پیارے کے بی فراق،
آداب !
آپ کا مراسلہ ملا جسے آپ نے ‘اذیت نامہ’ لکھا ہے تو میں کافی دیر اسے پڑھنے کے بعد سوچتا رہا کہ جواب میں کیا لکھوں۔لیکن اس ‘اذیت نامے’ نے مجھے یہ موقعہ فراہم ضرور کردیا ہے کہ میں آپ کو اس کے جواب کی آڑ میں اپنی کیفیت اور صورت حال سے آگاہ کردوں۔میں نے ارون دھتی رائے کے لٹریری ایجنٹ کو ایک ای میل ارسال کی اور ان سے کہا کہ میں ارون دھتی رائے کا ناول اردو میں ترجمہ کرنا چاہتا ہوں اور ان سے فی سبیل اللہ اس کی اجازت درکار ہے۔ارون سے اس خط میں میں نے یہ بھی پوچھا آج کی کہانی اگر لکھی جائے تو کیسے لکھی جائے؟
ارون دھتی رائے کے ایجنٹ کے توسط سے مجھے ایک تو اجازت مل گئی اور دوسرا ان کی جانب سے میرے سوال پہ جو جواب آیا وہ کچھ یوں تھا:
‘آج جو کہانی میں لکھنا چاہتی ہوں اس کے لئے مجھے ایک اور ہی ‘زبان’ کی تلاش کرنا پڑی۔میں جب لفظ ‘زبان’ کہتی ہوں تو اس سے میری مراد انگریزی،ہندی،اردو،ملیالم بہرحال نہیں ہوتیں۔میری مراد کچھ اورہوتی ہے۔ایسی زبان جو دو الگ الگ ہوگئی دنیاؤں کو باہم جوڑ دے۔اور میرا فکشن بس اسی کوشش کا دوسرا نام ہے۔’
جان پلجر نے ایک بار کہا تھا کہ آرٹ نے مجھے سیاست میں دھکیلا ہے۔اور میں سمجھتا ہوں کہ ایک ادیب کیسے اپنے اردگرد کے ماحول سے غافل رہ سکتا ہے یا اس سے متاثر ہوئے بغیر فن تخلیق کرسکتا ہے۔
ایڈریڈو گالینو نارویجین ادیب نے ایک مرتبہ کہا تھا:
"عظیم المیہ انسانیت کا یہ نہیں کہ ہم مرجاتے ہیں یا دکھ بھوگتے ہیں یا ایک دوسرے کے لئے باعث آزار ہیں بلکہ عظیم المیہ یہ ہے ہم بھول جاتے ہیں۔اور ہم فراموش کرنے کے اتنے عادی ہوچکے ہیں اور ہمیں بھولنا اس قدر آسان ہے کہ ہم اپنے مصائب کی وجہ بننے والے حالات کو ناگزیر سمجھ لیتے ہیں اور متبادل بارے سوچتے بھی نہیں۔دنیا جو کہ چند لوگوں کی نجی ملکیت ہے اسے بھولنے کی بیماری لاحق ہے اور یہ کوئی معصوم سی بھول کی بیماری نہیں ہے۔مالک تو چاہتا ہے کہ کسی کو یاد نہ رہے کہ یہ دنیا سب کے لئے گھر ہوا کرتی تھی۔”
برادرمن،
ہمارے ادیبوں اور شاعروں اور دانشوروں کی اکثریت کا المیہ یہ ہے کہ وہ اس زبان کے متلاشی نہیں ہیں جو دو الگ الگ کردی گئی دنیاؤں کو باہم جوڑیں اور ایک زیادہ سچائی کے قریب جانے والا ادبی بیانیہ سامنے آئے۔اورپاکستان نام کی جو ریاست ہے اس کی جابر مشینری اور اس کے حکمران طبقات کا سارا زور ماضی کے دکھوں اور مصائب کو بھلادینے،فراموش کردینے کے ساتھ ساتھ آج جن مصائب کا سامنا لوگوں کو ان کو زبردستی ،دھونس، جبر اور لالچ ، وعدہ فردا کے زریعے بھلادینے پہ ہے۔ہمیں جبری گمشدگان،ماورائے عدالت قتل،نجی عقوبت خانوں،حاشیہ پہ رکھ دئے گئے شہروں، دیہاتوں،گوٹھوں،قصبوں اور علاقوں میں پھیلتی جارہی غربت،بھوک، لاچاری،اور ان علاقوں میں سوشل ویلفئیر کے نام پہ مذہبی انتہا پسندی کی آئیڈیالوجی سے لتھڑی امداد اور نئی نسل کو چلتے پھرتے دہشت گرد بنانے کا نیٹ ورک اور ان کو ملی مکمل آزادی اور ریاستی سرپرستی جبکہ حقوق مانگنے اور اپنے ساتھ ہونے والے انیائے کے خلاف آواز اٹھانے اور اپنی شناخت،وسائل اور زمین کی کالونائزیشن کے خلاف مزاحمت کرنے والوں کے خلاف بدترین ریاستی و غیر ریاستی ایکٹرز کے جرائم کو بھول جانے پہ مجبور کیا جاتا ہے۔اور جھوٹی ترقی کے قصّے کہانیاں ‘حقائق’بناکر پیش کئے جاتے ہیں۔مین سٹریم میڈیا میں اس وقت جو ڈرامے بن رہے ہیں اور اوپیرا سوپ ہیں یا انگريزی ناول لکھے جارہے ہیں ان کا مخاطب پاکستان کی شہری مڈل کلاس ہے جو مشکل سے دو فیصد ہے اور یہ اربن چیٹرنگ کلاس اکثریت میں ریاست کے ترقی کے تصور کو اسی طرح سے دل و جان سے تسلیم کرتی ہے جیسے برطانوی راج کے اندر انگریز کی ٹوڈی کلاس تسلیم کرتی تھی۔ان کا اگر کہیں کوئی تنازعہ ریاست سے کسی سطح پہ بنتا بھی ہے تو وہ بس ‘حصّہ داری’ کا ہوتا ہے۔ہماری فلم انڈسٹری ریاست کے خیالی دشمنوں اور بھوتوں سے لڑائی کی کہانیوں پہ مشتمل ہے۔یہ منٹو کو بھی مسخ کرکے اسے کارپوریٹ دنیا کی مڈل کلاس کے لئے قابل قبول بناکر پیش کرتی ہے۔
کراچی،لاہور،اسلام آباد،فیصل آبادمیں ہونے والے لٹریری فیسٹول کی سپانسر شپ مقامی اور عالمی سرمایہ دار کمپنیوں سے آتی ہے اور اس لئے ان فیسٹول میں پاکستان کی مظلوم اقوام کے وسائل کی لوٹ کھسوٹ اور اس لوٹ مار کے آڑے آنے والوں کے خلاف پاکستانی ریاستی اداروں کے جبر اور اس سب درندگی کو چھپانے کے لئے مین سٹریم میڈیا پہ لاگو ایک ان دیکھا سنسر اور خود اخباری و ٹی وی چینل مالکان کا ازخود مسلط کردہ سنسر بارے کوئی بات نہیں ہوتی اور پھر یہ فیسٹول عام لوگوں کی دسترس میں موجود جگہوں پہ نہیں ہوتے بلکہ فائیو سٹار ہوٹلوں اور اشرافیہ کے علاقوں میں منعقد کئے جاتے ہیں اور خاص برگر کلاس وہاں جاتی ہے جن کو نیوکالونیل ڈویلپمنٹ سے حصّہ ملتا ہے اور وہ اس سے پیدا ہونے والی روشنیوں کے حقدار ٹھہرتے ہیں تو انہیں اس جبر اور وحشت سے کیا لینا جس کے بل بوتے پہ یہ ترقی کی جاتی ہے۔صحافی،ادیب،شاعر جو ریاستی سرپرستی سے مستفید ہورہے ہیں ان کو گوادر لیجایا جاتا ہے۔وزیرستان کی سیر کرائی جاتی ہے اور فوجیوں کی پاسنگ آؤٹ پریڈ میں بلوچ نوجوانوں کے فوجی دستے کی سلامی دکھائی جاتی ہے۔اس دوران شاندار طعام و قیام اور موٹا سا نقدی سے بھرا لفافہ بھی ملتا ہے جبکہ ریاست کے طاقتور لوگوں سے تعلقات الگ سے بنتے ہیں اور دل و دماغ میں طاقت کا نشہ چڑھتا ہے اور اس لئے واپس آکر گوادر، وزیرستان کی ترقی کے گن گائے جاتے ہیں اور ساتھ ساتھ راء،افغان و امریکی و اسرائیلی ایجنسیوں کی کہانیاں بھی سنائی جاتی ہیں اور اگر ان میں سے کوئی لکھنے والا آل سعود کا نمک خوار ہو تو وہ ساتھ ہی ایران کی مداخلت کی راگنی چھیڑ دیتا ہے اور ایسے میں اس ملک کی دوسری بڑی مسلم آبادی شیعہ کی نسل کشی کا جواز فراہم کرتا ہے۔
پاکستان کے بڑے شہری مراکز جن کی اکثریت پنجاب میں ہے کے اکثر شہریوں کو بلوچستان،اندرون سندھ ،فاٹا اور وسطی خیبرپختون خوا کے جغرافیہ،ڈیموگرافی بارے غلط سلط معلوم ہے اور ان کا علم جغرافیہ بہت ہی کمزور ہے جبکہ ان کی تاریخی معلومات کا 99 فیصدی حصّہ وہ ہے جو ریاست اور اس کے تابع فرماں اداروں و افراد نے اس تک پہنچایا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس اکثریت کو نہ تو بنگالیوں کے مصائب کی خبر تھی اور نہ ہی اسے سندھیوں، پشتونوں،سرائیکیوں اور گلگت بلتستان کے مصائب بارے پتا تھا۔یہ کشمیر،کشمیر کرتے رہتے ہیں لیکن کشمیر کا وہ حصّہ جو پاکستان کے زیر کنٹرول ہے وہاں کیا حالات ہیں اس بارے بھی ان کا علم صفر ہی ہے۔