قمر عباس اور حیدر جاوید سید صاحب نے فون کرکے بتایا کہ وہ ملتان ایکسپریس سے صبح ساڑھے تین بجے خانیوال اسٹیشن سے گزریں گے اور مجھے وہاں سے ان کو جوائن کرنا ہے۔ٹرین میں ان کا شریک سفر ہوا۔ڈیرہ اڈہ ملتان سے ہم کوٹ ادو جانے والی ہائی ایس پہ بیٹھے اور پھر کوٹ ادو شہر میں صدیف گیلانی اور رضوان گورمانی نے ہمیں پک کیا اور اس دوران کیا کیا ہوا،اس سب پہ تو روشنی قمر عباس ہی ڈالے سکے گا۔اس نے دو قسطوں میں یہ سب رقم کرنے کا عندیہ ظاہر کیا ہے۔مجھے یہاں کچھ اجتماعی ، سماجی اور سیاسی مشاہدات بارے بات کرنی ہے۔صدیف گیلانی کے والد پاکستان پیپلزپارٹی کے سابق ایم این اے پیر محسن علی قریشی کے یار غار ہیں اور آج کل ان کے بیٹے کے سیاسی مشیر بھی ہیں۔میں نے ان سے پوچھا کہ پی پی پی سے الگ ہونے کی وجہ کیا بنی ؟انہوں نے بتایا کہ بے نظیر بھٹو 25 دسمبر کو جب بہاولپور آئیں تو محسن علی قریشی نے ان سے ملاقات کرکے کہا،” بی بی ! میں مصطفی کھر کائنی ، نہ میں صادق قریشی بن ساں، میں تینڈا بھرا آں تے پارٹی دا وفادار ہاں اور وفادار ہی رہساں”( میں نہ تو مصطفی کھر ہوں،نہ نواب صادق قریشی بنوں گا، میں آپ کا بھائی ہوں اور پارٹی کا وفادار ہوں ،وفادار رہوں گا )۔27 دسمبر کو بے نظیر بھٹو شہید ہوگئیں ، الیکشن کیمپین چلی ، محسن قریشی ایم این اے بن گئے اور پھر وزرات عظمی کے لئے یوسف رضا گیلانی کا نام تجویز ہوگیا۔یوسف رضا گیلانی وزیراعظم پاکستان بننے کی تیاری کرنے لگ گئے۔محسن علی قریشی کو بے نظیر بھٹو نے سی ای سی کے اجلاس میں کہا تھا کہ حکومت بنی تو کابینہ میں محسن قریشی شامل ہوں گے۔آصف علی زرداری نے کابینہ کے جو نام فائنل گئے ان میں بھی محسن قریشی کا نام شامل تھا۔محسن قریشی نے اپنے قریبی ساتھیوں کو بھی اسلام آباد پہنچنے کو کہا تھا لیکن سید یوسف رضا گیلانی کے کہنے پہ یہ نام نکال دیا گیا اور بڑی سبکی محسن قریشی کی ہوئی۔اس کے بعد سید یوسف رضا گیلانی نے وزیراعظم بنتے ہی اپنی نوازشات کا رخ جنوبی پنجاب کے تمام ڈویژنوں میں خاص طور پہ ملتان ڈویژن میں 85ء کے گیلانی گروپ کے مقامی دھڑوں کی جانب کردیا اور محسن قریشی کے حلقے میں پی پی پی کے مخالف لوگوں کو ملازمتیں اور ترقیاتی سکیمیں ملنا شروع ہوگئیں۔محسن قریشی کو اس حوالے سے اعتماد میں نہ لیا گیا۔محسن قریشی اسی صدمے میں برین ہیمرج کا شکار ہوئے اور پھر جب ان کے بیٹے نے اس حوالے سے آواز اٹھانے کی کوشش کی تو محسن قریشی کو پمز اسلام آباد سے فارغ کرنے کی دھمکی بھی دی گئی۔سب سے بڑھ کر گیلانی صاحب نے ظلم یہ کیا کہ عباس قریشی مونی شاہ اور دیگر کے دباؤ میں آکر کوٹ ادو میں پارٹی کے اندر شامل کرنے اور ان کو ٹکٹ دینے کا فیصلہ کرلیا۔یہ محسن قریشی کی سیاست کا خاتمہ کرنے کے مترادف بات تھی اور محسن قریشی کی اہلیہ کو جب رکن اسمبلی بنوایا گیا تو ان کو نمک کے برابر بھی ترقیاتی فنڈز نہ دیئے گئے۔میاں عباس قریشی جیسے بھٹو خاندان کے دشمن کے ہاتھوں، پارٹی کی باگ ڈور سنبھلوانے کے سبب محسن قریشی کے بیٹے نے پارٹی چھوڑدی اور پھر آزاد امیدوار کو سپورٹ کیا گیا یعنی کھر کو جس نے پہلی بار 72 ہزار ووٹ لئےجبکہ حیدر عباس قریشی اور ان کا امیدوار چند ہزار ووٹ ہی لے پایا۔ڈیرہ غازی خان ڈویژن میں پی پی کے سیف کھوسہ سمیت کئی ہیوی ویٹ لوگ سید یوسف رضا گیلانی اور پھر مخدوم احمد محمود کی جاگیردارنہ دھڑے بندی کی سیاست کا شکار ہوگئے” – اس موقعہ جب میں دم بخود ہوکر یہ ساری داستان سن رہا تھا تو مجھےحیدر جاوید سید نے یہ بتاکر حیران کرڈالا کہ جب سے یوسف رضا گیلانی کی بہن کی شادی ہوئی تھی جو کہ ارتضی گیلانی کی والدہ تھیں ،ہر جمعرات کو کھانا یوسف رضا گیلانی کے گھر سے جایا کرتا تھا لیکن تین ہفتے ہوئے تھے سید یوسف رضا گیلانی کو وزیراعظم بنے کہ ان کی بہن نے منع کردیا کہ کھانا نہ بھیجا کریں کیونکہ ان کو اس کھانے میں "حرام کی بو ” آنے لگی ہے۔یوسف رضا گیلانی کی بہنیں وہ ہیں جن کو جاننے والی خواتین ان کی پاکیزگی اور تزکیہ نفس کی قسمیں اٹھاتی ہیں اور جنھوں نے کبھی تہجد بھی قضا نہیں کی۔حیدر جاوید سید کے بقول جس دن وزرات عظمی گیلانی خاندان کے گھر آئی ،اسی دن پانچ "ہٹیاں” کھل گئیں۔ملک منتظر مہدی مرحوم نے قصّہ سنایا تھا کہ عبدالقادر گیلانی نے ان کے بیٹے کو نوکری دلانے کی مد میں پیسے مانگے۔صفدر کھاکھی کے بیٹے کو پیسے نہ ہونے کے سبب نوکری دینے سے انکار کیا گیا۔بلاول بھٹو زرداری کو سید یوسف رضا گیلانی اور ان کے اردرگرد پھیلے لوگوں نے جنوبی پنجاب میں پاکستان پیپلزپارٹی کے لوگوں سے ملنے سے روکا۔اور اب لوگ یہ سوال کرتے نظر آتے ہیں کہ اگر سنٹرل پنجاب پی پی پی کو ترقی پسند ، روشن خیال مڈل کلاس صدر اور جنرل سیکرٹری کی ضرورت ہے تو جنوبی پنجاب میں پی پی پی کا کیا قصور ہے کہ وہاں قیادت رجعت پسندآئمہ سیاست کے رہنماء خاندان یعنی پی پی پی کے سب سے بڑے دشمن حسن محمود کے بیٹے احمد محمود کے سپرد کردی گئی ہے۔وہ کونسی مجبوری بنی کہ صدر کے لئے ممتاز عالم گیلانی کے نام کو مسترد کیا گیا۔یوسف رضا گیلانی نے اپنے وزرات عظمی کے دور میں خانیوال سے پٹے ہوئے مہروں یعنی احمد یار ھراج کو اپنا مشیر مقرر کیا اور پھر ساری نوازشات کا رخ ہراج اور ادھر 85ء میں اپنے ساتھ کھڑے میجر آفتاب احمد خان ڈاہا کی جانب کئے رکھا –پاکستان پیپلزپارٹی سرائیکی خطے میں مخدوموں ، پیروں ، زمیندار اشرافیہ اور شوگر مل و ٹیکسٹائل و یوریا مافیا کے ہاتھوں یرغمال بنادی گئی اور اس کا عام کارکن عبرت کا نشان بن کر رہ گیا۔اور یہاں جو نہ مسلم لیگ نواز میں جاسکتے تھے اور نہ ہی وہ دائیں بازو کی کسی اور رجعت پسندانہ پارٹی کا حصّہ بن سکتے تھے لامحالہ انھوں نے پاکستان تحریک انصاف کا رخ کیا۔پی پی پی نے یوسف رضا گیلانی کی قیادت میں جنوبی پنجاب کے اندر سے خود اپنے قیمتی گوہر ضائع کئے۔پی پی پی کے تنظیمی ڈھانچے کی تباہی اور اس کے بہترین سیاسی لیڈر کی بے قدری نے ایک لمبے پروسس سے گزر کر آنے والے سیاسی کارکن کو مقامی بلدیاتی دھڑوں میں ضم ہوکر اپنی سیاست بچانے پہ مجبور کردیا۔آج جنوبی پنجاب کے 11 اضلاع کے مقامی سیاسی دھڑوں کے اندر 95 فیصدی بہترین سیاسی سٹف پی پی پی کے لیڈرز پر ہی مشتمل ہے اور ان دھڑوں کی بلدیاتی ، صوبائی اور قومی اسمبلی کے حلقوں میں ونر یا کم از کم رنر اپ ہونے میں فیصلہ کن کردار ادا کررہا ہے۔لیکن پی پی پی کی قیادت جنوبی پنجاب میں پارٹی کی سیاست میں یوسف رضا گیلانی اور مخدوم احمد محمود سے باہر آکر کچھ بھی دیکھنے سے قاصر ہے
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn