Qalamkar Website Header Image

اورئنٹل ازم ، مغالطے اور اسلام – عامر حسینی

یورپی زبانوں میں اسلام کے بارے میں اکثر کتابوں کا جب مطالعہ کیا جاتا ہے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان میں اکثر تحریفات اور غلط مطالب کی بھرمار ہوتی ہے۔قرون وسطیٰ میں تو خاص طور پہ جن کو ہم مستشرقین یا اورئنٹلسٹ کہتے ہيں انہوں نے اسلام کی بہت غلط تصویر پیش کی اور آج مغرب میں اسلامو فوبیا کے زیر اثر سامنے آنے والی تحریریں بھی اس سے مختلف نہیں ہیں۔اور مسلم نژاد بہت کئی ایک لکھاری اور دانشور اسی اسلامو فوبیا کے زیر اثر اسلام کے خلاف اعلان جنگ کئے ہوئے ہیں۔بلکہ ایک سوئس جرنلسٹ راجر ڈو پاسکیور Roger Du Pasquier اس حوالے سے لکھتا ہے :
مسیحی یا مسیحیت سے دست بردار ہوجانے والا مغرب اب بھی حقیقی اسلام سے ناآشنا ہے۔جب سے یہ دنیا کے منظر نامے پہ نمودار ہوا اور انہوں نے اسے دیکھنا شروع کیا تب سے انہوں نے ہمیشہ اس کی توہین کی اور اس کے خلاف اپنی جنگوں کا جواز تلاش کرنے کے لئے اسے مطعون کیا۔یہ ہمیشہ تحریف اور مسخ کئے جانے کا نشانہ بنا اور آج بھی اس کے نشانات دیکھے جاسکتے ہیں۔بہت سے مغربی ایسے ہیں جن کے نزدیک اسلام تین چیزوں کا مجموعہ ہے : جنونیت،تباہ کاری اور کثرت ازواجیت۔لیکن ایسے لوگ بھی موجود ہیں جن کے خیالات اسلام کے بارے میں بہرحال مسخ شدہ نہیں ہیں۔
اسلام مغربی اورئنٹلسٹ کے ہاں ایک عرصے سے زیر مطالعہ ہے۔اس موضوع پہ بہت بڑا ادب شائع ہو چکا ہے۔لیکن تاریخی میدان میں یہ ورثہ کافی مشکوک ہے۔اس نے مسلم مذہب کو سمجھنے میں کچھ زیادہ بہتر کردار ادا نہیں کیا۔اور اکثر و بیشتر مستشرقانہ علم و تحقیق مغرب میں خالص علمی مقاصد کے لئے نہیں تھی بلکہ اس کا مقصد اسلام کو بدنام کرنا اور اس کی بری تصویر بناکر دکھانا تھا۔یہ رجحان کالونیل ازم کے دور میں زیادہ طاقتور ہوا۔اور یہ کہنا غلط ہوگا کہ پوسٹ کالونیل دور میں یہ رجحان ختم ہوچکا ہے۔
یہ چند ایک وجوہات ہیں جن کی وجہ سے مغرب میں آج بھی اسلام کے بارے میں غلط فہمیاں موجود ہیں۔جبکہ گزشتہ صدیوں میں جو ایشیائی مذاہب ہیں جیسے بدھ مت اور ہندؤ مت ، مغرب کا رویہ ان کے بارے میں کافی ہمدردانہ ہے اور اس میں دلچسپی بھی لی جارہی ہے۔لیکن اسلام میں زیادہ تر دلچسپی منفی انداز کی ہے۔

(From Unveiling Islam, by Roger Du Pasquier, pages 5-7)

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بنیاد پرستی اور سیاسی اسلام پسندوں میں یہ جو تکفیری اور جہادی برانڈ ابھرے ہیں اور انہوں نے جو تشدد اور عسکریت پسندانہ کلچر پیدا کیا ہے اس سے بھی اسلام کا امیج بری طرح متاثر ہوا ہے اور اسلامو فوبیا کو تقویت ملی ہے۔لیکن اسلاموفوبیا مغربی عناصر اور ان کے حامی لبرل کے ایک سیکشن نے تکفیر ازم اور جہاد ازم کی بنیادیں سلفی ازم، دیوبندی ازم اور ان جیسے دیگر عسکریت پسند ،جنگجو ماڈل میں تلاش کرنے کے بجائے انہوں نے الٹا اسلام کے خلاف ہی محاذ کھول دیا ہے اور اس مقصد کے لئے انہوں نے قرون وسطیٰ کے اورئنٹلسٹ اسلام دشمن بیانیہ اور ادب کا سہارا لیا ہے۔ایک فرنچ دانشور میورک بیوکیلا اس حوالے سے لکھتا ہے:
آپ جب کبھی اسلام کا تذکرہ ایک کچے پگّے مغربی مادیت پرست کے سامنے کرتے ہیں تو وہ بہت مضحکہ خیز انداز میں ایک ظنزیہ مسکراہٹ چہرے پہ لے آتا ہے۔اور ایسی باتیں کرتا ہے جس سے اس کی اسلام کے بارے میں جہالت کا اندازہ بخوبی ہوجاتا ہے۔اگر ایسے نام نہاد مادیت پرست مغربی دانشوروں کا جائزہ لیا جائے تو صاف اندازہ ہوجاتا ہے کہ اسلام کے بارے میں ان کا مبلغ علم بہت ہی ناقص ہے اور اسلام کی تاریخ ، اس کے عقائد اور مقاصد کے بارے میں جو تخریب اور مسخ شدگی ہوئی ہے اسی پہ ان کا سارا علم منحصر ہے جسے اورئنٹل ازم کہا جاتا ہے یہ مغرب میں پھیلی اسلام کے بارے میں فکری غلط فہمیوں کا سب سے بڑا سرچشمہ ہے۔خود مغرب میں سنجیدہ علمی حلقے یہ کہتے ہیں کہ اسلام کے بارے میں اکثر منحرف خیالات اور مسخ شدہ رجحانات میڈیا سے سامنے آتے ہیں چاہے اخبارات ہوں یا ٹیلی ويژن یا سوشل میڈیا۔اور وہاں پہ یہ زیادہ تر خیالات اورنئٹلسٹ ، عربسٹ اور اسلامسٹ ماہرین سے لئے جاتے ہیں۔
مغرب کی جامعات میں پہلے”اورئنٹل اسٹڈیز” کے نام سے شعبہ ہوتا تھا اسے اب "ایریا اسٹڈیز” یا "ریجنل اسٹڈیز”کا نام دے دیا گیا ہے۔کیونکہ اورئنٹل ازم سے کالونیل اور سامراجیت کے منفی تصورات جڑے تھے۔لیکن ایسے لوگ جو اسلام کے بارے میں جاننے کے خواہش مند ہوتے ہیں اکثر اس موضوع پہ وہ یا تو مستشرقین کا مواد پڑھتے ہیں یا پھر ان کا سامنا تکفیر ازم ، جہاد ازم سے مغلوب سعودی فنڈڈ سلفی ازم یا دیوبندی ازم سے ہوتا ہے۔اس کے پہلو بہ پہلو کسی حد وہ کم طاقت کے ساتھ اور کم پیمانے پہ جمہور اہلسنت ، جمہور اہل تشیع اور سیکولر ،ترقی پسند نکتہ نظر سے بھی چیزوں کو دیکھنے والے سکالرز کو پڑھتے ہیں۔لیکن زیادہ انحصار اورئنٹل ازم پہ ہوتا ہے۔اورئنٹل ازم کو اسلام کے بارے میں علم کا سرچشمہ سمجھنے والوں کو ایڈورڈ سعید کی کتاب اورئنٹل ازم کا مطالعہ ضرور کرلینا چاہئیے۔اس نے بہت وضاحت سے بتایا کہ اورئنٹل ازم کا مقصد صرف علمی تحقیق نہیں تھا۔اس نے اورئنٹلسٹ اپروچ کے نقص کو بہت واضح طور پہ بیان کیا:

یہ بھی پڑھئے:  کورونا وائرس' مناسب اقدامات لیکن تاخیر سے

. . . by Orientalism I mean several things, all of them, in my opinion, interdependent. The most readily accepted designation of for Orientalism is an academic one, and indeed, and indeed the label still serves in a number of academic institutions. Anyone who teaches, writes about, or researches the Orient and this applies whether the person is an anthropologist, sociologist, historian, or philologist either in its specific or its general aspects, is an Orientalist, and what he or she does is Orientalism. (From Orientalism, by Edward W. Said, page 2)

مشرق کے بارے میں جو بھی پڑھاتا ہے یا لکھتا ہے وہ اورئنٹلسٹ یا مستشرق ہے

To speak of Orientalism therefore is to speak mainly, although not exclusively, of a British and French cultural enterprise, a project whose dimensions take in such disparate realms as the imagination itself, the whole of India and the Levant, the Biblical texts and the Biblical lands, the spice trade, colonial armies and a long tradition of colonial administrators, a formidable scholarly corpus, innumerable Oriental "experts” and "hands”, an Oriental profess orate, a complex array of "Oriental” ideas (Oriental despotism, Oriental splendor, cruelty, sensuality), many Eastern sects, philosophies, and wisdom domesticated for local European use the list can be extended more or less indefinitely. (From Orientalism, by Edward W. Said, page 4)
ایڈورڈ سعید کی تعریف سے اخذ ہوتا ہے کہ اورئنٹل ازم کے بارے میں بولنے کا مطلب برطانوی اور فرانسیسی کلچرل انٹر پرائز کے بارے میں بات کرنا ہے۔اور اس میں سارا انڈیا ،شام ، بائبلی متون ،بائبلی سرزمین، مصلحہ جات کی تجارت، نوآبادیاتی افواج،کالونیل ایڈمنسٹریشن کی لمبی روايت،مستحکم مفکرین کے دستے،بے شمار ماہرین اور مشرقی پروفیسرز ،بہت ہی پیچیدہ مستشرقی خیالات کا دائرہ ،بہت سے مشرقی فرقے اور دانش مقامی یورپی استعمال کے لئے مقامیائے گئے خیالات وغیرہ اس منصوبے میں شامل ہیں۔جب آپ مسئلے سے واقف ہوجاتے ہیں تو آدھی لڑائی آپ جیت جاتے ہیں۔سچ کا متلاشی ایک مخلص شخص جب اسلام اور مغرب کے درمیان کھڑی غلط فہمیوں کی ایک لمبی دیوار سے واقف ہوجاتا ہے اور یہ سمجھ لیتا ہے کہ مستشرقیت ہو کہ بنیاد پرستانہ جہادی و تکفیری فاشزم ہو یہ اسلام کا مستند علم فراہم نہیں کرتے تو معاملہ سمجھنا مشکل نہیں رہتا۔ایڈورڈ سعید نے اورئنٹل ازم کو یورپی سامراجیت اور کالونیل ازم کی کلچرل انٹرپرائز کہا تو غلط نہیں کہا۔اس نے اس کتاب میں تفصیل سے اس پہ روشنی ڈالی ہے ۔

یہ بھی پڑھئے:  کے بارے میں چشم کشا حقائق-مفتی منیب الرحمن(حصۂ اول) DNA

اورئنٹل آزم کی تاریخ اسلام کے سرچشموں کو تعصب کے بغیر دیکھنے کی کوئی ایک بھی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے اور اکثر یہ مسیحی حکمرانوں اور ان کے گندے سیاسی عزائم تلے دب جاتی ہے۔جان آف دمشق سے لیکر اسلام کے خلاف بعد کے عذر خواہ لکھاریوں تک نے اپنے پڑھنے والوں کو یہی بتایا کہ تین بتوں کو مسلمان پوجتے ہیں۔پورے قرون وسطی میں قرآن کا ایک انتہائی مسخ شدہ ترجمہ پڑھایا جاتا رہا جس میں اضافی ابواب تک شامل کردئے گئے تھے۔قرآن کے غلط تراجم کے ساتھ ساتھ روڈویل،میور اور دیگر نے پغیمبر اسلام کے کردار اور شخصیت پہ حملے کئے۔اکثر اختراعی کہانیاں یا ایسی روایات جن کو مسلمانوں نے خود ضعیف کہا ہوتا تھا یا پھر مسلمانوں کے موقف کو مسخ کرکے پیش کردیا جاتا تھا۔یا پھر مسلمانوں میں مروج رسوم ورواج کو اسلام کی تصویر بناکر پیش کردیا جاتا تھا۔ نارمن ڈئینل ہمیں اپنی کتاب "اسلام اور مغرب "میں بتاتا ہے کہ اسلام پہ غلط اور جھوٹے شواہد کے ساتھ حملہ آور ہونا عالمگیر رجحان بن گیا تھا۔
قرآن کے معانی یا مسلمان جو سوچتے ہیں اس مطلب کو یا جو مسلم فکر تھی یا پیش آمدہ واقعات و جالات میں جو مسلمانوں نے کیا اس کو نظر انداز کرنے کا غیر متبدل رجحان ناگزیر طور پہ قرآنی اور دوسری ڈاکٹرائن ایسے پیش کرنے بارے بتاتا ہے جو مسیحوں کو (اسلام کے غلط ہونے ) کا قائل کرسکیں۔اور اس نے زیادہ سے زیادہ مغرب اور مسلمانوں میں فاصلے پیدا کرنے کا کام کیا۔شیڈ مختلف تھے لیکن فریم ورک ایک ہی تھا۔اور اسلام کی ایک گمراہ کن تصویر پیش کردی گئی۔ایڈورڈ سعید نے اپنی کتاب میں نارمن ڈئینل کی کتاب کا اقتباس پیش کرکے یہی بتانے کی کوشش کی ہے۔
اور آج اورئنٹل ازم کے ساتھ ساتھ اسلام کے جمہور کا جو موقف اور رجحان ہے اس کو مسخ کرنے اور انتہائی بری شکل میں پیش کرنے کے ذمہ دار سعودی فنڈز سے چلنے والے ادارے اور ان کے پیش کردہ تصورات بھی ہیں۔یہ براہ راست اسلاموفوبیا کو طاقت بخشتے ہیں۔تکفیری یا جہادی سلفی ،دیوبندی فاشزم ہے جو اسلام کی ڈی مونائزیشن کے پروسس کو آکسجین فراہم کرتا ہے۔اور یہ دونوں بظاہر ایک دوسرے کے دشمن نظر آتے ہیں لیکن ایک دوسرے کے مددگار ہیں۔

حالیہ بلاگ پوسٹس