یہاں اکثریت بلوچستان کے بلوچ اکثریت کے علاقوں کے نام تک سے واقف نہیں ہے اور ان کو یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ ان علاقوں کا باہمی فاصلہ کتنا ہے؟ان کو نہ ہزارہ کا پتا اور ذکری بلوچوں کے بارے میں اخبار پڑھنے والے بس یہ جانتے ہیں کہ انہوں نے اپنا کعبہ ایک پہاڑی پہ بنارکھا ہے۔۔۔۔وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔اور یہ جھوٹی خبر ان سے نفرت کرنے کے لئے کافی ہے۔یہ اجتماعی فراموشی ہے اور نسیان ہے جو مین سٹریم ہے۔یہ مین سٹریم آخر ہے کیا؟ہمارا مین سٹریم وہ ہے جو کل کا دو فیصد ہے اور 98 فیصد سرے سے مین سٹریم نہیں اور اندھیرے میں ڈوبا ہوا ہے۔
برادر من،
پنجاب کے شہروں میں رہنے والے ادیب سمی بلوچ،کریمہ بلوچ،فرزانہ بلوچ،زرینہ بلوچ اور ان کے جبری لاپتا ہوجانے والے پیاروں کی کہانیاں کیسے لکھے جبکہ اسے خود پتا ہی نہیں ہے کہ بلوچستان کی لینڈ اسکیپ ،ڈیموگرافی،قبیلے،لوگ کیا ہیں اور وہ کس آشوب میں مبتلا ہیں۔افضل توصیف،عبداللہ حسین تو مرگئے اور حبیب جالب بھی جن کا بلوچستان سے رشتا تھا اور تعلق بھی اور وہ آئی ایس پی آر کے فراہم کردہ ہیلی کاپٹرز اور گاڑیوں میں بلوچستان نہیں جاتے تھے۔اور نہ ہی ان کے فراہم کردہ معلومات کی روشنی میں اور پلاٹ کے ساتھ کہانی لکھتے تھے۔اور یہی حال سندھ کی کہانی بیان کرنے کے معاملے میں ہیں۔یہ جھوٹ، پروپیگنڈے اور شیطان بنانے کی تکنیک سے کہانی لکھنے کا ہنر جانتے ہیں اور جس زبان کی تلاش ارون دھتی رائے کو ہے یہ سرے سے اس کے متلاشی نہیں ہیں۔یہ تو اپنے شہروں میں ضیاء الحق کے شروع کردہ سعودیزائشن اور ریڈیکل دیوبندائزیشن کے پروسس کو ٹھیک سے اپنی کہانیوں میں بیان کرنے سے قاصر ہیں تو بلوچ نسل کشی تو ویسے ہی ان کے لئے بہت دور کا معاملہ ہے۔شیعہ نسل کشی پہ ان کے ہاں بس ایک سے دو کہانیاں پائی جاتی ہیں۔لاہور سے تعلق رکھنے والے عباس زیدی کی انگریزی کہانیاں ‘ڈھائی حرف ‘ آج تک یہاں اردو میں چھپ نہیں سکیں جو کہ ضیاءالحقی مذہبیت کو بے نقاب کرتی ہیں۔
کم از کم پنجاب میں ادیبوں،شاعروں اور دانشوروں کو میں نے آرٹ اور ایکٹوازم کے درمیان پائی جانے والی جدائی پہ بحث و مباحثہ کرتے اور اس جدائی کو ختم کرنے پہ سنجیدگی سے بات کرتے کم ہی دیکھا ہے۔آپ کے ہاں کیا حال ہے اس بارے کچھ کہنے سے قاصر ہوں۔میں سمجھتا ہوں یہ بہت ضروری ہے آرٹسٹ اور ایکٹوسٹ دونوں ایک دوسرے کی طرف بڑھیں اور ان کو کتاب کے صفحے میں اکٹھا کرنا اديب کا فرض ہے۔لیکن اس شعور کے ساتھ جینا اور پھر ساتھ ہی لکھنا آسان کام نہیں ہے۔یہ ڈھلوان پہ توازن کے ساتھ اور پروقار چلنے جیسا عمل ہے۔
مجھے ایسا لگتا ہے کہ ہمارے پاس ایک بھی لکھاری ارون دھتی رائے جیسا نہیں ہے جو آرٹ اور ایکٹوازم کی جمع بندی کرنے والی زبان اور اسلوب کا حامل ہو یا اس کی تلاش کررہا ہو۔میری رائے یاسیت پہ مبنی بھی ہوسکتی ہے یا شاید میں سندھی،پشتو،بلوچی،براہوی کو ٹھیک طرح سے پڑھ نہیں پاتا اس لئے میں اندھیرے زیادہ دیکھتا ہوں۔آپ کا کیا خیال ہے۔
میں شرمندہ ہوں کہ آپ کی طرح اسلوب کو اوج ثریا تک نہیں لیجاسکتا مگر جس قدر ہوسکتا تھا آپ کو اذیت نامے کے جواب میں ایک ایسا ہی جواب لکھنے کی کوشش ضرور کی ہے۔
والسلام
عامر حسینی
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn