے بتادیا کہ وہ شادی شدہ ہے اور میں نے بھی۔ہم آگے بڑھتے چلے گئے اور ایک ماہ کے اندر ہی ہماری ملاقاتیں ہونے لگیں۔اس کا شوہر ایک بینک میں کام کرتا تھا۔اور اس دوران ہم نے ساری منزلیں عبور کرلیں تھیں اور مجھے لگتا تھا کہ میں ‘عشق’ کے نئے معنی پاگیا ہوں اور وہ ہی میری توجہ کا مرکز تھی۔میرے اندر ایک نئی توانائی بھری ہوئی تھی،پھر یوں ہوا کہ وہ امید سے ہوگئی اور اسی دوران اپنے شوہر کے ساتھ وہ ‘نینی تال ‘ گئی اور وہاں سے واپس آئی تو اس کا لینڈ لائن فون بدل گیا،میں نے ایک روز اسے آفس کے رستے جاپکڑا۔وہ مجھے دیکھ کر تیز تیز چلنے لگی ، میں اس کے سامنے آگیا اور وہ اور میں ایک کیفے میں چلے گئے وہاں کیبن میں بیٹھ گئے ۔اس نے کہا میرے پاس دس منٹ ہیں اور میری بات سنو بس،’ ایک رات میرا شوہر سے جھگڑا ہوگیا تھا، اس نے مجھے ‘ جاہل عورت’ کہہ ڈالا، میرے اندر آگ لگ گئی اور اس کے کچھ دن بعد وہاں مشاعرے میں تم مل گئے اور میں جو غصّے و نفرت کی آگ میں جل رہی تھی تمہاری اس قدر ‘ عزت افزائی ‘ سے ٹرانس میں آگئی اور میں تم میں کھوگئی مگر ایک دن جب ہماری ‘ ناراضگی ‘ کو کافی دن ہوگئے تو میں ٹوٹ کر میرے قدموں ميں گرپڑا اور ہم پھر سے ایک ہوگئے اور اس دوران میں نے اسے ‘سچ ‘ بتادیا۔میرا خیال تھا کہ یہ سننے کے بعد وہ مجھے چھوڑ دے گا،لیکن اس نے مجھے نہیں چھوڑا اور کہنے لگا کہ اس میں تمہاری کوئی غلطی نہیں ہے اور پھر میں اے کافی دن آزماتی رہی اور مجھے یقین ہوگیا کہ وہ مجھ سے ‘سچا پیار ‘ کرتا ہے تو میں نے تم سے ‘ تعلق ‘ ختم کردیا۔تم اچانک مجھے بت برا لگنے لگے۔میں تم سے نفرت کرتی ہوں کیونکہ تم نے مجھے ‘اس ‘ سے ملانے کی سبیل کرنے کی بجائے اپنی ‘ ہوس ‘ کا قیدی بنالیا۔یہ کہکر وہ اٹھی اور چلی گئی ۔میں کافی دیر وہاں بیٹھا رہا اور مجھے لگا کہ میں واقعی ایک عبوری پیار کی منزل کو عشق مسلسل سمجھ بیٹھا اور میں واقعی اسے ٹرانس میں لانے کا مجرم تھا۔میں نے اس سے کوئی رابطہ نہ کیا اور وہاں سے چلا آیا۔اور اجنتا جیسی مورت والی اپنی عورت سے بہت معافی مانگی ۔وہ بہت دیالو ہے اس نے معاف کردیا تو میں دوبارہ ابدی عشق میں کھوگیا اور میں نے کسی موسم کی دستک پہ دروازہ نہیں کھولا۔آج جس عورت سے عشق مسلسل کی کیفیت ہے وہ وہ 18 سال سے ہجر کی آک میں جھلس رہی ہے اور ابھی یہ سب یک طرفہ ہے، اس کی جانب سے کوئی جواب نہیں ، کہتی ہے اندر سے کوئی آواز آئی تو جواب دے گی اور اپنا آپ کھول دے گی ۔میرا معاملہ تم جیسا ہے اور ہے بھی نہیں’
‘ آج تم مجھے بابو گوپی ناتھ لگ ہورہے ہو اور کہانی کار آج دبا دبا لگ رہا ہے، ویسے میں مجھے یقین تھا کہ اس کے مرنے کے بعد تم ‘مجرد’رہنے کا جو دعوی کرتے تھے،وہ مجھے سچ لگتا نہیں تھا اور آج یہ سب سنکر مجھے یقین ہوگیا ‘
‘نہیں میں اس وقت بھی ‘کانٹی جینیسی ‘ نہیں سمجھ رہا تھا ،میں اسے عشق مسلسل ہی سمجھ رہا تھا۔مگر اس نے مجھے اپنے لفظوں کی تلواروں سے اتنے ٹکڑوں میں بانٹ دیا کہ میں ان ٹکڑوں میں سمیٹنے میں اور بکھر گیا اور اسقدر تقسیم ہوا کہ سمجھ نہیں آتا تھا کہ کیا کروں’
‘ تم جب نشیلی محفلوں میں آتے تھے تو الگ تھلگ سے محفل سے بے نیاز سے رہتے تھے اور میں نے دیکھا تھا جب بات ہوتی وصل کی تو تمہارا چہرہ ایسے ہوتا جیسے کڑوے بادام چبا رہے ہوں، اور میں سوچتا تھا کہ تم یہ سب اندر کیوں رکھ رہے ہو باہر نکال کیوں نہیں دیتے،خود کو ہلکا کیوں نہیں کرتے۔مجھے دیکھو کہ میری مجبت اس سے اور شدید ہوگئی ہے اور میں اس کے اور قریب ہوگیا ہوں۔عشق کی نئی بہار اس خزاں سے پھوٹ نکلی ہے۔اور مجھے لگتا ہے کہ میں اس سے اور بندھ گیا ہوں۔مجھے لگتا ہے کہ اس کے اندر سے آواز جلد آنے والی ہے اور میں سرشار محبت ہونے والا ہوں’
میں بس اسے دیکھے جارہا تھا اور وہ بولے جارہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور بیک گراؤنڈ میں گانے والا گا رہا تھا ۔۔۔۔
شاماں پے گئیاں
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn