"میں قریب قریب آٹھ سال بعد ح-ز سے ملنے اس کے آفس پہنچا تو وہ سامنے ریوالونگ چئیر پہ بیٹھی مجھے بالکل ایک اجنبی عورت لگی- اس نے ایک عجیب طرح کا سیاہ برقعہ پہن رکھا-ہاتھوں پہ دستانے چڑھارکھے تھے-آنکھوں پہ فینسی سیاہ رنگ کا چشمہ اور ہاتھ میں تسبیح پکڑ رکھی تھی-میں اسے بالکل پہچان نہیں پایا تھا-لیکن جب وہ بولی تو مجھے پتا چلا کہ میں اسی سے مخاطب ہوں-مری اس سے بہت بے تکلفی ہوا کرتی تھی اور وہ مری یونیورسٹی کی سب سے سرگرم سوشل اور پولیٹکل لڑکی ہوا کرتی تھی-میں نے اس سے حیرانی کے ساتھ پوچھا کہ اس نے یہ کیا حلیہ بنا رکھا ہے تو اس نے بہت ہی ٹھہرے مگر مستحکم لہجے میں کہا کہ "بس ہدائت مل گئی ہے اور لباس پہننے کا سلیقہ آگیا ہے "اور ساتھ ہی اس نے کہا کہ مولا کا کرم ہوگیا ہے-مجھ سے بات کرتے ہوئے اس کے ہاتھ دانوں کو شمار کرنے سے رکے نہیں تھے-جہاں وہ بیٹھی تھی اس کے پیچھے مجھے آیت اللہ خامنہ ای کی بڑی سی تصویر نظر آرہی تھی-میں حیرت سے مرا جاتا تھا-جو بات کرنے میں وہاں گیا تھا،اسے میں یکسر بھول گیا تھا”
آج ” خاک ،شگوفہ ،آتش ” قلم کی ڈائریکٹر و اداکارہ شبنم طلوعی کا "کیہان لندن ” ویب سائٹ پہ شایع انٹرویو میں یہ پڑھا کہ ” ایران میں عورت کا مقام آج بھی وہی ہے جو 170 سال پہلے قرۃ العین طاہرہ کے دور میں تھا ” تو بے اختیار مرے دماغ میں "ح-ز” سمیت ان درجنوں عورتوں کا سراپا گھوم گیا جن کو ایرانی انقلاب کے اسلام ازم نے یکسر بدل ڈالا تھا
ڈریس کوڈ کا بدلنا تو اس کی ایک علامت تھا-اور ڈریس کوڈ بھی پاکستانی ثقافت کے اندر سے نہیں نکلا تھا بلکہ ایرانیوں کے ہاں سے آیا تھا-پاکستانی شیعہ کمیونٹی کی اربن مڈل کلاس کی عورتوں کی یہ کایا کلپ بذات خود ایک دلچسپ موضوع تحقیق ہوسکتی ہے-کیونکہ شیعہ ویل ایجوکیٹڈ اربن چیٹرنگ کلاس کی عورتیں برصغیر پاک و ہند میں ترقی پسند تحریک کا ہراول دستہ رہیں، اور برصغیر پاک و ہند کی تقسیم سے پہلے کی عورتوں کی آزادی کی تحریک میں شیعہ عورتوں کا اہم کلیدی کردار بھی رہا اور میں جب یہ سب سوچ رہا ہوں تو مجھے کیفی ، جعفری کی بیگمات سلطانہ ، شوکت اور جناح کی بہن فاطمہ یاد آرہی ہیں
آج ہی میں نے ہیومن رائٹس ایکٹو ازم سے جڑی کچھ شیعہ پس منظر کی نوجوان لڑکیوں کو کربلاء اور نجف اشرف میں خاص ڈریس کوڈ کے ساتھ دیکھا اور ان کے سٹیٹس بھی پڑھے ، یقین کریں مری بے اختیار ہنسی چھوٹ گئی ،ہم بھی کیا ڈرامے کرتے ہیں، لیکن پھر میں نے یہ بھی سوچا کہ ہماری سوسائٹی پہ یہ نام نہاد انقلابی اسلام پسندی نے کیسا اثر ڈالا ہے-آپ ایسی تبدیلیوں کا سراغ سنّی وہابی اور سنّی دیوبندی پس منظر کی عورتوں میں بھی دیکھ سکتے ہیں-خاص طور پہ فرحت ہاشمی، ام حسان ، اور بیگم حافظ سعید عرف آپا جی کے زیر اثر آنے والی انتہائی پڑھی لکھی عورتوں ميں ، قرۃ العین نے "زنان خانے ” کو بدلنے کے ساتھ باہر مردانے کو بھی بدلنے کی کوشش کی تھی اور آج کی برقعہ پوش عورتیں "مردانے ” کو اور "مردانہ ” کرنے میں مصروف ہیں-شبنم طلوعی کا انٹرویو پڑھئیے اور سر دھنئے
شبنم طلوعی ایرانی نژاد اداکارہ، سٹیج ڈائریکٹر اور پلے رائٹر ہیں جن کو فلم بین شریں نشاط کی فلم ” مردوں کے بنا عورتیں ” (ویمن ود آؤٹ مین ) میں لیڈنگ ایکٹریس کے طور پہ یاد رکھیں گی-اس فلم نے 2009ء میں وینس فلم فیسٹول کا ٹاپ گولڈن لائن ایوارڈ جیتا تھا-طلوعی ایک انتہائی غیر معمولی خاتون پہ دستاویزی فلم بنانے کی وجہ سے ایک مرتبہ پھر توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہیں،وہ عورت جسے ایران کی پہلی فیمنسٹ خاتون خیال کیا جاتا ہے-یہ فلم 19 نومبر،2016ء اتوار کے دن لندن کے ریجنٹ سکرین سینما میں پہلی مرتبہ دکھائی گئی
"خاک شگوفہ آتش ” فلم کا موضوع ایک بے باک خاتون شاعرہ فاطمہ زریں تاج برغانی قزوینی جسے ام سلمہ ، اور پھر زکیہ اور طاہرہ قرۃ العین کے ناموں سے بھی جانا گیا ہے-
قرۃ العین طاہرہ کو گلہ دبا کر مار کر ایک کنویں میں پھینک دیا گیا تھا اور پھر پتھروں میں دبا دیا گیا تھا-اس کو اس دنیا سے گزرے 170 سال ہوگئے ہیں لیکن اس کی زندگی اب بھی ایک راز بنی ہوئی ہے-تاریخ دان یہاں تک کہ اس کے اپنے خاندان کے لوگوں نے اس کے وجود سے ہی انکار کرنے کی کوشش کی-پھر بھی یہ ان کے لئے کئی آسان کام نہیں تھا، کیونکہ دوسرے لوگوں نے اس کے بارے میں لکھا اور اس کی نظموں، اس کی زندگی اور اس کے ورثے کو مخفوظ کرلیا تھا
طلوعی کی فلم طاہرہ کی زندگی پہ روشنی ڈالتی ہے، اس کے لئے اس نے طاہرہ کی زندگی پہ مورخین اور سکالرز کی لکھی تحریروں پہ اعتماد کیا ہے-کیہان لندن نے ڈائریکٹر فلم شبنم طلوعی کا انٹرویو کیا
کے ایل : شبنم پہلے تو یہ بتائیں کہ قرۃ العین طاہرہ پہ فلم بنانے کے لئے کس چیز نے آپ کو اکسایا؟
شبنم طلوعی : میں نے ہمیشہ قرۃ العین طاہرہ کے بارے میں فلم بنانے کا سوچا، یہاں تک کہ جب میں ایران میں تھی تو تب بھی یہ خیال مرے دامن گیر تھا-یہ پروجیکٹ دو سال پہلے شرمندہ تعبیر ہوپایا-پروڈیوسر سے معاہدہ ہونے کے بعد، میں نے ریسرچ شروع کی، اور فلم کے لئے سورس میٹریل کی تلاش کی-سکرین پلے لکھنے سے پہلے، میں نے اس پروجیکٹ پہ کام کرنے والے سکالر ڈاکٹر ساغر صادقین کے سامنے سوالات رکھے-
میں چاہتی تھی کہ یہ ڈاکومنٹری حقیقت کے قریب تر رہے جتنا ممکن ہوسکے-اسی وجہ سے سکالر اور ریسرچرز جن کے مختلف خیالات تھے انہوں نے اس کے بیانیہ کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا-اور اسی وقت ، میں اس فلم کو ماہرین اور اکیڈمک کے انٹرویو پہ مشتمل دستاویز بھی بنانا نہیں چاہتی تھی-اسی وجہ سے اس فلم نے بنتے بنتے دو سال لے لئے
ایران سے متعلق جتنے مناظر ہیں اس فلم میں وہ ایران میں ہی فلمائے گئے-بہت سے ایرانیوں کو قرۃ العین کا پتہ ہی نہیں تھا اور جو جانتے تھے ، ان کی رائے تقسیم تھی-کچھ کے لئے وہ انقلابی اور باغی شخصیت ہے-کچھ اسے بطور ادیب جانتے ہیں-اور کئی دوسرے اس پہ کفر کا الزام لگاتے ہیں-جب کہ کئی ایک اسے بطور صوفی اور مقدس عورت کے طور پہ دیکھتے ہیں
کے ایل :ایسی شخصیت کو آج دریافت کرنے کا مقصد کیا ہے ؟
شبنم طلوعی: ایران میں عورت کا مقام بدقسمتی سے آج بھی وہی ہے جو 170 سال پہلے تھا، جب قرۃ العین حیدر نے اپنی آزادی رائے کے حق پہ اصرار کی قیمت اپنی جان دیکر چکائی تھی- آج جب 2016ء ہے تو ایک وکیل مہر انگیز کار کو ایران میں رہنے کی ابازت نہیں ملی-نسرین ستودے کو جیل میں ڈال دیا گیا اور اسے وکالت کرنے کی اجازت نہیں ہے-انسانی حقوق کی رضاکار نرگس محمود کو ایک بار پھر دس سال قید کی سزا سناکر قید کردیا گیا ہے-اور متعدد قید مائیں جن کو سہری آزادیوں کی کمپئن کرنے کی پاداش میں قید میں ڈالا گیا بڑی سزا بھگت رہی ہیں
یہاں تک کہ ایک صحافی کے طور پہ بھی آپ اپنے ملک میں آزادانہ زندگی بسر کرنے اور آزادی سے کام نہیں کرسکتے-مجھے بھی وہان کام کرنے نہیں دیا گیا-اور بہت سے لوگ سچ بولنے اور انسانی حقوق کی آواز اٹھانے کی پاداش میں پیچھے دھکیل دئے گئے یا جیلوں میں ڈال دئے گئے-تو اصل میں قرۃ العین طاہرہ کے بارے میں بولنے کا یہ بہترین وقت ہے
کے ایل : اس فلم کو بنانے میں آپ کے زرایع کیا تھے ؟
شبنم طلوعی : جب قرۃ العین کو پھانسی دے دی گئی یا خفیہ طور پہ لٹکادیا گیا، مورخ کہتے ہیں،ان کے خاندان نے۔۔۔۔۔ ذلت کے خوف سے —– وہ سارا ریکارڈ اور دستاویزات تباہ کردیں جو اس کے بطور شاعر ہونے کا ثبوت فراہم کرتی تھیں-وہ ایک عروف برغانی مذہبی خاندان میں قزوین میں پیدا ہوئی تھیں-ان کے خاندان کے زیادہ لوگ ابھی شیعہ مذہب کے عالم ہیں-ان کے خاندان کے کچھ لوگ کربلاء رہتے ہیں-ایک حصّہ ایران میں رہتا ہے
ایران میں قرۃ العین طاہرہ کے خاندان کے جو لوگ رہتے ہیں، طاہرہ سے ان کا رشتہ ان کو اب بھی مشکل میں ڈالتا ہے-ڈاکٹر علی اکبّر صالحی سابق وزیر خارجہ ایران جو اب ایران کی ایٹمک انرجی آرگنائزیشن کے سربراہ ہیں پہ ایک عرصے سے صرف اس وجہ سے تنقیدی حملے ہوتے ہیں کہ وہ قرۃ العین طاہرہ کے رشتہ دار ہیں
پہلی شخصیت جس نے قرۃ العین طاہرہ کی سوانح عمری لکھی وہ ایک امریکی خاتون
مارتھا لوئس روٹ تھیں-اس نے ایران کا سفر کیا، طاہرہ کے خاندان سے ملی-خاص طور پہ ان سے جو طاہرہ سے اس کی زندگی میں ہی واقف تھے-اور ہر ایک چیز کو ریکارڈ کرکے کتاب میں لکھا جو کہ 1938ء میں شایع ہوئی
تب سے اب تک بہت ہی مفید تحقیق ہوچکی ہے-اور یہ آرکیالوجیکل دریافتوں کی طرح ہے-کسی نے ایک دستاویز ڈھونڈ نکالی، کسی نے اس کی تحریر کا ٹکڑا ڈھوںڈ نکالا-اور کسی نے دوسرا اور دوونوں ایک دوسرے کے الٹ-تو اس تضاد کو دور کرنے میں دس سال لگ گئے-کچھ عصر حاضر کے ریسرچرز کا میں یہاں زکر کرسکتی ہوں: ڈاکٹ عباس امانت، ڈاکٹر فرزانہ میلانی ، ڈاکٹر موجان مومن اور ڈاکٹر محمد حسینی
کے ایل:قرۃ العین طاہرہ اور فیمنسٹ تحریک کا باہم رشتہ کیا ہے ؟ کیا ایسا تعلق بنتا بھی ہے ؟
فیمنسٹ تحریک بہت ہی جدید خیال ہے-جب قرۃ العین طاہرہ نے اپنے چہرے سے حجاب ہٹادیا یا برقعہ اتار دیا اور اپنے چہرے کو ظاہر کردیا تو اس وقت یورپ اور امریکہ میں عورتوں نے ابھی اپنے حقوق کے لئے لڑنا شروع ہی کیا تھا-اس رویہ کے ساتھ وہ اپنے گھر کے اندرون یا حرم سے باہر آکر مردوں کی دنیا میں داخل ہوگئی-اور اس طرح کا عمل 19 ویں صدی میں بہت بڑی سزا کا مستحق ٹھہرتا تھا اور بہت بے باک اور انقلابی اقدام خیال کیا جاتا تھا-
کہا جاتا ہے کہ قرۃ العین نے اپنے شوہر کو بتادیا تھا:”نہ صرف یہ کہ تم مری حمائت کرنے سے گريزاں ہو بلکہ مجھے پریشان کرنے کا سبب بن رہے ہو-تو میں تمہیں طلاق دیتی ہوں-اور آج کے بعد مرا تم سے کوئی تعلق غیر قانونی ہوگا”آج کے ایران میں بھی کسی عورت کے لئے اس طرح کا عمل ناممکن ہے-ایک عورت جو اپنے بارے میں ایسے فیصلے کرتی ہو تو وہ دوسری عورتوں کی آزادی بارے بھی ضرور سوچتی ہوگی
طاہرہ قرۃ العین کے اقدامات اور اس کی مختصر سی زندگی کا آج کی عورتوں پہ بڑا اثر ہے-اس کی زندگی دنیا کی بڑی نامور جامعات میں تحقیق اور لیکچرز کا موضوع بن چکی ہے-ایران کی حکومت نے قرۃ العین طاہرہ کو غیر معتبر بنانے اور اس کا احترام نہ کرنے کی بڑی کوشش کی ہے لیکن اس کے باوجود وہ ایرانیوں کے تنگ دائرے سے باہر نکل گئی ہے اور اسے عالمی پہچان مل چکی ہے-جب مرد اور عورتیں جو جینڈر مساوات کے متلاشی ہوتے ہیں اور ایران کے دس لاکھ باشندے اس پہ دستخط کرتے ہیں تو وہ قرت العین کی نظم کو اس کی علامت کے طور پہ استعمال کرتے ہیں اور یہ اعلان کرتے ہیں”وہ گھر گھر ، در بہ در ، گلی بہ گلی اور کوچہ بہ کوچہ جائیں گے اور عورتوں میں بیداری پیدا کریں گے
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn